معجزوں کا انتظار کرنے والی قوم


ہو سکتا ہے معجزہ ہو جائے اور کرونا وائرس کی ویکسین جامعہ بنوریہ کراچی کا کوئی طالب علم دریافت کر لے اور مدرسوں کے خلاف ہونے والی تنقیدکا منہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔ اِس بات کا امکان بھی ہے کہ ریاض میں قائم کالج برائے دوا سازی کا کوئی ڈاکٹر یہ ویکسین ایجاد کرکے دنیا میں تہلکہ مچا دے اوریہ بھی ممکن ہے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں طب کے شعبے کا کوئی محقق اِس وبا کا علاج ڈھونڈ کر انسانیت کو اِس عفریت سے نجات دلا دے۔

اسی طرح اِس بات کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتاکہ کسی ولی کامل پر اِس ویکسین کا فارمولا القا ہو جائے اور پھر وہ یہ نسخہ پاکستان کے کسی ڈاکٹر کو چپکے سے کان میں بتا دے جس سے ہماری چاندی ہو جائے اور یہ چانس بھی بہرحال موجود رہے گا کہ ہماری جامعات میں سے ٹیلنٹ سے ابلتا ہوا کوئی نوجوان کسی دن اچانک یہ اعلان کرکے دنیا کو حیران کردے کہ اُس نے کووڈ 19 علاج تلاش کر لیا ہے اور فرط جذبات سے ہم اُسے چوم چوم کر ہی مار دیں (وہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ ہیجڑے کے گھر بیٹا ہوگیا تو اُس نے چوم چوم کر مار دیا) ۔

مگر ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ یا یوں کہیے کہ اِن سب باتوں کا امکان بہت کم بلکہ نا ہونے کے برابر ہے لیکن اگر ایسا ہوا تو مجھ سمیت ہر بندہ یہ ویکسین استعمال کرے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے کرونا وائرس کی ویکسین اگر کسی کافر ملک میں تیار ہوئی تو ہم سب بلا چوں و چرا اس کے ٹیکے لگوا لیں گے!

وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم سب کے دل میں چور ہے، ہمیں اچھی طر ح علم ہے کہ کووڈ 19 بیماری کا علاج ویکسین میں ہے اور یہ ویکسین اگر کہیں ایجاد ہوئی تو وہ کافروں کے ملک کی کسی لیبارٹری میں ہو گی نہ کہ گورنمنٹ ڈگری کالج درہ آدم خیل میں۔ امریکہ کی لیبارٹری میں ایک ”بے حیا“ عورت بنیان پہن کر آزمائشی ویکسین کا ٹیکہ لگوا چکی ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ ویکسین کس حد تک موثر ثابت ہو گی! وہ بے حیا عورت جہنم میں جائے گی جبکہ ہم کافر کی ویکسین استعمال کرکے جنت میں جائیں گے!

سوال یہ نہیں کہ کون جنت میں جائے گا اور کون جہنم میں، کیونکہ یہ فیصلہ اللہ تعالی ٰ نے یوم آخرت پرکرنا ہے، اللہ نے کسی انسان کو اِس کا اختیار نہیں دیا۔ سوال یہ ہے کہ جو بات ہمارے د ل میں ہے وہ ہم زبان پر کیوں نہیں لا رہے، جب ہمیں یہ علم ہے کہ اِس وبا کا تدارک سائنسی علوم کی مدد سے ہی ہوگا اور ہر مولوی اور مسٹر نے ویکسین ہی استعمال کرنی ہے، زاہدہ اور فاحشہ کو بھی دوا سے ہی آرام آنا ہے درویش اور دنیا دار بھی ٹیکہ لگوا کر ہی جان بچا پائیں گے تو پھر مختلف تاویلات سے لوگوں کو گمرا ہ کیوں کر رہے ہیں؟

اِس کے جواب میں یہ استدلال دیا جاتا ہے کہ مذہب کسی کو سائنسی تحقیق سے نہیں روکتا، کوئی شخص سائنس کی ایجادات کا مخالف نہیں، ہم سب ان ایجادات سے استفادہ کرتے ہیں، کوئی مذہبی عالم یہ نہیں کہتاکہ جامعات میں سائنسی علوم پر پابندی لگا دینی چاہیے کہ یہ خلاف دین ہیں، مذہب کا کوئی پیروکار یہ نہیں دعوی ٰ نہیں کرتا کہ وبا کا علاج صرف دعامیں ہے، اور تو اور اب تو مدرسوں میں بھی ریاضی، طبیعات اور دیگر سائنسی علوم پڑھائے جاتے ہیں، مذہب اور سائنس کو آمنے سامنے کھڑا کرنے کی ضرورت ہی نہیں، مذہب تو صرف انسان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ دنیا وی اسباب سے ماورا بھی ایک قوت ہے جو اِس کارخانہ ہستی میں کا رفرما ہے، ایک خیال اُس کا بھی رہے، سائنس اور مذہب کے مابین کوئی جھگڑا نہیں۔ اِس دلیل میں وزن توہے مگر اِس حد تک کہ مذہب ہمیں سائنسی تحقیق سے نہیں روکتا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو گیارہویں بارہویں صدی میں مسلم سائنس دانوں کی کہکشاں پیدا نہ ہوتی اِس دور میں سائنس کی بھی ترقی ہوئی اور مذہب سے تعلق بھی قائم رہا۔ پھر مسئلہ کیا ہے؟

مسئلہ سائنسی سوچ اور سائنسی ماحول کا فقدان ہے۔ ملک میں جیسا ماحول ہوگا ویسے لوگ پیدا ہوں گے۔ یہ ممکن نہیں کہ ملک کے مبلغ اور شارح دین یہ بتاتے رہیں کہ وبائیں، آفتیں، بیماریاں اوربلائیں، ہمارے گناہوں کی سزا ہیں اور اِن سے بچاؤ کا طریقہ خدا سے دعا ہے اور ساتھ ہی ہماری لیبارٹریوں میں وبائی امراض پر سائنسی اصولوں پر تحقیق بھی کی جا سکے۔ یہ ممکن نہیں کہ ہم ملک میں شدت پسندی کی پنیری لگائیں اور پھر یہ امید رکھیں کہ اِس کے نتیجے میں خود کُش بمبار کی بجائے بو علی سینا پیدا ہوگا۔

یہ ممکن نہیں کہ ہم سوال کرنے پر قدغن لگائیں اور پھر یہ خوش فہمی رکھیں کہ ہمارے ہاں نظریہ ارتقا پر کوئی قابل قدر مقالہ لکھا جا سکے گا۔ بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں دلی میں شعرا کی جس طر ح سرپرستی کی جاتی تھی اُس کے نتیجے میں غالب، ذوق اور مومن نے ہی پیدا ہونا تھا، ہم نے اِس ملک میں کرکٹ کی سرپرستی کی اور بہترین کرکٹر پیدا کیے، یہی کلیہ سائنس اور دیگر علوم کے لیے بھی ہے۔ اگر مسلم دنیا میں سائنسی تحقیق کی آزادی ہوتی تو آج ہم منہ اٹھاکر کافروں کی شکل نہ دیکھ رہے ہوتے، در آدم خیل کے کالج میں تو فنڈز کی کمی کا رونا رو کر ہم اپنی ناکامی جواز تراش لیں گے مگر سعودی عرب کی جامعات میں تو ڈالروں کی برسات ہوتی ہے، وہاں آج تک کیا ایجاد ہوا!

دراصل آج ہم مذہب کی جو تعبیر پیش کر رہے ہیں اُس کے نتیجے میں سائنسدان نہیں خطیب یا زیادہ سے زیادہ مبلغ ہی پیدا ہوں گے۔ ہماری یہ خوش فہمی ہے کہ ہم خدا کی پسندیدہ قوم ہیں اور چونکہ ہم نے یہ راز پا لیا ہے کہ یہ وبا ہمارے گناہوں کی پاداش میں عذاب/سرزنش کے طور پر آئی ہے اِس لیے اجتماعی اور انفرادی مغفرت کے نتیجے میں اِس سے چھٹکارا مل جائے گا اور یہ چھٹکارا کسی معجزے کے نتیجے میں دوا اور ویکسین کی صورت میں ہمیں ملے گا۔

یہ سوچ خدا کے بتائے ہوئے طریقے سے مطابقت نہیں رکھتی، یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم محض دعوی ٰ کرکے بیٹھ جائیں کہ مذہب ہمیں سائنسی تحقیق سے نہیں روکتا، اگر نہیں روکتا تو پھر مسلمان تحقیق اور غور و فکر کیوں نہیں کرتے، جیسا کہ قرآن کا حکم ہے۔ ہم غور و فکر اِس لیے نہیں کرتے کیونکہ ہم نے یہ غیر سائنسی سوچ اپنا لی ہے کہ اِن دنیاوی آفات کے پیچھے دراصل ما بعد الطبیعاتی عوامل کا ر فرما ہیں، اگر یہ سوچ ہوگی تو پھر ہم طبیعات کی دنیا سے اِس کا علاج نہیں کر پائیں گے، یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی بات کی وجہ تو روحانی یا غیبی ہو اور اُس کا علاج کفار کی لیبارٹری میں کسی بے پردہ خاتون پر تجربہ کرکے تلاش کیا جا سکے۔ منطق کی زبان میں اسے قانون

تضادات کہتے ہیں، یعنی دو متصاد نظریات ایک ہی وقت میں درست نہیں مانے جا سکتے، جیسے کہ ’الف‘ اور ’ب‘ اگر ایک ہی ہیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ ’الف‘ کسی صورت میں ’ب‘ سے مختلف ہو۔ لیکن ہم چونکہ وہ قوم ہیں جو ایک ہی وقت میں سنی لیون اور مولانا طارق جمیل، دونوں کے پرستار ہیں، اِس لیے ہم سے کچھ بھی بعید نہیں، قانون تضادات بھی ہم پر لاگو نہیں ہوسکتا!

کالم کی دُم :کالم میں لفظ کافر استعمال کرنے پر میں اپنے غیر مسلم دوستوں سے معافی چاہتا ہوں، دراصل جو بات کافر میں ہے وہ غیر مسلم میں کہاں! جب تک کالم میں صیہونی، دجال، طاغوت، باطل اور کفار جیسے الفاظ نہ ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے بندہ کالم نہیں ”ہمٹی ڈمٹی“ قسم کی کوئی چیز پڑھ رہا ہے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments