کامریڈ شہنشاہ بلبل بیگ


با ادب با ملاحظہ ہوشیار، شہنشاہ معظم بلبل بیگ تشریف لا رہے ہیں۔

زوردار دھماکہ اور پھر ایسا سناٹا جیسے حضرت اسرافیل علیہ السلام نے ابھی ابھی صور پھونکا ہو۔ مرسڈیز بینز کا دروازہ کھلا اندر سے ایک چھوٹے قد اور بڑے پیٹ والا شخص برآمد ہوا، تمام ملازمین سر جھکائے لائن میں کھڑے ہو گئے۔ بچے اپنی اپنی جماعتوں میں گہرا سانس بھر کے سیدھے کھڑے ہو گئے، ساری استانیوں نے سر سے دوپٹے اوڑھے، اسی دوران بلبل بیگ کے خصوصی پروٹوکول افسر نے موچھوں کو اوپر کی جانب گھما کر کھڑا کیا اور بلبل بیگ کے محل نما دفتر کا دروازہ ایک فٹ لمبی چابی سے کھولا، بلبل اپنے حواریوں کے ہمراہ اپنے تخت پر پھدک کے چڑھا، اور اپنے خاص حواری سے دریافت کیا، بیگم کہاں ہیں؟

ملازم۔ سر بیگم صاحبہ نے آج بچوں کے والدین کو دماغ درستی کے لیے بلایا ہوا ہے۔
بلبل۔ واہ زبردست۔ میری بیگم مالکوں والے سارے اطوار سیکھ گئی ہے۔

جی سر آپ کی کیا بات ہے۔ ساتھ ہی پیچھے کھڑے چمچہ گیروں نے ایک نعرہ لگایا جہاں پناہ کا اقبال بلند ہو۔

بلبل خوشی سے پھول گیا۔ تھوڑی دیر بعد بیگم صاحبہ چار عدد خوفزدہ پرنسپلز کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئیں۔ کمرے میں موجود سب افراد ہی سیدھے کھڑے ہو گئے سوائے بلبل کے۔

بلبل۔ کیسی ہیں زوجہ؟
بیگم۔ بہت ہی بری
بلبل۔ خیریت؟
بیگم۔ آپ ہی فیصلہ کریں سر ان تمام پرنسپلز کا میں تو تھک گئی۔ انہیں بالکل بھی عقل نہیں۔
بلبل۔ کیا کیا ہے آج ان سب نے؟

بیگم۔ میری ناک کٹا کے رکھ دی ہے۔ جب میں نے اردو بولنے پہ پابندی لگائی ہوئی ہے تو والدین سے اردو میں بات کیسے کی؟

بلبل۔ ہاں بھائی کیوں ایسا ہوا؟

تمام پرنسپلز لرزنے لگیں تو ایک نے تھوڑی ہمت کی اور کہا سر والدین کو انگریزی سمجھ نہیں آ رہی تھی اس لیے غلطی ہو گئی معاف کر دیں۔

بلبل۔ یہ ہمارا موضوع نہیں کہ جاہلوں کو کون سی زبان آتی ہے۔ ویسے بھی اس قصبے میں ایک ہمارا اسکول ہی انگریزی میڈیم اور سب سے مہنگا ہے۔ تم سب کو جب سمجھایا گیا ہے تو کرتے کیوں نہیں؟

سزا بھی اب خود ہی بتاؤ؟

بیگم۔ سر آپ ان سب کو نوکری سے فارغ کریں اسی وقت، مجھے اتنے بیکار ملازم نہیں رکھنے۔

بلبل۔ ایک منٹ بیگم، ہاں بھائی کیا سزا دی جائے؟ جسے جانا ہو جا سکتا ہے۔ ”چار میں سے ایک پرنسپل نے فرش پہ تھوکا اور کمرے سے نکلنے لگی۔ جاتے ہوئے دھمکی دی کہ میں تمہارے سامنے تمہارے ادارے سے بڑا اور اچھا ادارہ بنا کر دکھاؤں گی بلبل کے بچے، اس مہینے کی تنخواہ بھی اپنے پاس ہی رکھو، کچھ نہیں چاہیے“

بلبل اور بیگم کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی ایسے ردعمل کا تصور بھی نہیں تھا۔ اندر سے وہ دونوں ڈر گئے لیکن اظہار نہیں کیا۔ باقی تینوں کو وارننگ دے کے کمرے سے باہر نکل جانے کا فیصلہ ہوا۔

گھر کے راستے میں میاں صاحب نے بیگم سے پوچھا جلسہ کل صبح سویرے ہے؟

بیگم۔ جی سر سویرے ہے۔

جب میا ں بیوی شام میں گھر پہنچے تو بلبل بیگ نے انتہائی تشویشناک چہرہ بنا کر اپنی بیوی سے کہا کہیں وہ سچ میں ہم سے مقابلے پہ تو نہیں آ جائے گی نا؟ بیگم نے بھی دکھ بھری آواز میں کہا اللّٰہ ہی جانے۔ بیگم کے اس قسم کے مایوس جواب کو سنتے ہی بلبل غصے سے پاگل ہو گیا، اور جما کر بیوی کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کیا، بیوی کا منہ گھوم گیا اور وہ لڑکھڑا کر زمین پر گر گئی، اس کے بھی ذہن میں اس قسم کے ردعمل کا خیال نہ تھا۔

قابو کرنے کے باوجود بیگم کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ لیکن ایک لفظ نا کہا خاموشی سے گال سہلاتی ہوئی بستر پہ لیٹ گئی۔ بلبل نے مہنگی شراب کے کئی جام چڑھا کے غم غلط کیا اور رات دیر تک جاگنے کے بعد صبح کے قریب کچھ دیر سو گیا۔

اگلی صبح

بیگم جان صبح صبح سادہ لباس میں تیار، بلبل بھی کھدر کے شلوار قمیض میں تیار، ایک حد تک اپنی مرسڈیز بینز میں ڈرائیور کے ساتھ گئے، جلسے کی جگہ سے تقریباً دو کلومیٹر دور پروٹوکول افسر اپنی مہران گاڑی میں موجود تھا، دونوں اس کی گاڑی میں بیٹھ کے پنڈال تک گئے، آس پاس کے کئی گاؤں کے غریب عوام سے پنڈال بھرا ہوا تھا۔ سب نے زور دار تالیوں میں اپنے ”کامریڈ“ کا استقبال کیا۔

بلبل اور بیگم بلبل تالیوں کی گونج میں اسٹیج تک پہنچنے، بیگم سامنے موجود پلاسٹک کی کرسی پہ مسکراتے ہوئے بیٹھ گئیں اور میاں نے تقریر کا آغاز کچھ یوں کیا!

پیارے بھائیو اور بہنو اللّٰہ تعالیٰ نے ہم سب کو برابر پیدا کیا، سب کو ہاتھ، پاؤں، کان، ناک، زبان اور دیگر چیزوں سے نوازا، یہ کلاس سسٹم تو انسانوں نے بنایا۔ میں حضرت کارل مارکس کا معتقد ہوں، ہم اگر ان کی بتائی گئی چند باتوں پہ عمل کر لیں تو میں آپ کا بھائی آپ کو یقین دلاتا ہوں پاکستان کے حالات بدل جائیں۔ میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا اگر آپ اپنے علاقے میں اور اپنے ملک میں برابری کا نظام چاہتے ہیں تو ہمیں منتخب کریں۔ آپ سب کا شکریہ۔

بلبل بیگ اس دوران گرمی، دھوپ، دھول اور شور سے اس قدر گھبرا چکا تھا کہ اسٹیج سے سیدھا گاڑی کی طرف دوڑ لگائی۔

گاڑی میں بیٹھتے ہی بلبل نے بیگم سے پوچھا، کیوں کیسا دیا؟

بیگم۔ بہترین سر۔

ڈرائیور۔ سر دفتر یا گھر؟

بلبل بیگ۔ گدھے کے بچے تمہارے خیال سے اس حالت میں ہم دفتر جانے کا سوچ بھی سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments