بھارت کے مسلمانوں کے بعد بلیوں کی باری بھی آ سکتی ہے


جریدے فارن ریلیشن کی رپورٹ ہے کہ بھارت کے پنجاب میں ایک مسلمان نرس عنبرین خان اپنے گھر کی طرف واپس آ رہی تھی کہ اسے چھ سات مردوں نے گھیر لیا۔ ان میں اس نرس کے ہمسائے بھی شامل تھے۔ انہوں نے اسے گھسیٹ کر گاڑی سے نکالا اور مارنا اور جنسی طور پر ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ مسلمان تھی اور ان لوگوں کا خیال تھا کہ بھارت میں کورونا کی وبا مسلمانوں کی وجہ سے پھیلی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ ہے کہ دہلی کے جنوب میں ایک ہریانہ کا ایک بھارتی فوجی افسر سلیم الدین موٹر سائیکل پر جا رہا تھا۔ سڑک پر کچھ لوگ رکاوٹ کھڑی کر کے کھڑے تھے۔ ان لوگوں نے پہچان لیا کہ یہ شخص مسلمان ہے۔ پلک جھپکتے اس کے گلے میں رسہ ڈال کر اس کا گلا گھونٹا جا رہا تھا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ وہ مسلمان تھا اور ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ وبا مسلمان پھیلا رہے ہیں۔ آپریشن کے با وجود سلیم الدین بولنے کے قابل نہیں ہو سکا۔

اس الزام کی یہ دلیل بیان کی جاتی ہے کہ دہلی میں تبلیغی جماعت کا جلسہ ہوا تھا۔ اس جلسہ میں تین ہزار کے قریب لوگ شریک ہوئے اور شرکاء میں کئی لوگوں کو کورونا کی تشخیص ہوئی۔ لیکن یہ حقیقت فراموش کر دی جاتی ہے کہ انہی دنوں میں کیرالہ میں ہندوؤں کا دس دن کا کا تہوار ہوا اور اس میں شریک لوگوں کی تعداد لاکھوں میں تھی اور ان میں بھی کورونا کے مریض دریافت ہوئے ہیں۔ اور انہیں دنوں میں بہت سی سیاسی جماعتیں اپنے اجتماعات منعقد کر رہی تھیں۔ اگر ایک جگہ پر مسلمانوں سے کوئی غلطی ہوئی بھی تھی تو کیا اس کی سزا بیس کروڑ مسلمانوں کو دی جائے گی؟

بھارت میں یہ افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ مسلمان جان بوجھ کر پھلوں اور سبزیوں پر کھانستے اور چھینکتے ہیں تا کہ ملک میں کورونا کی وبا پھیلے۔ اور سوشل میڈیا پر ایسی وڈیو پھیلائی جا رہی ہیں جن میں مسلمان کھانے کی چیزوں پر کھانس اور چھینک رہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ ہے کہ بنگلور میں ایک مسلمان سوشل ورکر زرین تاج مستحقین میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کر رہی تھیں۔ ان پر یہ الزام لگا دیا گیا کہ انہوں نے کورونا پھیلانے کے لئے کھانے پینے کی چیزوں پر تھوکا ہے۔ ان کے گروپ کو زد و کوب بھی کیا گیا۔ کیا یہ لوگ اتنا نہیں جانتے کہ کسی کو خود کورونا کا وائرس لاحق ہو گا تو وہ دوسروں کو لگا سکتا ہے۔ گویا مسلمان پہلے خود کو کورونا لگاتے ہیں تاکہ بعد میں دوسروں کو منتقل کر سکیں اور اسے کورونا جہاد کا نام دیا جا رہا ہے۔

اس صورت حال میں اگر کوئی مسلمان بیمار ہو جائے تو وہ مزید مظالم کا نشانہ بن سکتا ہے۔ گجرات کے ایک ہسپتال میں میں مذہب کی بناء پر مریضوں کو علیحدہ وارڈوں میں رکھا جا رہا ہے۔ راجھستان میں ایک مسلمان عورت کا بچہ ضائع ہو گیا کیونکہ ڈاکٹروں نے اس کا آپریشن کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

مسلمانوں کے خلاف یہ نفرت انگیز افواہیں منظم طریق پر پھیلائی جا رہی ہیں۔ معروف شخصیات نے یہاں تک ٹویٹ کیے کہ مسلمانوں کو گولی مار دو۔ ایک اخبار میسور سٹار  نے اداریہ لکھا کہ اب گندے سیبوں کو علیحدہ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ بی جے پی کے ایک لیڈر نے ٹویٹ کی کہ اب مسلمانوں کو ٹھیک کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اوپر سے یہ دعوے کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ”مہا دیش“ ہیں۔

اگر چہ بی جے پی والوں کے آگے بین بجانا کافی مشکل کام ہے۔ لیکن انہیں یہ علم ہونا چاہیے کہ دنیا میں پہلے بھی کئی عالمی وبائیں پھیل چکی ہیں۔ ان وباؤں کے دوران بھی بعض متعصب گروہوں نے اس قسم کی افواہیں پھیلائی تھیں اور اس عمل کے بہت بھیانک نتائج برآمد ہوئے تھے۔ 1348 میں یورپ، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں طاعون کی خوفناک وبا پھیلنی شروع ہوئی تھی۔ اور کہا جاتا ہے کہ یورپ کی نصف یا کم از کم ایک تہائی آبادی تین سال کے اندر اندر ختم ہو گئی تھی۔ اس وقت اہل یورپ کو لگ رہا تھا جیسے اب دنیا ختم ہو جائے گی۔

اس وقت تک طب کی ترقی تو واجبی سی تھی۔ پہلے پہل تو لوگوں نے اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے کیتھولک چرچ سے رجوع کیا۔ لیکن جب پادری حضرات بڑی تعداد میں اس بیماری کا شکار ہونے لگے تو نتیجہ نکالا کہ چرچ بھی راہ راست سے ہٹ گیا ہے۔

اس کا حل یہ نکالا گیا کہ خاص طور پر جرمنی کے علاقے میں بڑے بڑے جلوس نکلنے شروع ہوئے جن میں لوگ اپنے آپ کو کوڑے مار مار کر لہولہان کر دیتے تھے۔ یہ بڑے بڑے جلوس ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے اور ساتھ دعائیہ نظمیں بھی پڑھتے جاتے۔ اس طرح طاعون نے تو کیا دور ہونا تھا یہ بیماری اور بھی زیادہ تیزی سے پھیلنی شروع ہو گئی۔

اب چودہویں صدی عیسوی کے یورپ کے صالحین نے ڈھونڈنا شروع کیا کہ آخر یہ کس کی سازش ہے جو طاعون ہمارا صفایا کیے جا رہا ہے؟ اس وقت اجتمائی طور پر یورپ کی نفسیات اس وبا سے اس حد تک متاثر ہو چکی تھی کہ پورے یورپ میں یہ خیال آگ کی طرح پھیل گیا کہ یہودیوں نے ہر شہر کے کنویں میں زہر ملا دیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلاکہ یورپ کے مختلف شہروں میں لوگ یہودیوں پر ٹوٹ پڑے اور انہیں ایک جگہ جمع کر کے زندہ جلانا شروع کر دیا۔

جنوری 1349 میں ایک ہی روز میں بیسل میں 600 یہودیوں کو زندہ جلایا گیا۔ اسی طرح جینیوا اور اس کے ارد گرد کے علاقے کے یہودیوں کو جمع کر کے زندہ جلایا گیا۔ اس طرح مختلف شہروں میں ہزاروں یہودیوں کو زندہ جلایا گیا۔ اور ان شہروں میں یہ قانون بنا دیا گیا کہ کوئی یہودی شہر میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اور زائد فائدہ یہ تھا کہ قتل کرنے والوں نے ان کی جائیدادوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ البتہ انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے۔ بہت سے یہودیوں پر بد ترین تشدد کر کے ان سے اعتراف جرم بھی کرالیا گیا کہ انہوں نے پانی میں زہر ملا کر یہ وبا پھیلائی ہے تاکہ مسیحی دنیا کا خاتمہ کیا جا سکے۔

لیکن مودی صاحب غور فرمائیں کہ یہ بربریت صرف یہودیوں تک محدود نہیں رہی۔ کچھ ہی عرصہ میں یورپ کے ان وحشیوں نے خود اپنے ہم مذہب خواتین میں بھی چڑیلیں دریافت کرنی شروع کر دیں۔ ایسی چڑیلیں جو جادو کر کے علاقے میں طاعون پھیلا دیتی تھیں۔ اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ان پر تشدد کر کے ان سے بھی جرم کا اعتراف کرالیا۔

لیکن طاعون کی وبا ابھی بھی لاکھوں لوگوں کو اپنا شکار بنا رہی تھی۔ چنانچہ یورپ کے یہ دانشمند مزید غور کر کے اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان چڑیلوں کا بلیوں سے بھی کچھ اتحاد ہے۔ چنانچہ بعض شہروں میں لوگوں نے بلیوں کا خاتمہ بھی شروع کر دیا۔ چوہے طاعون پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بلیوں کو مارنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ طاعون کی وبا اور پھیل گئی۔ اور تین سالوں میں یورپ کی نصف کے قریب آبادی ختم ہو گئی۔

تین سال میں طاعون کا زور تو ٹوٹ گیا لیکن دو سو سال تک یورپ کے عقلمند بڑی جانفشانی سے اپنی عورتوں میں چڑیلوں کو دریافت کرکے زندہ جلاتے رہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی حماقتوں کو روکنے کا وقت بالکل شروع میں ہوتا ہے۔ بعد میں یہ بربریت کسی کے قابو میں نہیں رہتی۔ میں نے بین بجا دی ہے۔ آگے بی جے پی والوں کی مرضی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments