کیا ہم تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟


بیجنگ میں اتفاق رائے بڑھ رہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کو، دنیا کو چین کے خلاف مزید معاندانہ بنانے کے لئے ترتیب دیا گیا ہے تا کہ چین کے لئے موافق بین الاقوامی ماحول، ایک ایسا ماحول جوکبھی پچھلے پانیوں کی بند کیمونسٹ معاشی طاقت تھا کی ایک ابھرتے ہوئے گلوبل معاشی پاور ہاؤس کے طور پر تائید کر رہا ہے، کو مجروح کیا جا سکے۔ عالمی سطح پر صحت کا یہ بحران اب تک دو لاکھ سے زیادہ افراد کی جان لے چکاہے۔ جب کہ دنیا بھر میں اب تک تیس لاکھ سے زیادہ لوگ اس وبا سے متاثر ہوچکے ہیں۔

چین میں بہت سے لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ وائرس سے نمٹنے کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر جو شدید رد عمل پیدا ہوا ہے، یا پیدا کیا گیا ہے، اس کے دوران یہ قوم کیسے ترقی کر سکتی ہے؟ جب کہ یہ خطرناک وائرس پہلی بار وسطی چین کے شہر ووہان میں ظاہر ہوا تھا اور انگلیاں بھی انہی کی طرف اٹھ رہی ہیں یا اٹھائی جا رہی ہیں۔

ایک طرف، کوویڈ۔ 19 پر الزام تراشی کا عمل مسلسل تیز ہورہا ہے جب کہ واشنگٹن میں کچھ آوازیں یہ کہہ رہی ہیں کہ چین اس وبا کا ذمہ دار ہے اور اسے ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی اسٹریلیا نے بھی ایک بیرونی انکوائری کا مطالبہ کر دیا ہے کہ ان کے نزدیک بھی کورونا کا مرکز ووہان تھا جہاں سے یہ پھیلا۔ جسے چین نے یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ یہ انکوائری غیر جانبدار نہ نہیں ہو سکتی۔ چین کا یہ کہنا ہے کہ یہ امریکن فوجی ہیں جو یہ وائرس ووہان لے کر آئے۔

اگرچہ چین اور امریکہ پہلے دن سے ہی کورونا وائرس سے پھیلنے والے وبائی امراض کو پھیلانے کے قضیے سے نمٹنے کے تنازعہ میں مبتلا ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دوسری طرف جنوبی بحیرہ چین کے تنازعہ میں یہ دونوں طاقتیں اب گتھم گھتا ہونے کے لئے اپنی کمر کس ر ہی ہیں۔ اس یدھ میں اسٹریلیا امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے۔

بدھ کے روز جزیرہ اسپریٹلی میں امریکی، گائیڈڈمیزائل کروزر یو ایس ایس بنکر ہل نے ”فریڈم اف نیویگیشن آپریشن“ کے نام سے ایک اپریشن کیا ہے۔ ایک دن بعد اسی طرز کا گائڈڈ میزائل کو تباہ کرنے والے یو ایس ایس بیری نے جزیرے پارسل کے قریب ایک اور آپریشن کیا۔

امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ”یہ کارروائیاں بحیرہ جنوبی چین میں غیر قانونی اور بنیادی سمندری دعوؤں کے جواب میں ہیں، جس سے نا صرف سمندروں کی آزادی کو شدید خطرات لاحق ہیں بلکہ جہاز رانی اور فضا سے ہوائی جہازوں کے گزرنے کی آزادی اور ہر طرح کے معصوم جہازوں کے گزرنے کے حق کی آزادی کو بھی خطرات لاحق ہیں۔“

گزشتہ ہفتے آسٹریلیا کے ایک جنگی بحری جہاز نے بحیرہ چین میں ایک مشترکہ مشق میں امریکی جنگی جہازوں کے ساتھ حصہ لیا اورایک چینی تحقیقاتی بحری جہاز جس کے ساتھ ایک چینی کوسٹ گارڈز کا اور ملائشیا کی سرکاری تیل کمپنی کا ایک ایک بحری جہاز تھا جو اس علاقے میں تلاش کا کام کر رہے تھے کا پیچھا کیا۔

چینی فوج نے جمعرات اٹھائیس اپریل کو متنازعہ جنوبی بحیرہ چین میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کو ایک ”پریشان کرنے والا“ ملک قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ چین ایسے پانیوں، جن پر اس کی اجارہ داری ہے، کے حق میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ”ہائی الرٹ“ ہے۔

اس کے ساتھ ہی چینی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ”ہم امریکہ اور آسٹریلیا کی ملٹری سرگرمیوں کوقریب سے دیکھ رہے ہیں۔ علاقائی ممالک سے باہر کے ممالک امریکہ اور اسٹریلیا، بحیرہ جنوبی چین میں متواتر فوجی کارروائیاں کر رہے ہیں جو بحیرہ جنوبی چین میں امن و استحکام کے لئے سازگار نہیں ہیں۔ ہم بھرپور عزم کے ساتھ ان کی مخالفت کرتے ہیں۔“

اگر ایک طرف امریکہ اور اسٹریلیا چین کے ساتھ دوبدو ہونے کو تیار ہیں تو دوسری طرف یورپی ممالک کی اس بارے میں رائے منقسم ہے کہ بیجنگ کے ساتھ کس طرح نپٹنا چاہے۔

سب سے بڑا موضوع جو ان کی پالیسی اور عوامی مباحثوں میں منڈلا رہا ہے اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ کورونا وائرس بحران سے نمٹنے کے معاملے پر بیجنگ سے نمٹنے کے حوالے سے انیس یورپی ممالک میں چین کے کردار کے تجزیے کی بنیاد پر جو رائے ظاہر ہوئی ہے وہ منقسم ہے۔

چین یہ تو چاہتا ہے کہ اس مسئلے پر گفتگو ہو کہ چین نے ووہان سے کورونا کو کیسے پسپا کیا لیکن وہ اس معاملے پر گفتگو کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں کہ کورونا وائرس ووہان سے پھوٹا۔ اسٹریلیا کے انکوائری کے اس مطالبے کے فوری بعد چین نے سخت رد عمل دیتے ہوئے اسٹریلیا پر تجارتی پابندیاں لگا دی ہیں جب کہ اسٹریلیا نے امریکہ، فرانس اور جرمنی کی قیادت سے اس سلسلے میں بات چیت کی ہے۔ جنگ کے لئے درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ چین کے خلاف مسلسل صف بندی کی جا رہی ہے۔ جس میں امریکہ پیش پیش ہے۔

امریکہ نے چین، روس اور وینزویلا پر امریکی ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹ پریہ کہہ کر پابندی لگا دی ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ملٹری اپلی کیشنز بنانے میں استعمال ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے یورپی یونین کو بھی پابند کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ امریکن ٹیکنالوجی پر بنی چپ کو اگر چین کو بیچیں گے تو انہیں اس کے لئے لائسنس لینا ہو گا۔ اس معاملے پر بھی یورپی یونین کی رائے منقسم ہے۔

چین کے ایک ثابقہ عہدہ دار کا کہنا ہے ”اگرچہ بیجنگ کا سیاسی نظام نظریاتی طور پر مغربی لبرل جمہوریتوں سے متصادم ہے لیکن چین کا عزم ہے کہ وہ اس سب کے باوجود عالمی منڈی کے اندر اب تک جتنا سرایت کر چکا ہے اسے قائم رکھنے کی کوشش گا۔ جب اس وبائی بحران کو قابو کر لیا جائے گا تواس کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہوگا کہ کیا چین عالمی معیشت میں اپنی حیثیت برقرار رکھ پائے گا یا امریکہ اسے بالکل الگ تھلگ کر کے ختم کرنے کی کوشش مسلسل جاری رکھے گا؟“

اس عہدہ دار کا مزید کہنا ہے کہ چونکہ کورونا وائرس نے اس نظام کی کمزوری کو بے نقاب کردیا ہے اس لئے عالمی ویلیو چین کی روایتی ”افقی“ تقسیم کو اب اوور ہال کرنے کی ضرورت ہے۔ جب کہ اسے مخصوص ریجنز میں ”عمودی“ انجزاب سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ چین، جدید ڈھانچے اور صنعتی صلاحیتوں کے حامل ہونے کی بنا پر، عالمی معیشت میں اپنے کردار کو بلند کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، وہ یہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ بیرونی دنیا میں اپنا دروازہ کھولنے کے بارے میں مخلص ہے تا کہ بیرونی کمپنیاں چین میں سرمایہ کاری کر سکیں۔

”اس وبائی مرض نے پرانے گلوبلائزیشن ماڈل میں کمزور روابط کو بے نقاب کیا ہے۔ چین اور دوسرے ممالک کو موجودہ گلوبل انڈسٹریل لے اوٹ پر نظر ثانی اور اسے ری ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف چین کو تنزلی اور الگ تھلگ کرنے کے بارے میں دھمکیاں سرخیاں پکڑ رہی ہیں، جب کہ دوسری طرف چینی قوم دنیا کی سب سے بڑی صنعت کار اور دنیا کی سب سے بڑی صارف مارکیٹ ہے اور رہے گی۔ چین ایک ایسی مارکیٹ ہے جسے دنیا نظر انداز نہیں کر سکتی۔ مزید یہ کہ کورونا وائرس علاقائی معاشی بلاکس کی تشکیل میں تیزی لارہا ہے۔ متوقع طور پر شمالی امریکہ، یورپ اور مشرقی ایشیاء ؛تین بلاکس کے ابھرنے کا امکان ہے۔ آنے والے دنوں میں چین مشرقی ایشیاء کے گروپ میں کشش ثقل کا مرکز ہوگا۔ اس کا فیصلہ چین کاصنعتی نظام اور مارکیٹ کے وسیع سائز کرتاہے۔“

متذکرہ بالا حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ گراہم ایلی سن کا تجزیہ درست ثابت ہو رہا ہے جو اس نے اپنی کتاب ”Destined for War“ میں 2017 ء میں کیا تھا۔ اس مجوزہ کتاب کا ذکر چند دن پہلے بی۔ بی۔ سی اردو نے بھی ”تھیوسی ڈائیڈز ٹریپ“ کے حوالے سے کیا تھا۔ ایلی سن کا کہنا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور چائنہ ایک ایسی جنگ کی طرف سرپٹ دوڑ رہے ہیں جو وہ چاہتے نہیں ہیں اور کتاب کا عنوان بھی یہی ہے کہ کیا امریکہ اور چائنہ تھیوسی ڈائیڈز ٹریپ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟

ایلی سن کے مطابق تھیوسی ڈائیڈز ٹریپ، سٹرکچرل سٹریس کا ایک ایسا جان لیوا نمونہ ہے، جو اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب ایک ابھرتی ہوئی طاقت، حکمران طاقت کو چیلنج کرنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ مظہر اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ تاریخ بذات خود۔ اسی بنیاد پر پیلوپی نیشین جنگ نے قدیم یونان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ یہ پانچ سو قبل مسیح کا واقعہ ہے۔ تاریخ دان تھیوسی ڈائیڈز وضاحت کرتا ہے ”یہ ایتھنز کا ابھرنا اوراس خوف کا ذہن میں جان گزین ہونا کہ سپارٹا ہم پر چھا جائے گا، نے جنگ کو ناقبل تنسیخ بنا دیا“ ۔

پچھلے پانچ سو سالوں میں ایسے حالات سولہ دفعہ پیدا ہوئے۔ اس میں بارہ دفعہ جنگ ہوئی اور صرف چار دفعہ یہ جنگ ٹالی جا سکی۔ آج نہ رکنے والا چین، نہ ہلنے والے امریکہ تک پہنچ رہا ہے اور دونوں راہنما، زی جن پنگ اور ڈونلڈ ٹرمپ، یہ وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ اپنے ملکوں کو دوبارہ ”عظیم بنائیں“ گے۔ سترہویں بار دو بڑی طاقتوں کا جنگ سے دوچار ہونا دنیا کو بہت سنگین صورت حال سے دوچار کردے گا۔

جب تک کہ چائنہ اپنی خواہشات کو درجہ بدرجہ پیچھے لے کر نہیں آتا، یا امریکہ اپنے آپ کو پیسیفک ریجن میں دوسرے نمبر پر تسلیم نہیں کرتا، کوئی کاروباری تنازعہ، سائبر اٹیک، یا سمندر میں کوئی حادثہ، ہر طرح کی جنگ کو بڑھاوا دے سکتا ہے۔

ایلی سن یہ وضاحت کرتا ہے کہ کیوں اکیسویں صدی میں تھیوسی ڈائیڈز ٹریپ چائنہ۔ امریکہ تعلقات کو سمجھنے کا بہترین عدسہ ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ غیر معمولی تاریخی متوازی اور جنگی منظرناموں کے ذریعے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم اس سب کے کتنے قریب ہیں جس کا ہم تصور بھی کرنا نہیں چاہتے۔ ابھی بھی اس بات پر زور دیا جا نا چاہیے کہ جنگ ناگزیر نہیں ہے۔ ایلی سن نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ متصادم طاقتوں نے ماضی میں کس طرح امن برقرار رکھا۔ دہ کون سے تکلیف دہ اقدامات ہیں جنہیں امریکہ اور چائنہ کو لینا چاہیے تا کہ اس تباہی سے بچا جا سکے۔ وہ چار مواقع جب جنگ ٹالی گئی اس پر ایلی سن نے تجزیہ کر کے اپنی رائے دی ہے کہ جنگ کس طرح روکی جا سکتی ہے۔

پچھلی تقریباً تین چوتھائی صدی سے، امریکہ عالمی طاقت کے طور پر دنیا میں راج کر رہا ہے۔ چین اب امریکہ کی معاشی، سیاسی اور عسکری تسلط کو چیلنج کر رہا ہے۔ مختلف سیاسی نظاموں، تاریخ اور اقدار کے حامل دونوں ممالک اپنی اپنی غیر معمولی بات پر یقین رکھتے ہیں۔ ایلی سن کا کہنا ہے کہ دونوں قومیں ”فی الحال جنگ کے تصادم کے راستے پر گامزن ہیں“ ، جو ان کے بقول تب ہی ٹل سکتا ہے جب دونوں مہارت کا مظاہرہ کریں اور ”اس کو روکنے کے لئے مشکل اور تکلیف دہ اقدامات کریں“ ۔

ایلی سن تجزیہ کرتا ہے کہ بہت ساری بڑھتی ہوئی طاقتوں کا اختتام، مستحکم ریاستوں سے کیوں جنگوں کی صورت ہوا، جب کہ بہت ساری طاقتوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔

عصر حاضر کی بہترین مثال جرمن کا عروج ہے جو پہلی عالمی جنگ کا باعث بنا، اس کی وجہ امریکہ اور سوویت یونین کے مابین محاذ آرائی کا تضاد تھا، جس کوآگے بڑھ کر گرم جنگ میں تبدیل ہونے میں چار دہائیاں لگیں۔

اسی طرح، دوسری عالمی جنگ کے بعد، کولڈ وار کے دور میں، سوویت یونین کی جانب سے خطرناک چیلنج کا سامنا کرنے کے بعد، امریکہ نے جنگ سے تباہ حال اتحادیوں اور مخالفین کی تعمیر نو کے غیرمعمولی مارشل پلان سے آغاز کرتے ہوئے، حدود میں رہنے کی پالیسی کو تشکیل دیا۔ ہوشیار سفارت کاروں اور صدور کے ساتھ مل کر، جان ایف کینیڈی کے کیوبا کے میزائل بحران سے نمٹنے سے لے کر رونالڈ ریگن کی میخائل گورباچوف کے ساتھ رفاقت کے ذریعے، سوویت یونین کے خاتمے تک جنگ کو ٹالا جاتا رہا۔

چین کا عروج کلاسیکی تھیوسی ڈائیڈز ٹریپ کی مثال ہے۔ 1980 میں، چین کی معیشت امریکی معیشت کا دسواں حصہ تھی۔ 2014 ء تک یہ حصہ برابری کی سطح پر آ چکا تھا۔ 2024 ء تک یہ پلڑا چین کی جانب جھکنا شروع ہو جائے گا۔ جب کہ 2040 تک معیشت کا یہ سائز امریکہ کی معیشت کے سائز سے تین گنا بڑا ہوجائے گا۔ خطے میں امریکی وعدوں اور اتحادیوں سے معاہدوں سے قطع نظر، چین بلا مبالغہ خود کو ایشیاء کی سب سے اہم طاقت سمجھتا ہے۔

ایلی سن نے ”ان دو طاقتوں، چین اور امریکہ، کے مابین تنازعات کو کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے“ کے متعلق معقول منظرنامے پیش کیے ہیں۔ تائیوان یا بحیرہ جنوبی چین کے تنازعات یا کسی تیسرے فریق کی طرف سے حادثاتی اشتعال انگیزی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک سربیا کے دہشت گرد کے ذریعہ آسٹریا کے آرچ ڈوک کا قتل تھا، جس نے پہلی عالمی جنگ کو شعلہ دکھا دیا۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جس کا تعلق معاشی مسابقت سے تھا۔

جزیرہ نما کوریا میں سب سے خطرناک خطرہ لاحق ہے، جہاں شمالی کوریا کے پاس جوہری وار ہیڈز ہیں اور وہ سان فرانسسکو کو نشانہ بنانے کے لئے میزائل ٹیکنالوجی تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ فوجی خطرہ ہے تو، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ایلی سن قنوطیت پسند نہیں ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ ہنر مندانہ حکمت عملی اور سیاسی حساسیت کے ساتھ یہ دونوں سپر پاور جنگ سے بچ سکتے ہیں۔

ایلی سن تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ زی جن پنگ بے رحم خود مختار ہے۔ لیکن تاریخ کے احساس اور چین کے روایتی صبر کے ساتھ ایک ذہین شخص ہے۔

اس کے برعکس، امریکہ میں، موجودہ کمانڈر ان چیف تاریخ میں بہت کم دلچسپی ظاہر کرتا ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ غیر معقول، غیر محفوظ اور اضطراریت پسند شخص ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ چین کی پانچ ہزار سالہ تاریخ کا بوجھ اٹھائے متین قیادت اور امریکہ کی اضطرایت پسندی جنگ کو کدھر لے جاتی ہے۔ کیا ہم تیسری عالمی جنگ کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments