کیا فتح سندھ ایک عرب سامراجی سازش تھی؟


سائیں جی ایم سید اپنی کتاب سندھی کلچر میں لکھتے ہیں کہ میرے کانوں میں آج بھی اہم سیاسی لیڈروں کی آوازیں گونجتی ہیں کہ چھوٹا صوبہ چھوٹے دماغوں والے لوگوں (سردار پٹیل)، سندھیوں کا کلچر گدھے ہانکنے اور اونٹ چرانے والوں کا ہے (لیاقت علی خان) ۔ یاد رہے کہ جی ایم سید سندھ اسمبلی سے سب سے پہلے قرارداد پاکستان منظور کرانے والے شخص تھے۔ سندھو دیش کا نعرہ لگانے کے بعد ان کا شمار باغیوں میں ہونے لگا۔ سندھ میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ جب ہجرت کر کے مہاجر پاکستان میں داخل ہو رہے تھے تو انہیں یہ کہہ کر سندھ کی طرف بھیجا جا رہا تھا کہ پاکستان آگے ہے اور جب یہ سندھ کے اردو بولنے والے سپوت سندھ پر حکمرانی کرنے لگے تو کراچی جیسے شہر میں اپنی جان کے لالے پڑنے پر سندھی بولنے والے اپنی ٹوپیاں جیبوں میں چھپائے پھرنے لگے۔

تعصب کی تازہ مثال گورنر سندھ عمران اسماعیل کی، کہ جنھوں نے آج ٹی وی کی خبر کے مطابق خود کو کورونا کی بیماری لگنے کا ذمہ دار سندھیوں کو جاہل کہہ کر قرار دیا۔ اپنی اپنی ضرورت کے تحت جس نے جب چاہا سندھ کو گالی دی جب چاہا سندھ کے وفا دار بن بیٹھے۔ یہ بات پرانے سندھی درسی قاعدوں میں درج تھی کہ بانی پاکستان قائداعظم کی پیدائش اور ان کی ابتدائی تعلیم ٹھٹہ کے شہر جھرک کی ہے اور ان کے آبا و اجداد سندھی تھے اور تحقیق کے مطابق آج بھی ان کا نام جھرک کے پرائمری سکول میں درج ہے مگر نہیں معلوم کن مقاصد کے تحت درسی کتابوں میں ان کی جائے پیدائش کراچی کو اور ان کے غیر سندھی ہونے پر زور دیا گیا۔

سندھ کے بیشتر لوگوں نے چچ نامہ، فتح نامہ اور سفر نامہ تو نہیں پڑھا مگر وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ محمد بن قاسم کی فتح سندھ، تلوار کے زور پر ہوئی مگر چونکہ کتابوں میں موجود مواد اس کے برعکس تھا لہذا مختلف امتحانات میں دہرایا گیا یہ سوال کہ سندھ میں اسلام کیسے پھیلا تلوار کے زور پر یا محمد بن قاسم کے اچھے برتاؤ سے؟ تو لوگ بحالت مجبوری اپنی معلومات کے برعکس جواب دینے پر مجبور ہوتے اور یہ کہ محمد بن قاسم کی فتح سندھ، کوئی اسلام اور کفر کی جنگ نہیں تھی بلکہ یہ ایک عرب سامراجی طاقت تھی جو دیبل کو فتح کر کے مال و ملکیت پر قبضہ کرنا چاہتی تھی۔

یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ سندھ کے لوگوں نے محمد بن قاسم کے دور میں اسلام قبول کیا ہو مگر کیا وجہ ہے کہ سندھ کے لوگ ابھی تک راجہ داہر کو ہیرو اور محمد بن قاسم کو حملہ آور مانتے ہیں اور آج بھی لوگ سندھ میں اپنے بچوں کے نام محمد بن قاسم کے بجائے راجہ داہر رکھتے نظر آتے ہیں۔

جرنل ایوب خان کے دور حکومت میں دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد کو قرار دینے کو بھی سندھ کے خلاف سازش قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے عدالتی قتل کی بات کی جائے جس پر ججز کا اعترافی بیان موجود ہے کہ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ دباؤ کا نتیجہ تھا ابھی تک بھٹو کا ریفرنس اعلی عدلیہ کے سرد خانے میں انصاف کا منتظر ہے پھر پیپلز پارٹی کا یہ کہنا بجا ہے کہ لاڑکانہ اور لاہور کے لیے انصاف کا دوہرا معیار ہے۔

چلو یہ بات بھی مان لی جائے کہ سندھ میں ٹڈی دل کے پے در پے حملوں کی ذمہ دار پیپلز پارٹی ہے مگر رمضان کے مہینے میں شدید گرمی میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا ذمہ دار کون ہے؟ وفاقی کابینہ میں ردو بدل، اختیارات کی نسوانی ہاتھوں سے آہنی ہاتھوں میں منتقلی کو بھی سندھ کو فتح کرنے کی تیاری سمجھا جا رہا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس خطے میں چاہے تاریخ کا پہلو ہو، مذہب ہو، سیاست ہو نصاب ہو یا لسانیت، ہر شعبے میں انجیئنرنگ کر کے اس کی اصل شکل کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اگر یہی صورتحال آگے بھی برقرار رہی تو خطے میں احساس محرومی کے ساتھ ساتھ ہیرو اور زیرو، غدار اور محب وطن ثابت کرنے کی نہ ختم ہونے والے جنگ جاری رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments