چار درویش اور کچھوا: بدقسمت اردو ناول کے تابوت میں ایک اور کیل


سید کاشف رضا کا ناول ”چار درویش اور کچھوا“ پڑھتے کے بعد میری حالت بعینہٖ ویسی ہی تھی جیسی کچھ سال قبل ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات کے سلسلے میں منعقدہ ایک جلسے میں ہوئی تھی۔ واقعہ یوں ہے کہ الیکشن سے ایک روز قبل صدارتی امیدوار کا جلسہ تھا، امیدوار موصوف انتہائی درمیانے درجے کا وکیل تھا اور ڈری ڈری محتاط طبیعت کا مالک، ایک بھلا مانس آدمی تھا۔ سٹیج سیکرٹری، جو امیدوار کا قریبی دوست بھی تھا، اسے دعوتِ خطاب دیتے ہوئے جذباتی ہوگیا اور ان الفاظ میں اسے مدعو کرنے لگا: وکلاء کی آن، وکلاء کی شان، نڈر، دلیر، کبھی نہ بکنے والا، کبھی نہ جھکنے والا، شیرِ بار، فخرِ بار، عظیم قانون دان، زبدۃ الوکلاء، تشریف لاتے ہیں جناب فلاں فلاں باگڑی صاحب۔ جیسے ہی امیدوار خطاب کے لیے تشریف لایا، مجمع حیران پریشان کبھی امیدوار موصوف کو دیکھتا اور کبھی اس کے لیے بولے گئے القابات کو ذہن میں لاتا ا۔ مجھ سے برداشت نہ ہوا۔ میں سیدھا سٹیج پر گیا، مائک پکڑا اور سٹیج سیکرٹری سے درخواست کی: ”یار! اسے بلا نا جس کا تذکرہ کر رہا تھا۔“

”کچھوا اور چار درویش“ کی بڑی دھوم سنی تھی۔ بڑے بڑے ادبی سورماؤں کا خیال تھا کہ اردو ادب میں جنس پر لکھا گیا اب تک کا سب سے بڑا ناول ہے۔ مجددینِ ادب کے اس پر کیے گئے، جناتی اصطلاحات سے مزین تبصرے بھی وافر مقدار میں پڑھ رکھے تھے۔ آتشِ شوق عرصے سے دل میں بھڑک رہی تھی کہ اس تاریخ ساز ناول کو پڑھا جائے لیکن بوجہ پیشہ ورانہ مصروفیات موقع نہیں مل رہا تھا۔ لاک ڈاؤن کے دوران بالآخر یہ تمنا پوری ہوگئی، لیکن ناول پڑھ کر حالت یہ ہے کہ تبصرہ نگاروں کو ڈھونڈ کر یہ پوچھنا چاہ رہا ہوں :حضور! وہ ناول کہاں ہے، جس کا تذکرہ آپ اپنے تبصروں میں فرما رہے تھے۔

” چار درویش اور کچھوا“ کا آغاز ایک ابتدائیہ بعنوان ”راوی کا بیان“ سے ہوتا ہے۔ یہ خام نثر کا شاہکار ہے۔ جگہ جگہ کہانی اور راوی کا پہاڑہ سنایا گیا ہے۔ چند سطور ہی میں کس سخاوت اور دریا دلی سے کہانی کا لفظ برتا گیا ہے، ملاحظہ فرمائیے :

” لیکن یہ بھی حقیقت ہو گی کہ آپ کی جوڑی ہوئی کہانی آپ کی کہانی ہوگی اور میری جوڑی ہوئی کہانی میری کہانی۔ یہ سوال پھر بھی باقی رہے گا کہ یہ پانچوں کردار اگر اپنی کہانی خود کہہ سکنے پر قادر ہوتے تو کیسی کہانی کہتے۔“

چار صفحات کے ابتدائیہ میں 54 مرتبہ کہانی کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قاری کے ذہن پر تازیانے کی طرح برستا ہے۔ کم و بیش اسی دریا دلی کا مظاہرہ لفظ راوی کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔

ابتدائیہ سراسر مہمل ہے جس سے معنوی طور پر قاری کو کچھ بھی حاصل وصول نہیں ہوتا۔ اس میں راوی تشخص کے بحران کا شکار نظر آتا ہے جسے خود سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اصل میں ہے کون۔ کبھی سرتاپا راوی، کبھی کردار، تو کبھی سربسر مصنف۔ کہیں کرداروں کی کہانیوں کی پوٹلیوں میں سے روایتیں ٹٹولتا، راوی ہے، کہیں واقعہ کو بصارتوں میں انڈیلتا بطور کردار، شاہد تو کہیں کہانی کے کرداروں کو ”اپنے کردار“ کہہ کر مخاطب کرتا، مصنف۔

مسئلہ لیکن ہر طرف سے ٹیڑھا ہے۔ اگر وہ واقعی راوی ہے تو اس کی روایت فقط واقعات کے بیان کی حد تک قابلِ قبول ہوگی۔ کسی کردار کے خوابوں اور داخلی کیفیات سے متعلق بات کرنا، جو ناول میں جا بجا کی گئی ہے، اپنی حیثیت سے تجاوز کرنا ہوگا۔ کرداروں کے خوابوں اور داخلی کیفیات و محسوسات کا بیان اسی صورت میں قابلِ اعتبار ہوگا، اگر راوی کو انہوں نے اس بابت آگاہ کیا ہو۔ اس آگاہی کا حوالہ پورے ناول میں موجود نہیں۔ یہ تحریر کا وہ کچا پن ہے جو فقط تصنیفی مشقت، بار بار دہرائی اور بے رحم ادارت ہی سے دور ہوسکتا تھا۔ راوی کے ناقابلِ اعتبار اور کاذب ہونے کا اعتراف بہرحال ابتدائیہ میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے :

”آپ بھی تو کہانی پڑھتے ہوئے ادھر ادھر کی باتیں سوچتے ہیں۔ ابھی بھی تو سوچ رہے ہیں نا؟ میں نے بھی ایسی باتیں سوچ لیں، اور بہت سی باتیں کر بھی لیں، تو کیا ہوا؟“

اگر راوی بھی ناول کا کردار ہے اور بطور مصنف، کرداروں کے واقعات و کیفیات بیان نہیں کررہا تو اس صورت میں بھی ناول نگار اس تکنیک کی باریکیوں، فنی نزاکتوں اور ضروریات کو کلہم نظر انداز کر گیا ہے۔

یہ بات تو راوی اور اس کے بطور کردار کے باب میں ہوئی۔ اگر راوی کو مصنف تسلیم کرلیا جائے تو ناول کی خام نثر، ناقص بیانئے۔ کمزور کردار نگاری اور سوقیانہ زبان کی ذمہ داری لینا ہوگی جس سے بصورتِ دیگر بھی ناول نگار کو مفر نہیں۔

مزید بات کرنے سے پیشتر ناول کی کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔ اسے چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جو زیادہ تر تحصیلدار دار اقبال محمد خان اور اس کے بیٹوں جاوید، آفتاب اور بالے کی زندگیوں کے گرد گھومتی ہے۔

باب اول جاوید اقبال سے متعلق ہے جو پیشے کے لحاظ سے ایک صحافی ہے اور اور گلشن اقبال کے ایک فلیٹ میں اپنے پالتو کچھوے ارشمیدس کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ جاوید جنسی طور پر ناآسودہ کردار ہے، کرینہ کپور اس کی پسندیدہ اداکارہ اور اس کے نزدیک جنس کا معیار ہے اور وہ اسی معیار کو مختلف جسموں میں ڈھونڈ رہا ہے۔ زرینہ اس کے سامنے والے فلیٹ میں رہتی ہے جس کا شوہر صادق عرف ککی بھائی ایک مخبوط الحواس قسم کا آدمی ہے جسے عجیب و غریب خواب آتے ہیں۔

جنسی بھوک کا مارا جاوید، زرینہ کو اپنی کھڑکی سے چھپ چھپ کر دیکھتا ہے اور بالآخر اس سے جنسی طور پر متمتع بھی ہوجاتا ہے۔ جاوید کے آفس میں مشعال نامی ایک لڑکی کام کرتی ہے جسے جاوید پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کا خواہاں ہے۔ مشعال بھی اسے پسند کرتی ہے لیکن اسے ایک چینل میں اینکر کی ملازمت ملتی ہے اور اس کی ترجیحات تبدیل ہو جاتی ہیں۔ جاوید واپس زرینہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے جواب اس سے تائب ہو چکی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے قافلے پر کارساز میں ہونے والا حملہ بھی اس باب کا حصہ ہے جس میں ککی بھائی بھی زخمی ہوتے ہیں۔ جاوید انھیں ان کے گھر چھوڑ کر آتا ہے جہاں پہلی مرتبہ اسے زرینہ سے روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے۔

باب دوم آفتاب اقبال سے متعلق ہے جو جاویداقبال کا سوتیلا بھائی ہے۔ آفتاب پروفیسر ہے لیکن ازاں بعد پروفیسری چھوڑ کر وکیل بن جاتا ہے۔ آفتاب اپنی سٹوڈنٹ سلمیٰ کو چاہنے لگتا ہے۔ سلمیٰ بھی آفتاب کو پسند کرتی ہے۔ آفتاب کی والدہ احمدی فرقے سے تعلق رکھتی ہے جس کا علم سلمیٰ کے باپ کو ہوجاتا ہے جو اسے فون کرکے دھمکی دیتا ہے کہ تمہاری حقیقت ہم پر آشکار ہو چکی ہیں لہذا تم استعفی دے کر چلے جاؤ ورنہ میں تمہارے خلاف جنسی ہراسانی کی انکوائری شروع کرا دوں گا۔

ارسطو اور افلاطون کے ممیس یعنی حقیقت کی نمائندگی کے نظریہ اور اس کے ادب، فلسفہ، آرٹ، کلچر، سیاست اور سماجیات پر اثرات کے حوالے سے مباحث بھی اس باب کا حصہ ہیں۔ مزید یہ کہ آفتاب اور سلمیٰ اپنی پہلی ڈیٹ پر پرویز مشرف، القاعدہ، طالبان، شپنگلر، اقبال اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے حوالے سے جو گفتگو کرتے ہیں وہ بھی اس باب میں شامل ہے۔

بات سوم جاوید اقبال کے کچھوے ارشمیدس کا باب ہے۔ اس میں وہ اپنا تعارف کرواتا ہے اور کچھوؤں سے متعلق سائنسی و ارتقائی معلومات بھی فراہم کرتا ہے۔ ارشمیدس اس باب میں انکشاف کرتا ہے کہ راوی کے کرداروں کو جتنا وہ جانتا ہے اتنا کسی راوی کا باپ بھی نہیں جانتا۔ مزید برآں کچھوا لو میکنگ کے فکری عوامل بھی تفصیل سے بیان کرتا ہے جسے راوی ہفوات بافی سے معنون کرتا ہے۔

باب چہارم میں بالا دی ویجی گاٹ کی کہانی بیان ہوئی ہے۔ بالا، آفتاب اور جاوید کا بھائی ہے۔ یہ ولدالحرام ہے اور ان کے والد کے عالمگیر نامی خاتون سے جنسی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ بالا، عالمگیر کے دیگر بچوں سے رنگت میں بالکل وکھرا ہے اور اجلا، گوراچٹا ہے جس پر عالمگیر کے خاوند کو بھی تقریباً یقین ہے کہ یہ اس کی اولاد نہیں۔ بالا عالمگیر، اس کے خاوند شوکت اور گاؤں کے لوگوں کی گالیاں کھاتا، پھٹکاریں سنتا جوان ہوا ہے۔

بالا رفیق نامی نوجوان سے نفرت کرتا ہے۔ رفیق بالے کی بہن نسرین میں دلچسپی لیتا ہے اور ببانگِ دہل پورے گاؤں کو بازاری انداز میں اس بابت بتاتا پھرتا ہے۔ بالا بربنائے غیرت رفیق کو قتل کر دیتا ہے اور گاؤں سے فرار ہو کر جہادیوں کے ساتھ شامل ہو کر خودکش بمبار بن جاتا ہے۔ جہادی لڑکوں کے ساتھ بسلسلہ ٹریننگ، لواطت، اور اس کے حربی اغراض و مقاصد کا بیان بھی اس باب کا روشن حصہ ہے۔

پانچواں باب جاوید، آفتاب اور بالے کے والد اقبال محمد خان کی کہانی ہے۔ موصوف تحصیلدار ہیں اور جنسی مہم جو ہیں۔ اپنے کام میں اتنے دانا کہ ”پیشاب کی شفاف رنگت دیکھ کر بتا دیتے ہیں کہ عورت صحت مند ہے۔“ (بحوالہ صفحہ نمبر 235)۔ اقبال محمد خان کا نام ان کے والد علامہ اقبال کے نام پر رکھتے ہیں۔ ان کی پہلی شادی امتہ الکریم سے ہوتی ہے جو انتہائی باپردہ خاتون ہے، آفتاب انہیں کے بطن سے ہے۔ رنگین مزاج اقبال محمد خان کا دل، امتہ الکریم کی روکھی طبیعت سے اچاٹ ہو جاتا ہے اور وہ سلطانہ نامی محفل آرائی کے فن میں مشاق عورت سے شادی کرلیتے ہیں۔

اس سے قبل ان کے جنسی تعلقات سلطانہ کی خالہ کلثوم سے بھی رہ چکے ہیں۔ سلطانہ بھی ان کی بے دریغ جنسی مہم جوئی سے تنگ ہے اور ایک دن ایس پی کی بیوی کے ساتھ اقبال کو قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ کر اپنے بیٹے جاوید اقبال کو لے کر کراچی چلی جاتی ہے۔ اسی باب میں عالمگیر نامی ملازمہ کے ساتھ اقبال محمد خان کے جنسی تعلقات اور اس کے نتیجے میں بالے کی پیدائش کا بھی تذکرہ ہے۔ اقبال اس باب میں اپنی دونوں بیویوں کے ساتھ گزرے شب و روز بھی یاد کرتے ہیں بالخصوص سلطانہ کے ساتھ جس سے وہ سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔

باب ششم میں تمام کرداروں کی کہانیاں اختتام پذیر ہوتی ہیں۔ آفتاب اور سلمیٰ کورٹ میرج کرلیتے ہیں۔ جس کے بعد ان کی رہائش گاہ پر مذہبی شدت پسند حملہ کرتے ہیں، لیکن آفتاب اور سلمیٰ جان بچا کر صوبہ سندھ میں آ جاتے ہیں اور وہاں ایک گوٹھ میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں۔

جاوید اقبال زرینہ کے گھر جاتا ہے جو اسے دروازے ہی سے چلتا کرتی ہے۔ ازاں بعد سلمیٰ کے توسط سے وہ مشعال سے ملتا ہے جو اس سے شادی کے لئے راضی ہوتی ہے، لیکن اس سلسلے میں طے شدہ ملاقات کے بعد الیکٹرک سیڑھیاں اترتے ہوئے پبلک مقام پر وہ مشعال کے جسم کو بازاری انداز میں چھوتا ہے جس پر وہ کبیدہ خاطر ہو کر اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ اسی باب میں دونوں بھائیوں کو پتہ چلتا ہے کہ ان کا ایک بالے نامی بھائی بھی ہے اور آفتاب عالمگیر سے بھی ملتا ہے۔

بالے کے ذمے بے نظیر بھٹو پر خودکش حملہ کرنا ہے۔ لیاقت باغ راولپنڈی میں بے نظیر جلسے سے خطاب کے بعد اپنی گاڑی میں بیٹھ کر واپس جا رہی ہوتی ہے کہ کارکنان کا جذبہ اور نعرے بازی دیکھ کر سن روف سے سر باہر نکال کر ان کے نعروں کا ہاتھ ہلا کر جواب دینے لگتی ہے۔ اسی لمحے دو فائر ہوتے ہیں اور بالا بھی خود کو بم سے اڑا لیتا ہے۔ ناول میں بتایا جاتا ہے کہ بے نظیر کی موت فائرنگ سے نہیں بلکہ بم دھماکے کی دھمک سے، سر سن روف کے ہینڈل کے ساتھ ٹکرانے سے ہوئی۔ اس باب میں رحمان ملک کے موقع سے بھاگ جانے اور شیریں رحمان کی ثابت قدمی کا بھی تذکرہ ہے۔

اسی باب میں اقبال محمد خان کی کہانی بھی اختتام پذیر ہوتی ہے جو سلطانہ کو یاد کرتے کرتے جھیل میں نہانے اتر جاتے ہیں جہاں ان کے کندھے پر کوئی کلہاڑی کا وار کرتا ہے۔ وہ جیسے تیسے اپنی گاڑی تک پہنچتے ہیں اور وہیں ان کی موت واقع ہو جاتی ہے اور ناول بھی اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔

یہ ناول نہیں مبتذل بافت سازی ہے۔ کوئی کردار ایسا نہیں جس سے کھرے پن کی خوشبو آئے۔ میں نے اسے تکلیف دہ جھنجلاہٹ کے ساتھ پڑھا اور فقط اس لیے مکمل پڑھا کہ اس کی داد و تحسین کے مقابلے میں متوازی بیانیہ تشکیل دے کر کم ازکم قارئین ادب کو تقابل کا موقع فراہم کر سکوں۔

میں نقاد ہونے کا ہرگز دعویٰ نہیں کرتا اور نہ ہی علمی و ادبی سطح پر خود کو اس قابل سمجھتا ہوں لیکن بطور قاری اپنی ایماندارانہ رائے دینے کا استحقاق مجھے حاصل ہے۔ اور ویسے بھی میں تین دن تک اس ناول کے 330 صفحات کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر ننگے پاؤں چلا ہوں، اپنے پیروں کے چھالے دکھانا تو بطور قاری میرا حق بنتا ہے۔

ناول کی طرف واپس آتے ہیں۔ اس میں قاری کو چونکا دینے والا کچھ بھی نہیں ہے کہ وہ بے چینی کے ساتھ صفحات پلٹے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ سب کچھ قاری کی توقع اور اندازے کے عین مطابق وقوع پذیر ہوتا ہے۔ جگہ جگہ کہانی کا تسلسل توڑ کر فلسفیانہ، سماجی، فنی اور سیاسی موضوعات اور واقعات پر مباحث چھیڑیے گئے ہیں۔ سوائے باب چہارم اور پنجم کے، جہاں واقعی محسوس ہوتا ہے کہ ناول نگار رواں زبان میں اچھی کہانی لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، پورے ناول میں مصنف کہانی پر ارتکاز نہیں کر پایا۔

علمی مباحث کہانیت پر مسلسل حاوی ہیں، کہانی ان مباحث کے بوجھ تلے ہانپتی، کانپتی اضمحلال سے چلتی جاتی ہے۔ باب چہارم اور پنجم میں اسے طاقت کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں لیکن چند لمحوں کی توانائی کے بعد مباحث کا مرض پھر عود آتا ہے اور کہانی کا دم اکھڑنے لگتا ہے۔ ذہین قاری اس موقع پر فوراً جان لیتا ہے کہ مصنف کے پاس کہانی باقی نہیں رہی سو اب کچھ بھی ڈال دو سکیم پر ناول کی ضخامت بڑھائی جا رہی ہے۔

بندہ پرور! قاری کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ مصنف نے ناول میں نکتہ سنجیوں اور نکتہ آفرینیوں کے کتنے باغ اگائے ہیں یا اس کے گنجینہِ دانش و حکمت سے سیاست، تہذیب، سماج، اور جنس سے متعلق کیا کیا جواہرِ افکار برآمد ہوتے ہیں۔ وہ تو فقط یہ چاہتا ہے کہ ناول سے زندگی کی حِدت پھوٹے جو اسے مسرتوں کے ذائقوں سے روشناس کرائے اور وہ اس سے جمالیاتی حظ اٹھائے۔ ناول کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ لیکن سب سے اعلیٰ مقصد کہانی کہنا ہے، ایسی کہانی جو قاری کو گرفت میں لے کر اسے صفحات پر صفحات الٹنے کی بے چینی کا شکار کرے، ایک پرمسرت بے چینی کا شکار۔ ناول کا مقصد قاری کو فلسفہ و افکارِ عالیہ سے تربیت یافتہ کرنا نہیں، مسرت بخشنا ہے۔ قاری کو مصنف کے بصورتِ ناول، آرٹ کی قیمت پر خرید کردہ فلسفیانہ خیالات، سیاسی و سماجی فہم، تہذیبی شعور، جنسی محبت اور فنی نکتہِ نظر سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

میرا کاشف رضا سے واحد تعارف یہ ناول ہے۔ اس میں کیے گئے تجربات اور موضوعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ذہین آدمی ہیں۔ بقول محمد خالد اختر انٹیلیکچوئلز ہمیشہ نئی تکنیکوں اور تجربات کے چھلاوؤں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ان کا پہلا مقصد کہانی لکھنا ہے۔ اور کہانی کی سادگی اور پرکاری سے قاری کو ورغلانا اور اپنے دام میں لانا ہے۔ کاشف صاحب! آپ کا ناول ہمیں ورغلانے میں یکسر ناکام ہوگیا ہے کیونکہ آپ کے عالمانہ مباحث نے ہمیں ہمہ وقت چوکس رکھا ہے۔

بھائی! علمی مباحث کے لئے اس سے متعلقہ کتاب لکھیں، ناول کے نام پر تو ہمیں جُل نہ دیں۔ میلان کنڈیرا کے مطابق تو ناول کو وہی کچھ کہنا چاہیے جو فقط ناول ہی کہہ سکتا ہے۔ فکشن میں بے شک کسی بھی موضوع پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی، ”کیا ہے“ فکشن کا مسئلہ نہیں ہے لیکن ”کیسے ہے“ بنیادی شرط ہے یعنی آپ موضوع کو ٹریٹ کیسے کرتے ہیں۔

میرے خیال میں ناول کے کئی واقعات متاثر کن ہو سکتے تھے لیکن پلاٹ میں گرہیں لگا کر کرداروں کو پیچیدہ بنانے کے چکر میں واقعات کو اپنا اصل تاثر دکھانے کا موقع بھی نہ مل سکا۔

فکشن میں بیان کی گئیں حقیقتیں لکھاری کے تخیل میں جنم لیتی ہیں، ان کا خارجی حقیقتوں سے مطابقت رکھنا قطعاً لازم نہیں لیکن نفسیاتی اور داخلی طور پر مربوط ہونا بنیادی شرط ہے۔ اس بیان کی روشنی میں دیکھیں تو ”چار درویش اور کچھوا“ میں نفسیاتی صداقتوں کے تقاضوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ مثلآ، زرینہ اور جاوید کے جنسی اختلاط کے دوران اور اس کے بعد زرینہ کے عمل اور ردعمل میں اس کی داخلی کیفیت اور اس کی نفسیات میں کوئی ربط نظر نہیں آتا۔

مزاحمت سے مفاہمت اور ملامت سے مسکراہٹ تک کے مراحل بغیر کسی کیفیاتی توجیح اور منطتقی توضیح کے دھڑا دھڑ طے ہو جاتے ہیں اور یوں لگتا ہے زرینہ کی کیفیات کسی نفسیاتی نظام کے تحت نہیں بلکہ ریموٹ کنٹرول سے بدلی جا رہی ہیں۔ اسی طرح بالے کا رفیق کے قتل کے بعد اسلام کی سربلندی کے لئے جہاد پر جانا اس کے کردار کے پس منظر اور تعمیر کے تناظر میں سراسر ناقابلِ یقین ہے۔ ناول ایسے ناقابلِ اعتبار واقعات سے تربتر ہے جو اسے سنجیدہ قاری کے لیے ناقابلِ برداشت بناتے ہیں۔

” چار درویش اور کچھوا“ کے کردار کھرے پن سے محروم اور ناقابلِ یقین ہیں۔ بالا اور اقبال محمد خان کچھ موقعوں پر گوشت پوست کے نظر آتے ہیں اور قریب ہی ہوتا ہے کہ آپ ان پر یقین کرنے لگیں کہ مصنف اپنے کرداروں سے زیادہ ذہانت کا مظاہرہ کر کے دوبارہ انہیں لکڑی کے وجود عطا کر دیتا ہے۔ حیوانی کردار ارشمیدس بھی اتنا ہی بے رنگ اور فرضی ہے جتنے کہ انسانی کردار۔ ناول نگار کردار نگاری پر درکار ریاضت نہیں کر پایا اور یہ امر فراموش کر دیا کہ کردار نگاری ناول میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ پورے ناول میں ایک کردار بھی ایسا نہیں جو آپ کے ذہن پر نقش ہو جائے اور آپ کی سائیکی میں اتر جائے۔

وارث علوی نے کہیں لکھا تھا کہ فلسفہ، سماجیات، سیاست، تاریخ اور کلچر ناول کے ڈرائینگ روم کا۔ قیمتی سامان ہیں جو کمرے کی آسیبی خاموشی میں بے جان پڑے رہتے ہیں۔ کردار کے قدم رکھتے ہی افکار کے جھاڑ فانوس روشن ہو جاتے ہیں، سماجیات کا آتش دان دہک اٹھتا ہے اور ثقافت کی منقش کرسی اپنی آغوش وا کرتی ہے، زندہ کرداروں کے بغیر ناول فلسفے اور ثقافت کا میوزیم ہوتا ہے۔

کچھوؤں کے ارتقائی مراحل اور ان کی جاتی سے متعلق تفصیلی معلومات، سیاسی اور تاریخی واقعات، ناولوں اور کتابوں سے اقتباسات اور ان پر بحثیں، واقعہ کارساز، بے نظیر کے قتل اور اس پر تحقیقاتی رپورٹ پڑھتے وقت باقاعدہ دستاویزی اور صحافتی ناول پڑھنے کا احساس ہوتا ہے۔ محترم ناول نگار! ناول معلوماتی دستاویز نہیں ہوتا، چاہے اپنے وقت کے اہم واقعات کتنی ہی نیک خواہش کے ساتھ کیوں نہ لکھے گئے ہوں۔ ناول کا اول تا آخر تعلق آرٹ کے ساتھ ہوتا ہے۔

کردار اگر سائے ہیں اور موضوع تخلیق کی رہبری کے بغیر ہے تو فلسفہ، ثقافت، سماجیات، جنس اور تاریخ بھی دستاویز اور صحافت کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اور فرد کا تجربہ نہیں بن پاتے۔ اس سے ناول کی فنکارانہ شناخت غیر محفوظ ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ناول کا بیانیہ انتہائی کمزور ہے اور زبان غیر محتاط، عامیانہ، سوقیانہ بلکہ کئی جگہوں پر کراہت آمیز بھی ہے، لگتا ہے اسے ذوق و شوق سے نہیں بلکہ ذوق و سوق سے لکھا گیا ہے۔ صفحہ نمبر 72 تا 75، زرینہ اور جاوید کا جنسی اختلاط قلمبند کیا گیا ہے۔ ان صفحات کی زبان بالکل ویسی ہی ہے جیسی ”میں مجبور تھی اور وہ بے غیرت تھا“ جیسے سستے شہوت انگیز، گھٹیا، سوقیانہ ناولوں کی ہوتی ہے۔

اسی طرح صفحہ نمبر 166 تا 167، قاری حسین محمود کی لواطت کے مراحل و مدارج ایسے بتائے گئے ہیں :

”جہاد کے جوہری بم یعنی فدائی حملے کے استاد، قاری حسین محسود فضلہم اللہ تعالیٰ کا سینہ ایمان کی حرارت سے ہر دم گرم رہتا تھا۔ لیکن ان کے قلبِ تپاں کی بدولت ان کا سارا جسم ہی اس حرارت سے مملو تھا۔ ان کے شکم کے نیچے بفضل الہیٰ دو بیضوی غدود تھے جن کی نالیوں میں نافع دین خلیوں کی افزائش بدرجہ اتم ہوتی تھی۔ یہ خلیے منوی قنیات کے ذریعے برنجی نالی میں پہنچتے پھر اور وہاں سے مجری بول میں چلے آتے۔ ایسا معجزہ مخصوص بندوں ہی کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنے مجری بول سے بھی دین ہی کا بول بالا کریں۔ وہ اپنی دینی حرارت و حمیت یہیں مجتمع رکھتے اور بوقتِ نفوذ اپنے قضیب کے راستے اسے فدائین کی جوفِ دبر میں پہنچا دیتے۔ سننے میں آیا ہے کہ نصرتِ ایزدی سے ان کا قضیب وقتِ جلال ان کی انگشتِ شہادت سے کہنی تک آتا تھا، سو جملہ اجواف کی تہوں تک بارودِ حمیت کی رسائی ممکن ہو جاتی تھی۔“

جناب! کیا کلام کو مفرس اور معرب کر کے آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کراہت انگیز نہیں رہا۔ کیا یہ آرٹ ہے، کیا ان ہفوات کو تخلیق کہیں گے۔ بہت تکلیف دہ مایوسی ہوئی اسے پڑھ کر۔ اس قماش کے کتنے ہی جملے ناول کے تاج پر نگینوں کی طرح چمک رہے ہیں جو بڑی آسان زبان میں لچرپن سے محولہ بالا ارشادات بیان کرتے ہیں۔ جنس کا بیان آرٹ کی رہبری میں، تخلیق کی زبان سے ہو تو فن ہے وگرنہ بازاری پن کے سوا اسے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ صاحب! کچھ تو قاری کے تخیل پر چھوڑ دیجئے، کچھ تو ان کہا رہ جانے دیجئے ورنہ پورنو گرافی اور ادب میں کیا فرق رہ جائے گا۔ جنس کا بیان چلچلاتی دھوپ میں نہیں بلکہ اسرار کی دھند میں اپنا تخلیقی حسن بے نقاب کرتا ہے۔

اچھے ناول میں ایک خاص ماحول اور فضا ہوتی ہے جو واقعات اور کرداروں کو قابلِ اعتبار بناتی ہے۔ ”چار درویش اور کچھوا“ میں مصنف ایسا ماحول اور فضا تشکیل دینے میں یکسر ناکام رہا ہے کہ جو ہر وقوعہ کی اپنی تشریح کرے، ایک ایسی تشریح جس پر قاری اس فضا کے زیرِ اثر بے چون و چرا ایمان لے ائے۔ ایسے ماحول کے مفقود ہونے سے اس ناول کے واقعات لحظہ لحظہ چیلنج ہوتے ہیں۔

میرے سارے تحفظات کے باوجود ناول نگار کی ایک خوبی نہ ماننا نا انصافی ہوگی کہ وہ ایک دلیر لکھاری ہے۔ اس نے کم ازکم اردو ناول کے ٹھہرے ہوئے پانی میں تجربات کے پتھر ضرور پھینکے ہیں۔ تجربہ ناکام ہونا بڑی بات نہیں، جمود کو توڑنے میں پہل کرنا اہم ہوتا ہے۔ اس ہمت پر مصنف تعریف کا حقدار ہے۔

آخر میں میرا ادبی اشرافیہ سے ایک دردمندانہ سوال ہے کہ اردو کا قاری اخر کس پر اعتبار کرے؟ دوستی، تعلق یا کسی منفعت کے حصول کی بنیاد پر تبصرہ لکھنے کے زریں اصول کی پیروی کرنے والوں پر یا بڑے بڑے مؤقر ادبی رسالوں کے نامور مدیروں پر یا بڑے ناولوں کی فہرستیں ذاتی تعلقات کے قلم سے ترتیب دینے والوں پر۔ افسوس کہ اردو کا قاری بالکل لاوارث اور بے یارو مددگار ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments