ادب میں عورت کا تصور


تخلیق کی سطح پر عورتوں کا قلم باغی اور وحشیانہ بن گیا ہے، تو یہ بھی مرد سماج کی ہی دین ہے۔ بشریٰ اعجاز، سیمیں کرن، طاہرہ اقبال، نفیس بانو شمع، ترنم ریاض کے یہاں بغاوت نئی کہانی کا مرکز بن گئی ہے۔ غزال ضیغم لیسبیئن بن جانے کی صلاح دیتی ہیں۔ تو کہانی ’عکس‘ میں نگار عظیم باپ بیٹی کے جنسی رشتے پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے ں۔ عورت دراصل اپنے وجود کی نفرت میں جی رہی ہے۔

عورت۔ اُسے خود سے نفرت کا احساس ہوا؟ عورت سبھی سلوک وبرتاؤ میں، زندگی کے ہر موڑ پر پاؤں کی دھول جھاڑتے ہی چت کیوں ہو جاتی ہے؟ ایک دم سے چت اور ہاری ہوئی۔ مرد فاتح ہوتا ہے اور عورت کتنی بڑی کیوں نہ ہو جائے، عورت کی عظمت کہاں سو جاتی ہے۔

جرم: تبسم فاطمہ

میں بے حد چاہ کے ساتھ ساتھ اُس سے نفرت بھی کرنے لگی۔ ایک ساتھ دونوں جذبے مجھ پر جاری وساری تھے۔ محبت کے مارے میں اُس کے گندے موزے تک سونگھتی اور بھیگی بنیان اپنے تکیہ پر رکھ دیتی۔

وہ عجیب قسم کا ذلیل اور کمینہ آدمی تھا۔ میں روتی، تو وہ اُٹھ کر سب سے پہلے گھر کے دروازے کھڑکیاں بند کرنے لگتا۔ ہاتھ پیڑ جوڑنے لگتا۔ ”خدا کے لئے مت رو، لوگ تیرا رونا سنیں گے، تو میرے بارے میں کیا رائے کریں گے؟“ ۔ ’نیک پروین‘ ، ’غزل ضیغم‘

اِن بدلے ہوئے حالات میں، خواتین افسانہ نگار کے افسانوں کے وہ پہلو ہیں، جہاں خاص طور پر کچھ پختہ فیصلے جاری کیے گئے ہیں۔

عورت اب نیک پروین بن کر نہیں رہ سکتی (غزل ضیغم) ، ’دکھ موسم‘ کہانیوں کے دن بیت گئے۔ عورت اب دکھ سے سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ شوہر اُس کے لئے ’بُل ڈاگ‘ ( ’نیک پروین‘ کہانی کے آگے کا حصہ دیکھئے ) ہے۔ تب بھی ایسے شوہر کو ہینڈل کرنا وہ اچھی طرح جانتی ہے اور وہ ’نیک پروین‘ صرف اپنے شوہر پر منحصر نہیں ہے۔

یہ کہانی کا ایک حصہ ہے۔ اب ایک دوسرا نظریہ دیکھتے ہیں۔

’عورت ہی ہر بار چت کیوں ہوتی ہے۔‘ جسمانی طور سے بھی، اس ناکامی سے باہر نکلنے کا حوصلہ کوئی عام حوصلہ نہیں ہے۔ یعنی عورت کس کس طریقے سے اپنے آپ کو جانچ سکتی ہے۔ یہ غور کرنے کا وقت ہے۔

نئی صدی کے گلوبل گاؤں سے آج کی عورت اندیکھی نہیں ہے۔ یقیناً اسی وجہ سے وہ پرانی صدی سے باہر نکل کر کچھ زیادہ پھیل گئی ہے یا کچھ نیا کرنے کی خواہش مند ہے۔

بشریٰ اعجاز، نگار عظیم، غزل ضیغم اور تبسم فاطمہ نئی صدی کی نئی دنیاؤں کے بارے میں جس طرح غوروفکر کررہی ہیں، وہ ہمارے لئے نہ صرف نیا ہے، بلکہ چونکانے والا بھی ہے۔

ممتاز شیریں سے خدیجہ مستور، مسز عبدالقادر سے ہیجان انگیز کہانیوں والی حجاب امتیاز علی، عصمت چغتائی، قرة العین حیدر سے واجدہ تبسم اور جیلانی بانو، رفیعہ منظورالامین، شمیم صادقہ، ذکیہ مشہدی سے نئی خواتین افسانہ نگاروں تک، جو بغاوت کے تخم سفر میں کل موجود تھے، وہی آج بھی موجود ہے ں۔ ممتاز شیریں جلتے ہوئے انگارے کی بارش کرتی ہے، تو خدیجہ آنگن کے بٹوارے پر سو سو آنسو بہاتی ہے۔ مسز عبدالقادر سنجیدگی سے عورت کے وجود، بدلتے وقت اور بدلتے تیوروں کی بات کرتی ہے، تو حجاب امتیاز علی ہیجان انگیز وادی میں پُراسرار واقعات کو یکجا کرکے خوش ہو جاتی ہے۔ یعنی ایک ڈراؤنے اور خوفناک ماحول میں یہ دنیا ایک ایسی علامت بن جاتی ہے، جہاں روحوں کا بسیرا ہے اور انسان صرف بھوت پریت۔ جو ایک دوسرے کو ڈرا دھمکا کر اپنا اُلّو سیدھا کررہا ہے۔

عصمت کا ’لحاف‘ والا واقعہ دوسرا تھا۔ عصمت نے ’لحاف‘ میں خوفزدہ پاگل ہاتھی دیکھ لیا تھا۔ پتہ نہیں یہ اُن کے گھریلو ماحول کا اثر تھا یا مجبوری، یا سماج کی ستم ظریفی کا دباؤ۔ ’چوتھی کا جوڑا‘ سے ’چاچا چا بڑے‘ تک عصمت عورت سے متعلق کہانیاں تلاش کرتی رہیں اور اس لئے ’لحاف‘ کے اندر سے دیواروں پر رینگتے پاگل ہاتھی سے زیادہ کچھ بھی دیکھ پانے میں کامیاب نہیں رہیں۔

حقیقت میں یہ عصمت کی کہانیوں کا قصورنہیں تھا، بلکہ عصمت کی ’عورت‘ بغاوت کی جگہ اُسے خودسپردگی پر زور دے رہی تھی۔ قرة العین حیدر کی دنیا اِس تعلق سے تھوڑا الگ تھی۔ یعنی وہ عورت کے متعلق بہت حد تک الجھن بھری تھیں، یعنی اُن کی آپ بیتیوں میں عورت کے لئے اُن کا جلا کٹا رُخ ایسا تھا، جیسے کوئی گھمنڈی راجکماری اپنی داشتاؤں کو نفرت بھری نظر سے دیکھ رہی ہے۔ چاہے اُن میں فلم ایکٹریس نرگس ہوں یا کوئی طرم خاں، قرة العین حیدر نے کبھی عورت کے مسائل کی پرواہ نہیں کی۔ اُن کے پاس ماضی کا ایک جھروکا تھا۔ لکھنے کی ایک میز تھی اور اپنی تعریف کا جذبہ تھا۔ جس کے آگے پیچھے اُن کی آنکھیں کچھ بھی دیکھ سکنے کی حالت میں نہیں تھیں۔

واجدہ تبسم کا قلم ’ہور اوپر، ہوراوپر‘ سے آگے کبھی نہیں بڑھا، یعنی جس حد تک عورت کے ’ہور اوپرہور اوپر‘ کے تصور کو وہ چٹخارے دار الفاظ میں پیش کرسکیں، یعنی ’عورت‘ کی حصولی اُن کے نزدیک ’چٹخارے‘ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی۔

اس کے برعکس دیکھیں، تو مسرور جہاں، جیلانی بانو، رفیعہ منظورالامین، شمیم صادقہ اور ذکیہ مشہدی کی کہانیوں کی فضا الگ تھی۔ ایک طرف جیلانی بانو جہاں انسانی مسائل کے درد، زمین کی زبان میں سنانے کی کوشش کررہی تھی، شکیلہ اختر عورت کو ڈائن بنانے والی وجہوں پر غورکررہی تھیں۔ شمیم صادقہ قابلیت کے سہارے عورت کی سائکی کی جانچ کررہی تھی۔

عورتوں کے اِس کارواں میں بہت سے نام رہ گئے ہیں۔ مجھے اِس بات کا احساس ہے لیکن ناموں کی گنتی کرنا یہاں میرا مقصد نہیں ہے۔ خواتین افسانہ نگاروں نے جب بھی قلم اٹھایا ہے۔ وہی پرانا، خود کو حکمرانی کے بوسیدہ کمبل میں چھپائے ہوا مرد سامنے آگیا ہے یا مذہب کی زنجیروں کے درمیان صدیوں کی تہذیب میں وہی مرد کی ذات رنگ بدل بدل کر اِس نئی بغاوت کا ایک حصہ بنتی رہی ہے۔

غیرملکوں سے آتی ہوئی نئی ہوا، یا وہی دقیانوسی ڈھانچہ

غیرممالک جیسے انگلینڈ، امریکہ وغیرہ میں بھی مسلمان خواتین افسانہ نگاروں کی کمی نہیں ہے، لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ آج ’مغربی‘ ہواؤں میں سانس لینے کے باوجود وہ ڈری سہمی مشرقی یا روایتی لڑکی سامنے آجاتی ہے۔ باہر کے کھلے پن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہتھیار وہی کالے کالے برقعہ بن جاتے ہیں۔ اوپر سے لے کر نیچے تک خود کو ڈھکے ہوئے، لالی چودھری سے لے کر بانو اختر، پروین لاشری، حمیدہ معین رضوی، سعیدہ سلیم عالم، عطیہ خاں، صفیہ صدیقی وغیرہ اپنی کہانیوں میں اُسی عورت کو زندہ کرنے میں ترجیح دیتی ہے ں، جو مذہبی پابندیوں میں اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری میں زندگی بسر کرنے کو ہی شرعی راستہ جانتی ہوں۔

باہر کے رنگیں اور کھلم کھلا ماحول میں ذرا سی آزادی چرانے والی عورت کتنی محتاط ہو جاتی ہے، اس کا حوالہ آغا سعید (یہاں ایک مرد افسانہ نگار کی کہانی کا حوالہ جان بوجھ کر دے رہا ہوں ) کی ایک چھوٹی سی کہانی ’تضاد‘ میں دیکھئے۔ لڑکی غیر ملکی ہے۔ کسی مرد نے اُسے پھولوں کی ٹوکری بھیجی ہے۔

”میں کہتی ہوں کہ اِن پھولوں کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی اور تم نے یہ پھولوں کی ٹوکری اور یہ گلابی کارڈ مجھے کیوں بھیجا؟ یہ تو خیریت ہوئی کہ میرے شوہر گھر نہیں تھے، ورنہ قیامت برپا ہو جاتی۔ میں کہتی ہوں کہ تم میرے کون ہو، جو تم نے ایسا کیا؟“ یہ مس ’ت‘ کی آواز تھی۔ ”

”نہیں، میں آپ سے کوئی چیز قبول نہیں کرسکتی۔ وہ بات محفلوں اور مشاعروں تک ہی ہے۔ میرے شوہر اِس کو پسند نہیں کرتے اور نہ میں پسند کرتی ہوں۔ مجھ سے غلطی ہوئی جو آپ کو بیماری کا بتایا۔ پھر آپ کوئی چیز بھیجنے کی تکلیف نہ کریں اور نہ ہی مجھے فون کریں۔“ ۔ ’تضاد‘ آغا محمد سعید

یہ بے باکی کا موضوع نہیں ہے کہ باہر کی خونخوار آزادی اچانک اِن عورتوں کو اپنے ہی بنائے گئے پنجرے میں رہنے پر مجبور کیوں کردیتی ہے؟ جبکہ ایشیائی ممالک میں رہنے والے اں اسی پنجرے کو توڑنے میں اپنی تمام صلاحیت خرچ کردیتی ہے ں۔ کیا یہ ’بکنی چولی‘ کا ڈر ہے، یا تہذیب کے خاتمے کا اثر ہے؟ جیسا کہ کشور ناہید کی کتاب ’بُری عورت کی کتھا‘ میں اُس کا ایک مستری دوست کہتا ہے۔

”میری ماں برقعہ اوڑھتی تھی، مگر میری بیٹی بکنی پہنتی ہے۔“

کنڈوم تہذیب سے گھبرائے لوگ سیدھے سیدھے اپنی تہذیب یا مذہب کے سائے میں لوٹ آتے ہیں، دیکھا جائے، تو بدلا کچھ بھی نہیں ہے، ہاں، تبدیلی کی آگ کچھ دیر کے لئے بغاوت کی ایک ’چنگاری‘ کو جنم دے کر پھر سے بجھ جاتی ہے۔ 1903 میں رقیہ سخاوت حسین، ’سلطانہ کا سپنا‘ لکھتی ہیں، تو ساری بغاوت، مردوں سے لیا جانے والا مورچہ صرف سپنے کی حد تک ہوتا ہے۔ عورت مرد سے بغاوت بھی کرتی ہے، تو سپنے میں۔ رقیہ سخاوت حسین سے اب تک کے 100 برسوں کے سفر میں آج بھی عورت وہیں کھڑی ہے۔

لیکن ہم بھی اُسے اپنی دیواریوں میں چُن کے رکھتے ہیں /
کہ ہمارے گھر اینٹوں سے بھی چھوٹے ہیں /
۔ سارا شگفتہ

وقت بدلا، منظر نامہ بدلا، لیکن کتنی کتنی بدلی ہے یہ مسلم عورت؟ یا تخلیق کی سطح پر بالکل ہی نہیں بدلی ہے؟ نئی صدی نے اُگنے والے سورج کی پیشانی پر لکھ دیا ہے، دہشت گرد۔ تو لہولہان تھا سورج۔ لہولہان تھا مذہب۔ اور لہولہان تھے ایک مذہب کو ماننے والے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسلام دہشت گردی کی علامت بن گیا اور مسلمان دہشت گرد! وقت کے بہتے صفحات پر مسلمان مرد تخلیق کاروں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنے نظریے تک بدل دیے۔

اُن کی کہانیوں میں ایک بڑی جنگ اس ’نابرابری‘ کے جذبے سے بھی ہے۔ اس بڑی جنگ کے خلاف، جہاں ایک پوری جماعت پر دہشت گرد ہونے کی مہر لگا دی گئی ہے۔ مرد افسانہ نگار اِس المیہ کو لے کر تخلیق کا گراں قدر بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں مگر خواتین افسانہ نگاروں میں ایسا لگتا ہے، وہ آج بھی وہیں ہیں، صرف اپنی شناخت، اپنی آئیڈنٹیٹی سے بھڑتی ہوئی۔ شاید وہ اس پورے معاملے پر اس لئے بھی خاموش ہیں کہ۔ بادشاہ تو ننگا ہے /اصلی دشمن تو مذہب ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments