تعجب نہ کرنا جو کل کو میں بغاوت کر دوں


میرا نام شہزاد ہے اور میرا تعلق بلوچستان سے ہے۔ پاکستان کا رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع اور سہولیات کے لحاظ سے سب سے پسماندہ۔ جب میں دس سال کا تھا تو میرے کئی رشتہ دار ڈرون حملوں میں دہشت گرد کہہ کر مارے گئے۔ میرے چچا اوراُن کے بچوں کی جب سڑی ہوئی لاشوں کی ہڈیاں ہمیں دیکھنے کو ملیں تو ان ہڈیوں پہ صرف ظلم کی سیاہی تھی، دہشتگردی کی بُو نہیں تھی۔

میں اس خوف سے بڑا ہوتا گیا کہ کہیں اس وطن میں جہاں میرے آبا و اجداد کی قبریں ہیں غدار نہ کہلوایا جاؤں۔ میں اس خوف میں مبتلا رہا کہ میرے آباء جس ملک کے لیے آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوئے کہی اس ملک کے لوگ مجھے میرے رشتہ داروں کی طرح بھی دہشت گرد نہ سمجھ لیں۔

میں نے علم حاصل کرنا چاہا میں نے سوچا کہ میں پڑھ لکھ کر شاید اپنے لوگوں کے بارے میں بنا تاثرمِٹا سکوں۔ لیکن جیسا میں چاہتاتھا ویسا سب مجھے نہ مل پایا۔ میں نے علم کے دریا سے سیراب ہونا چاہا لیکن میرے حصے میں صرف کنارے کی ریت اور پتھر آئے۔ میرے مکتب کی زبوں حالی اور اساتذہ کا فقدان مجھے اس جہاں میں نا لے جا پایا جس کی مجھے چاہت تھی۔ میں شکستہ دل تھا میں اسی شکستہ دلی کے ساتھ اور مضبوط ہو کر اٹھنا اور یقین کرنا چاہتا تھا کہ ریاست ماں ہے۔ یہ مجھے یتیموں کی طرح نہیں چھوڑے گی۔ مجھ سے جو بن پایا میں نے کیا، کئی پاپڑ بیلے اور میں سکول سے کالج پہنچ گیا۔

کالج میں ایک تقریری مقابلے میں میرے ایک سینئر دوست نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس ملک کا حصہ نہیں ہے جو ہمارے حقوق نہیں دے سکا، ہم اس ملک کا حصہ نہیں ہیں جس نے ہمیں پسماندہ کیا، ہم اس ملک کے سربراہان کو اپنا حاکم نہیں سمجھتے جنہوں نے ہمارے ہم وطن خود بھی مارے اور دوسروں سے بھی مروائے۔ ہمیں اب اس ملک سے الگ ہونا ہے ہمیں اس جونک کو اتار پھینکنا ہے جس نے ہمارا خون چوسا ہے۔ یہ الفاظ میرے دل کو کاٹ رہے تھے، میرا دل اس بغاوت پر راضی نہیں تھا۔ ”ریاست ماں جیسی ہوتی ہے“ بابا نے کہا تھا، پھر ماں سے کوئی کیسے الگ ہو سکتا ہے۔ میرا ذہن اس کو قبول نہیں کر پا رہا تھا۔ مجمع مقرر کو داد دے رہا تھا پورا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔

میں نے عزم کیا میں اس نظام کو بدل دوں گا، میں نے خود سے عہد کیا کہ میں باغی نہیں بنوں گا۔ میری ریاست مجھے تنہا نہیں کرے گی۔ میرے حقوق کا خیال رکھے گی۔ ایک نا ایک دن ماں جیسی ریاست ہمیں اپنی گود ضرور دے گی۔ میرے ساتھیوں کے خون میں بغاوت دوڑ رہی تھی۔ وہ حکومتی نمائندوں سے اور فوج سے اتنی ہی نفرت کرتے تھے جتنی ڈرون حملوں میں بچ جانے والے اپاہج بچے امریکہ سے کرتے تھے۔

میرے دوست یونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد مختلف اداروں کی خاک چھان رہے تھے۔ تبھی معلوم ہوا کہ بلوچستان میں جو کہ پسماندہ ترین صوبہ ہے کی بڑی بڑی سیٹوں پر کئی دوسرے صوبوں کے افراد کام کر رہے ہیں اور پیسے بنا رہے ہیں۔ احتجاج کیے ، حقوق مانگے، ماں جیسی ریاست کی منتیں کیں کہ ہمارے علم کی شمع کو اس طرح نہ بجھنے دے مگر ماں نے کان نا دھرے۔

میں بچے سے ایک نوجوان بن چکا تھا میں حالات و واقعات کو سمجھ رہا تھا اور پرکھ رہا تھا۔ مجھے جو سمجھ آرہی تھی اسے میرا دل قبول نہیں کر رہا تھا۔ جو میں سمجھ رہا تھا وہ حقیقت نہیں تھی۔

ہم بلوچیوں کو ہمارے اپنے لوگ ہی دھتکار رہے تھے۔ ہمیں ہمارے اپنے ہی بِکے ہوئے لوگ اور ہمارے حکمران اور ہمارے محافظ ہی لُوٹ رہے تھے۔ کیوں دھتکار رہے تھے کسی کو وجہ نہیں معلوم تھی۔ میں سمجھا شاید میرا علم محدود ہے اس لیے میرا ذہن ان اسرار رموز کو نہیں سمجھ پا رہا۔

میں اپنے والدین کی عمر بھر کی جمع پونجی لے کر ملک کی سب سے اچھی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے چلا گیا۔ اسی دوران میرا بھائی کراچی میں دہشتگرد کہہ کر مارا گیا۔ میرا دل اس غم سے پھٹ رہا تھا۔ پہاڑجیسا طاقت ور اور خوبصورت جوان اپنے دو بچوں کو یتیم کرکے اپنے اوپر دہشتگردی کا ٹھپہ لگا کر مر گیا تھا۔ علاقے میں احتجاج شروع ہوگیا۔ کئی روز تک جاری رہنے والا احتجاج بغیر مجرموں کی سزا کے ختم ہوگیا۔ مجرم دندناتا ہوا اور جانیں لینے کے لئے آزاد پھرتا رہا۔

میں راتوں کو بھیانک خواب دیکھنے لگا۔ اپنی موت کے خواب۔ اسی طرح کسی روز دہشت گردی کا ٹھپہ لگنے کا خواب۔ میرا روم روم جل اٹھتا تھا۔ میرے کانوں میں آوازیں گونجتی۔ غدار، غدار۔ لوگوں کا ایک ہجوم میری جانب دیکھتے ہوئے نفرت سے کہتا۔ میں اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھ کر اِن آوازوں کو دبانے کی کوشش کرتا مگر ناکام رہتا۔

کئی روز بعد کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہا کہ ہم اپنے لوگوں کو اب مزید دکھ نہیں اٹھانے دیں گے۔ ہم مل کر کام کریں گے اور اپنے صوبے کو ان ظالموں سے نجات دلائیں گے جنہوں نے ہمیں پسماندگی میں دھکیلا ہے۔ جنہوں نے ہمارے لوگ قتل کیے ہم ان سے حساب لیں گے۔ ہماری طرف کسی بیرونی طاقت کی میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ ہم طاقت ور اور خوشحال ہوں گے۔ اور ہم بلوچستان کو ایسا ترقی یافتہ خطہ بنائیں گے کہ ہر کوئی عش عش کرے گا۔

مجھے لگا میرا بھیانک خواب ختم ہونے کو ہے اور یہ شخص خدا کی طرف سے مسیحا بن کر آیا ہے۔ اُس نے مجھے سوچنے کا وقت دیا اور کہا کہ وہ چند روز میں دوبارہ مجھ سے ملنے آئے گا۔ میرے بھیانک خواب اب مسرت میں بدلنے لگے۔ اب میں ترقی کے خواب دیکھتا تھا، آزادی کے، علم کے، خوشخالی کے، امن کے۔ میں خواب دیکھتا تھا نجات کے جب ہمارے لوگ بھی بغیر کسی خوف کے سانس لیں گے۔ جب میرا کوئی بھائی کسی اندھی گولی کا نشانہ نہیں بنے گا۔ میری آنکھیں چمکنے لگیں۔

وہ شخص چند روز بعد پھر آیا میں نے اس کے ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ اس نے کہا کہ آج سے میرا نام منگو ہے میں اپنی نئی شناخت سے کچھ زیادہ خوش نہیں تھا۔ لیکن اپنے لوگوں کے لیے اس کو قبول کیا۔ کچھ پانے کے لیے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے اور میں نے اپنے حقوق پانے کے لیے اپنی ماں کا دیا ہوا نام کھویا تھا۔ میرا دل مطمئن ہو گیا۔ اس شخص نے کہا تھا کہ اس واقعے کا ذکر کسی سے نہیں کرنا۔ اور رازداری ہی اس مشن کی کامیابی کا راز ہے۔ سو میں نے چپ سادھ لی، لیکن میں اب اپنے پریشان باپ کو حوصلہ دیتا تھا اور انہیں ترقی اور امن کے خواب دِکھاتا تھا۔

وقت گزرتا گیا ایک روز پھر وہی شخص میرے پاس آیا اور کہا تمہارے صوبے کو تمہاری ضرورت ہے۔ وہ لوگ جو ہمارے محافظ بنے ہیں اب ہمیں لوٹنے کو ہیں، وہ ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ابھی حساب کا وقت ہے۔ میں پرجوش تھا۔ میں ہر قربانی دینے کو تیار تھا۔ میں اٹھا اور اس شخص کے پیچھے چل دیا۔ وہ مجھے پہاڑوں میں موجود غار میں لے گیا جہاں اور بھی کئی لوگ موجود تھے۔ میں نے دیکھا میری جامعہ کا ہی ایک طالبعلم وہاں پہلے سے موجود ہے اور بھی دوسری جامعات کے کئی پڑھے لکھے طلبا وہاں موجود تھے۔ میں خوشی سے نہال ہو گیا، اب صوبے کا مستقبل تعلیم یافتہ لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔

ہمیں ان لوگوں پر حملہ کرنے کا کہا گیا جو ہمارے لوگوں کو مارنے آ رہے تھے۔ ہم نے اپنی رائفلیں اٹھائیں اور چل دیے۔ سارا رستہ میں امن اور آزادی کے گیت گاتا گیا۔ میں چمکتے سورج کو امید سے دیکھتا گیا۔ ٹارگٹ کے قریب پہنچنے پر ہم چوکس بیٹھے تھے۔ ہمارے سربراہ نے ہم کو حملہ کرنے کا کہا۔ ہم نے فائر کھول دیے۔ گولیوں کی آواز میں شور سنائی دیا۔ دہشتگردوں کا حملہ ہو گیا۔ میرا وجود شل ہوگیا۔ میں دہشت گرد۔ نہیں میں دہشت گرد نہیں ہوں، میں تو اپنے لوگوں کے حقوق کا محافظ، ریاست کی سب سے اعلیٰ جامعہ میں پڑھنے والا اپنی کلاس کا ٹاپر ہوں۔

اِنہی سوچوں میں میرے سینے میں کئی گرم سلاخیں پیوست ہوگئیں۔ میں پیچھے کو گر گیا۔ کافی وقت بعد جب شور تھما تو میری کھلی ہوئی بے جان آنکھوں نے دیکھا کہ وردی میں ملبوس چند جوان جن کے بازوؤں پر میری ریاست کا جھنڈا تھا، حقارت سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہہ رہے تھے یہ منگو دہشتگرد ہے۔ میرے جسم سے وہ ویسے ہی نفرت کر رہے تھے جیسے مسلمان گندگی سے نفرت کرتے ہیں۔ کوئی بھی میرے جسم کو ہاتھ نہیں لگانا چاہ رہا تھا۔

وہ میری لاش سے اپنی گاڑی کو بھی آلودہ نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ انہوں نے میرے ہاتھوں کو گاڑی کے پیچھے باندھا اور گھسیٹتے ہوئے اپنے افسر کے پاس لے گئے اور جا کر کہا یہ ہیں وہ باغی جنہوں نے بغاوت کا علم اٹھایا تھا۔ افسر نے مسکراتے ہوئے کہا میڈیا پہ خبر دے دو ”ریاست کی فوج پر دہشتگردوں کا حملہ، جوابی فائرنگ میں دہشتگردوں کے کمانڈر سمیت 4 دہشت گرد ہلاک“ ۔ ریاست کے مخافظوں نے حملے کی کوشش کو ناکام بنا کر دہشتگردوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔

میری روح نے میرے اُس خواب کو حقیقت بنتے ہوئے دیکھا تھا جس کو میں دیکھتے ہوئے ڈرتا تھا۔ میں منگو غدار کو مٹی میں دفنا دیا گیا۔ میرے وطن کی مٹی نے مجھے قبول کیا تھا۔ اتنے عرصے بعد مجھے کسی نے دھتکارا نہیں تھا۔ اے سننے والو سنو اور دیکھنے والو دیکھو تعجب نا کرنا اگر پھر کوئی شہزاد کل کو بغاوت کر دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments