میرے پسندیدہ 15 ناول (ڈاکٹر شہناز شورو کی فرمائش پر )


جب بیس برس کا تھا، میں نے بیس ناولوں کی ایک فہرست تیار کی تھی کہ مرنے سے قبل ان ناولوں کا مطالعہ کر لینا چاہیے۔ اب عمر کی اس منزل میں پہنچ چکا ہوں جہاں مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میری فہرست سے کون خوش ہوتا ہے اور کون دکھی۔ عمر کی یہ یہ منزل ایک انوکھی منزل ہے جب آپ اس طلسم کے حصار میں ہوتے ہیں کہ اٹھ، چل کہتے ہی آپ کا وجود صفحۂ ہستی سے غائب ہو جاتا ہے۔ اہ مارخیز، وہ اپنی بیوی کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر نکلا۔ کچھ دور چلنے کے بعد مارخیز نے گاڑی روک دی۔ بیوی سے کہا۔ جان من، تمہیں یاد ہے، میں نے تمہیں اپنے نیے ناول کے بارے میں بتایا تھا لیکن لکھنا شروع نہیں کر سکا، اب ناول کی وہ پہلی لائن وجود میں آ چکی ہے اور مجھے اسے لکھ لینا چاہیے۔ مارخیز کی بیوی نے کہا، اسی وقت گاڑی گھر کی طرف موڑ لو۔ وہ پہلی سطر۔ ہائے وہ طلسم۔ یہ تارڑ صاحب کو بھی پتہ ہوگا کہ ناول جب اپنے مکمل ویژن کے ساتھ مصنف کے دسترس میں آتا ہے تو پہلی سطر کا انتظار ہوتا ہے۔

رب کے لئے ایمان اور عقیدہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی پہلے دروازے یا پہلی سطر کے انتظار میں ہوتا ہے۔ اسلام پر کامل یقین کا پہلا لفظ۔ لا۔ نہیں۔ نہیں ہے کوئی معبود۔ نہیں سے ہاں کا سفر۔ سوائے اللہ کے۔ اور ناول نگار خالق اس لئے کہ وہ بھی پہلی سطر سے بندھا ہوا ہے۔ اور اس سطر کے بعد ناول کی مکمل دنیا اس پر سایہ کرتی ہے کہ وہ گم ہو جاتا ہے تا وقتیکہ ناول مکمل نہیں ہو جاتا۔ یہاں میں خصوصی طور پر The fragrance of guava یعنی امردو کی مہک سے وہ دلچسپ اقتباسات پیش کرنا چاہتا ہوں، جسے پلینوا پولیؤ فیدوزا نے مارکیز سے ہونے والے طویل مکالمے کے بعد ترتیب دیا تھا۔

(1) میری تحریروں میں وہ واحد کردار (پتوں کا طوفان) جو میرے نانا سے مشابہت رکھتا ہے۔ بے نام کرنل ہے۔ میرے نانا کی ایک آنکھ ایسے واقعے میں ضائع ہوگئی تھی جسے ناول میں شامل کرنا مجھے ضرورت سے زیادہ ڈرامائی محسوس ہوا۔ وہ اپنے دفتر کی کھڑکی سے ایک خوبصورت سفید گھوڑے کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک انہیں اپنی بائیں آنکھ میں کسی چیز کا احساس ہوا۔ اور وہ بغیر کسی درد کے اپنی بینائی کھو بیٹھے۔ میں نے اس واقعہ کی تکرار اپنے بچپن میں سنی تھی۔ جب میں نے کرنل کے کردار کو رنگ دینا شروع کیا تو اس میں جوں کا توں نانا کارنگ آنے تھا۔ ہاں، یہ اور بات ہے کہ ناول میں کرنل اندھا نہیں بلکہ ایک ٹانگ سے لنگڑا ہے۔ اور میں نے یہ دکھایا کہ اس کا لنگڑاپن ایک جنگ میں زخمی ہونے کا نتیجہ ہے۔

(2) One hundred years of solitude یعنی تنہائی کے سو سال میں کرنل کا کردار میرے ذہن میں میں نانا کا تصور کے قطعی برعکس ہے۔ نانا بھاری بھرکم تھے۔ ان کی رنگت سرخی مائل تھی۔ اور ان جیسا کھانے کا شائق میں نے پوری زندگی میں کوئی اور نہیں دیکھا۔ ان کی جنسی اشتہا بھی اسی درجے کی تھی، جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا۔ کرنل کے برخلاف جنرل رافیل کا کردار میرے نانا سے زیادہ میل کھاتا ہے۔ بیشک میں نے جنرل کو کبھی نہیں دیکھا۔ مگر نانی نے مجھے بتایا کہ جنرل جیسا ایک آدمی نانا کے دفتر میں تھا۔

کتنا مزیدار اور دلچسپ۔ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ آپ کردار کہاں سے لاتے ہیں۔ کردار ایسے پیدا ہوتا ہے اور کبھی کبھی مصنف خود کئی کرداروں میں ہوتا ہے۔ “لے سانس بھی آھستہ” لکھتے ہوئے مجھے دو کرداروں کی ضرورت تھی۔ ایک انیس سو سینتالیس، بارہ بجے سے پہلے پیدا ہوتا ہے۔ غلام ملک میں۔ دوسرا ملک کی آزادی کے بعد۔ یعنی شب کے بارہ بجے کے بعد۔ یہ پہلی سطر اور کرداروں کے کھیل آسان نہیں۔

میں کاندید کو پڑھ کر پاگل تھا۔ الگزینڈر پشکن نکولائی گوگول، فیودردوستوفسکی، لیو تالستائے، میخائیل شولوخوف، میکسم گورکی، ترگنیف۔ روسی ادب کا میں مداح تھا، بورس پولوو کی ایک کتاب کا نام تھا۔ The story of a real man۔ ایک فوجی جس کا پاؤں کاٹ ڈالا جاتا ہے۔ اور جو اپنے ول پاور سے اپنی خود اعتمادی دوبارہ بحال کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ مجھے ہیمنگ وے کے The old man and the sea سے محبت تھی۔ ہیمنگ وے کی کہانیوں کے مرد آہن مجھ میں نیا جوش، نیا دم خم بھرتے تھے۔

مجھے  ہرمن میلول کے موبی ڈک سے پیار تھا۔ وکٹر ہیوگو، کافکا، ورجینا وؤلف، البیر کامو، یہ سارے میرے اپنے تھے۔ خاص کر Les miserable کا پادری اورThe plagueکا Dr۔ Riox میرا آئیڈیل تھا۔ ٹھیک اسی طرح کرائم اینڈ پنشمنٹ کا رسکلانیکوو، گورکی مدر کا پاویل ولاسوف، اور تر گنیف کی The father and the son کے باپ بیٹے مجھے بے حد پیارے تھے۔ گوگول کی کتاب Deal soul مجھے ذہنی عذاب میں مبتلا کرتی تھی۔ گبریل گارشیا مارکیز کا ادب مجھے پسند تھا عجیب بات تھی کہ مجھے الیگزینڈر سولنسٹین سے بھی اسی قدر محبت تھی۔

گلاگ آرکیپلا گو اور کینسر وارڈ دونوں مجھے پسند کر رہے تھے۔ نیتھنئیل ہاتھورن کی The scarlet letter بھی مجھے پسند تھی۔ جارج آرویل کی Animal farm اور 1984 مجھے نئی فکر سے روشناس کرارہے تھے۔ میں سال بیلو کو بھی پڑھنا چاہتا تھا، ولیم گولڈنگ اور گراہم گرین کو بھی۔ کرشن کی نثر کسی جادو کی طرح مجھ پر سوار تھی۔ مجھے اردو کی داستانوں نے لبھایا تھا اور مجھے لکھنا سکھایا تھا۔ مجھے پنچ تنتر بھی پسند تھی اور The magic mountain بھی۔ طلسم ہوشربا کا تو میں شیدائی تھا۔ جب آپ اننا کارنینا، کارمین، میڈم بواری کی بات کرتے ہیں تو ایک وائلن سمندر کے کنارے کی بات کیوں نہیں کرتے۔ جب آپ وار اینڈ پیس کی بات کرتے ہیں تو خواجہ احمد عباس کے ناول انقلاب کا تذکرہ کیوں نہیں کرتے۔

بقول ڈاکٹر احمد سجاد۔ ”ادب کو سماج میں رہ کر اپنی راہ بنانی پڑتی ہے۔ وہ کارواں کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور کارواں کی رہبری بھی کرتا ہے۔“ میں یہ اضافہ کر دوں کہ کبھی کبھی ناول نگار کاروا ں کے ساتھ نہیں بھی ہوتا ہے۔ ناول نگار کے پاس ایک خیالی کارواں ہوتا ہے جس میں وہ یوٹو پیائی اور دسٹوپیائی دونوں طرح کے کارواں سے الجھتا ہے کیونکہ موسم ایک نہیں، رہگزر ایک نہیں، زندگی کے فلسفے مختلف، عالمی سیاست کے رنگ اور ڈھنگ جدا، معاشرے اور تہذیبی تصادم اور ہونے والی ہر تبدیلی پر نگاہ۔

اور یہیں سے کوئی ایک ویژن جب ناول کا روپ دھرتا ہے تو وار اینڈ پیس، کرائم اینڈ پنشمنٹ، لا مزریبل، انیمل فارم، د پلیگ، اننا کارنینا۔ میڈم بواری، ڈاکٹر ژواگو جیسے انگنت فن پارے عروج پاتے ہیں۔ اور یہ کون طے کرے گا کہ گوگول کی ڈیڈ سول کمزور ناول ہے اور مارخیز سب سے آگے؟ میں فادر اینڈ سن پڑھنے کے بعد مدتوں جنونی کیفیت میں رہا، ناول کا کردار بازاروف میں خود تھا۔ معاشرتی اتار چڑھاؤ کے دوران آنے والے تنازعہ کی ایک لازوال عکاسی اس ناول میں تھی۔ اس میں بڑی عمر کے روسی اشرافیہ اور نوجوانوں کی بنیاد پرستی کے مابین تصادم کی تصویر کشی کی گئی تھی اور نیے انقلاب کے آنے کی پیش گوئی کی تھی۔ آپ کیسے کہیں گے کہ بورخیس بہتر ہے اور ترگنیف کا فادر اینڈ سن کمزور۔ میلان کنڈیرا ہی عظیم ہے اور چارلس ڈکنس، ہنری ملر، ہیمنگوے کمزور۔ سب کچھ سارتر کے پاس ہے، البرٹ کامو کا ذہنی افق خالی ہے۔ یہ طے فاروقی کریں گے، نارنگ کریں گے یا کوئی نیا نقاد کرے گا؟ اس فیصلے کی بنیاد کیا ہو گی؟ جدیدیوں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ ناول میں مکالمے نہ ہوں یا بہت کم ہو جیسے اہان پاموک کے ناول۔ پھر تو ٹالسٹائی، ترگنیف، گوگول، وکٹر ہیوگو کو دوبارہ جنم لینا ہوگا۔ برٹرنڈرسل نے کہا اور میں بہت حد تک اس کی باتوں سے اتفاق رکھتا ہوں۔ کیا لندن ایک جگہ ہے؟ لیکن کرّہِ ارض تو گھوم رہا ہے۔ کیا کرّہِ ارض ایک جگہ ہے؟ لیکن وہ تو سورج کے گِرد گھوم رہا ہے۔ کیا سورج ایک جگہ ہے؟ لیکن سورج تو ستاروں سے اَضافی طؤر پر گردِش کر رہا ہے، زیادہ سے زیادہ ایک خاص وقت میں تُم جگہ کا ذکر کر سکتے ہو لیکن وقت معین کیا ہے جب تک تُم ایک خاص جگہ کے تعین کی بات نہ کرو۔ پس مکان یا جگہ کا تصؤر غائب ہو گیا ہے۔

اضافی کیا ہے، جو اوجھل ہے اور دکھایی نہیں دیتا۔ کبھی ہم اس کی طرف لپکتے ہیں تو فلسفوں کا آتش فشاں ملتا ہے۔ ناول نگار اس وقت خود سے محبت نہیں کرتا جب وہ لکھ رہا ہوتا ہے۔ وہ ہزار سورجوں کے نرغے میں ہوتا ہے۔ اور سورج تو ستاروں سے اضافی طور پر گردش میں ہے۔ اس لئے ناول نگار بیک وقت اندھیرے اور اجالے دونوں طرح کی دنیاؤں کے درمیان ہے۔ اور جب لفظ جنم لیتے ہیں وہ مطلق اپنی جگہ سے غائب ہو چکا ہوتا ہے۔

کون عظیم ہے اور کون نہیں، یہ موازنہ بہتر نہیں۔ سر وانٹس بڑا یا کرشن چندر؟

کرشن چندر اور محمد خالد اختر میں وہی رنگ تھا جو سر وانٹس کے ڈان کیخوٹے میں تھا۔ کرشن چند کے گدھا سیریز کے تینوں ناولوں کو ادب میں زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ ایک گدھے کی سر گزشت، گدھے کی واپسی، ایک گدھا نیفا میں۔ اس وقت کا پورا ہندوستان، سماج، سیاست، مذہب، کیا نہیں ہے اس ناول میں۔ وقت کے ساتھ سر وانٹس کی شہرت میں اضافہ ہوتا رہا ہم نے کرشن چندر کو معمولی سمجھ کر کھو دیا۔ یہ ہماری دانشورانہ سفاکی اور بھول تھی۔ چاکیواڑہ میں وصال، میں مجھے بار بار سر وانٹس کی یاد آئی۔ یہاں بھی ظرافت کا پختہ رنگ موجود ہے۔ چاکیواڑہ کے پس منظر میں لکھی گئی اس تخلیق میں میں نے غلامی سے قبل کے اس ہندوستان کو بھی دیکھا جو فرنگی گھوڑی پر سوار ہے اور جس کے کردار ایک دوسرے سے نبرد آزما موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

اگر کئی چاند تھے سر آسماں بڑا ناول ہے تو قاضی عبد الستار ان سے کہیں زیادہ بڑے ناول نگار۔ ناسٹلجیا اور تاریخی حوالوں سے ناول لکھنا آسان کام ہے۔ کوئی ضروری نہیں کہ آپ مجھ سے اتفاق کریں۔ ایک بڑا طبقہ مجھے آج بھی ریجیکٹ کرتا ہے کیونکہ میری جدیدیت کا سروکار صرف مجھ سے ہے۔ اور مجھے کوئی پریشانی نہیں۔ بھوپال میں ناول پر سیمینار تھا۔ سٹیج پر ترنم ریاض، صادقہ نواب اور میرے بھائی اقبال مسعود بھی تھے۔ علی احمد فاطمی نے اپنا مقالہ پڑھا اور بتایا کہ اردو زبان میں اچھے ناول نہیں لکھے گئے۔ میری باری آئی تو فاطمی اٹھ کر چلے گئے۔ میں نے اسی وقت دس ناولوں کا خاکہ تیار کیا۔ دس بڑے انگریزی ناول۔ دس بڑے اردو ناول۔ بغیر کسی تیاری کے، میں نے پہلا ناول سر وانٹس کا لیا اور مقابلے میں کرشن کے، گدھا سیریز کے ناولوں کو رکھا۔ مجھے یاد نہیں، میں نے کن ناولوں کا ذکر کیا تھا مگر فیصلہ یہ تھا کہ اردو زبان کسی صورت مغرب سے کم نہیں۔ ہم احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔ اور ہم نے پڑھنے کی روایت ختم کر دی ہے۔

میری فہرست پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ میری ذاتی فہرست ہے۔ اور پہلی بار میں نے خود کو بھی اس فہرست میں شامل کیا ہے۔ عام طور پر میں فکشن اور ناول کی بات کرتا ہوں تو اپنا نام نہیں لیتا۔ تاڑر صاحب اور عینی بی کے دو تین ناول اس فہرست کا حصّہ بن سکتے تھے مگر میں نے ایک پر قناعت کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ ناول پر مکالمہ ہو اور یہ وقت کا تقاضا بھی ہے۔

1۔ خس و خاشاک زمانے۔ مستنصر حسین تاڑر
2۔ گدھا سیریز کے تینوں ناول۔ کرشن چندر
3 اداس نسلیں۔ عبد اللہ حسین
4۔ بستی۔ انتظار حسین
5۔ سید محمد اشرف۔ آخری سواریاں
6۔ مشرّف عالم ذوقی۔ پروفیسر ایس کی عجیب داستان
7۔ مرزا اطہر بیگ۔ غلام باغ
8۔ خواجہ احمد عباس۔ انقلاب
9 کرشن چندر۔ ایک وائلن سمندر کے کنارے
10۔ صدیوں کی زنجیر۔ رضیہ فصیح احمد
11۔ جمیلہ ہاشمی۔ دشت سوس
12فہمیدہ ریاض۔ ’قلعہ فراموشی
13۔ راجہ گدھ بانو قدسیہ
14۔ موت کی کتاب۔ خالد جاوید
15۔ صالحہ صالحہ۔ صدیق عالم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments