علامہ اقبال نے ”ترانہ ہندی“ کیسے لکھا؟


لالہ ہر دیال سنگھ ( 1884 ء۔ 1939 ) ایک ہندوستانی قوم پرست نوجوان تھا۔ اس نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کیابعد میں آکسفورڈ چلا گیا، تعلیم ادھوری چھوڑ کر مختلف ممالک سے ہوتا ہوا امریکہ جا پہنچا، جہاں پر اس نے ایک انسٹیٹوٹ کی بنیاد رکھی، جس میں اس نے کمیونزم سے وابستہ کچھ تجربے کیے، اس کے چند متنازع نظریات کی پاداش میں امریکی حکومت نے اسے گرفتار کر لیا، مگر دوران ضمانت فرار ہوکر جرمنی چلا گیا، پھر کچھ عرصہ بعد لندن گیا جہاں سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد کیلیفورنیا یونیورسٹی میں سنسکرت کے پروفیسررہا۔

اس کی دو کتابیں ایک ”مذاہب اور انسانیت“ اور دوسری ”مزدوروں کا پیغمبر کارل مارکس“ مشہورہیں دونوں کتب لاجپت رائے اینڈ سنز لاہور کی طرف سے شائع ہوئی 1904 ء کا ذکر ہے جب لالہ ہردیال سنگھ گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے، یہ بڑے جوشیلے اور محب وطن نوجوان کے طور پر مقامی حلقوں میں پہچانے جاتے تھے ان دنوں علامہ اقبالؒ بھی گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد تھے۔ لالہ ہردیال کے علامہ اقبالؒ سے اچھے مراسم تھے اور علامہ سے ان کی اکثر ملاقات رہتی تھی۔

ان دنوں لاہور میں برطانوی باشندوں کی تفریحی کے لیے صرف ایک ہی ”وائی ایم سی اے“ کلب ہوتا تھا، کسی وجہ سے لالہ ہردیال سنگھ کا کلب کے سیکرٹری سے جھگڑا ہو گیا، دوسرے ہندوستانی نوجوان بھی کود پڑے بات بڑھ گئی اور تقریباً پورے لاہور میں پھیل گئی۔ ہندوستانی نوجوانوں نے کلب کا بائیکاٹ کر دیا، لالہ ہردیال نے راتوں رات اس کے متوا زی ”ینگ مین انڈین ایسوسی ایشن“ کلب کی بنیاد رکھی۔

لالہ ہر دیال سنگھ نے دوسرے روز شام چار بجے اس کلب کی افتتاحی تقریب کا اہتمام کر لیا، اس سے قبل وہ تقریباً دن کے دس بجے علامہ اقبالؒ کے پاس گئے اور انہیں پورے واقعے سے آگاہ کیا اس کے ساتھ ہی انہیں بطور مہمان خصوصی اجلاس میں آنے کی دعوت بھی دی جسے علامہ اقبال نے بخوشی قبول کر لیا۔ اس واقعہ کا اقبالؒ کے دل و دماغ پر بھی گہرا اثر ہوا انھوں نے فوراً قلم اٹھایا اور شام کو بحیثیتِ مہمان خصوصی کے تقریر کرنے کی بجائے خاص اس موقع کے لیے نظم ”ترانہ ہندی“ یعنی سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ”لکھی۔ شام کو جب تقریب کے آخر پر انھوں نے طویل تقریر کی بجائے اپنی یہ نظم ترنم سے پڑھی تو ایک سماں بندھ گیا۔ سب حیران رہ گئے کہ علامہ نے اس نظم کا ذکر اس سے پہلے کبھی نہیں کیا۔ احباب کے استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ نظم آج ہی بہت مختصر وقت میں لکھی گئی ہے۔

یہ نظم اپنے اندر موسیقیت، ہندوستانی تہذیب کے اعلیٰ نقوش، بھائی چارے اور سادگی جیسی خوبیوں سے مزین ہے۔ اسے غیر رسمی طور پر ہندوستانی قومی ترانے کا درجہ حاصل ہے۔ بے شمار خوبیوں کے باوجود اسے ہندوستان کے قومی ترانے کا درجہ نہیں دیا گیا بلکہ اس کی جگہ“ رابندر ناتھ ٹیگور ”کے گیت کو“ جن گڑ من ادھینائیک جیئے ہے ”کو قومی ترانے کا درجہ دے دیا گیا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ“ ٹیگور ”کو 1913 ءمیں ادب کا نوبل پرائز ملنے کے کی وجہ سے عالمگیر شہرت حاصل تھی۔ لیکن اس کے باوجود اقبالؒ کے ترانہ ہند کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا۔ 1950 ءمیں ستار نواز“ پنڈت روی شنکر ”نے اسے سر سے ہم آہنگ کر کے اور بھی امر کر دیا۔

اس ترانے کی ہر خاص وعام میں مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اپریل 1984 میں ایک سوویت راکٹ میں خلا میں جانے والے پہلے ہندوستانی خلاباز راکیش شرما جب خلا میں گئے تو یہ ہندوستان کے لیے خوشی کا ایک بہت بڑا موقع تھا، اس وقت کی ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ان سے خلا میں رابطہ کرکے پوچھا کہ بتاؤ خلا سے ہندوستان کیسا نظر آ رہا ہے۔ اس پر راکیش شرما نے فرط جذبات میں آکر جواب دیا:

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا

اب تک خلا میں سب سے پہلا پڑھا جانے والا شعر علامہ اقبالؒ کا ہی ہے۔

شہر اقبالؒ سیالکوٹ کے بارڈر پر پاکستان اور بھارت دونوں نے اپنی اپنی ورکنگ باونڈری پر عظیم شاعر کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اپنے اپنے جھنڈوں پر علامہ اقبال کی دو مختلف نظموں کا ایک ایک مصرع درج کیا ہوا ہے:

بھارت: (ترانہ ہندی سے ) ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا“
پاکستان: (ترانہ ملی سے )
”مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا“
بلا شبہ عجلت میں لکھی گئی اقبالؒ کی یہ نظم ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments