کورونائی مساوات سے کیا سیکھا؟


اس وقت کورونا نے امریکہ اور افریقہ کو ایک صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ آج دنیا کا امیر ترین خطہ بھی اتنا ہی بے بس ہے جتنا غریب ترین خطہ ہے۔ آج مزدور کورونا کا شکار ہے تو وزیراعظم بھی اس وائرس کا شکار ہے۔ ہمیں وائرس کے اس سبق کو مثبت انداز میں لینا چاہیے اور دنیا سے عدم مساوات کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکا ہوگا اور اتحاد کا مظاہر کرنا ہوگا اور وبا کو شکست دینا ہوگی۔

اس وقت چین میں دنیا میں ایک واحدایسا ملک ہے جہاں وائرس پر قابو پانے کے بعد صورت حال معمول پر واپس آچکی ہے۔ ابتداء ہی سے، چین کے اعلیٰ رہنما، شی جن پھنگ نے اس وبا کی روک تھام اور کنٹرول کو ”عوام کی جنگ“ کے طور پر بیان کیا، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ لوگوں کی زندگی اور صحت کو پہلی ترجیح دی جانی چاہیے، اور اس جنگ کو جیتنے کے لئے عوام پر انحصار کرنا ہوگا۔ اس اچانک وبا کے سامنے، صفائی کے کارکنوں، کورئیر جوان سے لے کر طبی عملے اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والے تمام لوگوں نے محنت اور خاموشی سے اپنی خدمات انجام دی جس کی وجہ سے وبا پر قابو پانے کے لئے ایک طاقتور قوت وجود میں آئی۔ چینی صدر نے غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ چینی عوام ہی ہیں جنہوں نے ہمیں اس وبا پر قابو پانے کے لئے طاقت اور اعتماد دیا، عوام ہی ہیرو ہیں۔

اس وقت دنیا بھر میں کورونا کے متاثرین کی تعداد تیس لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔ اس وبا کی وجہ سے سوا دولاکھ سے زائد زندگیوں کے چراغ گل ہوچکے ہیں۔ اس وبا کی ایک اور بھیانک سچائی یہ ہے کہ پہلے سے بے روزگاری سے لڑتی اس دنیا میں اس سال کے وسط تک 305 ملین افراد اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہوں گے۔ یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ حکومتیں اس وبا کی روک تھام اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے لئے باہمی اختلافات کو بھلا دیں۔ اس قبل کے مزید دیر ہوجائے اقوام عالم کی طرف سے ایک متفقہ رد عمل بہت ضروری ہے۔

انسداد وبا کی لڑائی میں کوئی تماشائی نہیں ہے۔ 1.4 بلین چینی باشندے اپنی اپنی حیثیت میں اس وبا سے لڑنے کے لئے سخت کوشش کر رہے ہیں، اور ہر ایک عام چینی کی جدوجہد کو سمجھنے کے بعد ہی بین الاقوامی برادری کو واضح طور پر اندازہ ہوسکتا ہے کہ چین نے اس جنگ کو کس طرح جیتا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل کے سینئر مشیر بروس ایلورڈ نے جذبات کے ساتھ کہا ہے کہ ”رضاکاروں نے صف اول میں خدمات سرانجام دے کر نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کو وائرس سے محفوظ بنایا“ ۔

آج کی دنیا میں ہمارے پاس سپر کمپیوٹرز، بگ ڈیٹا، مصنوعی ذہانت اور شماریاتی تجزیوں کے سافٹ وئیر موجود ہیں لیکن ہم کتنے بے بس ہیں کہ اپنی تمام تر طاقت کے دعوؤں اور عملی ثبوتوں کے باوجود اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ اس کہ وجہ یہ ہے کہ آنے والی دنیا کا تعین اب ہماری خواہشات پر نہیں بلکہ ”وائرس“ کی جانب سے چھوڑے جانے والے چیلنجز پر ہوگا۔

ایک چیز یقینی ہے کہ اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان میں غریب اور کم آمدن والے طبقات ہوں گے لہذا میری دنیا کے صاحب اختیار لوگوں کو سب سے زیادہ ان ہی کی فکر کرنا ہوگی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے خون پسینے سے آج دنیا کو اس طاقتور مقام پر پہنچایا ہے۔ اس صدی کے شروع میں سامنے آنے والی عالمی کساد بازاری کو انہی لوگوں نے اپنی محنت سے انجام دیا تھا۔ اگر ہم نے مل کر انہیں بچا لیا تو یہ بھیانک خواب جلد ختم ہو جائے گا۔

حالیہ وبا نے دنیا بھر کے کھوکھلے دعوؤں کی قلعی کھول کر دی ہے۔ اس وبا نے ہمارے نظام میں موجود نا انصافیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کو سب کے سامنے آشکار کردیا ہے۔ آج کی دنیا میں امیر کی دولت کا شاید ایک صفر کم ہوا ہو لیکن غریب کی زندگی صفر ہوگئی ہے۔

انشا اللہ کووڈ۔ 19 کے خلاف یہ جنگ جلد یا بادیر جیتی ہی جائے گی لیکن اس فتح کے بعد چیلنجز کی ایک طویل فہرست دنیا کی منتظر ہوگی۔ ان نئے چیلنجز کا مقابلہ کسی ایک قوم کے لئے تنہا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ لہذا کورونا کے بعد کی دنیا کے لئے سب کو ابھی سے تیاری کرنا ہوگی۔ ہمیں نئی دنیا کے نئے انداز قبول کرنے لئے ابھی سے تیار رہنا ہو گا۔

آج کی اس کورونائی دنیا میں ہم میں سے اکثریت کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کس طرح اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو کورونا کی وبا سے بھی بچائیں اور اپنے روزگار کے اسباب کو بھی محفوظ بنائیں۔ دوسری جانب پالیسی ساز، تھنک ٹینکس اور ارباب اختیار ایسی پالیسیوں کی تلاش میں ہیں جن کی مدد سے وبا پر قابو پایا جائے اور اس کے معیشت پر پڑنے والی منفی اثرات کو بھی مزید بڑھنے سے روکا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments