برصغیر کے پہلے مسلمان کی فکری صلاحیت اور بصیرت


محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ اور راجہ داہر کی شکست کے ساتھ ہی ہماری غلامی کا آغاز ہوچکا تھا۔ یہ جسمانی غلامی کے علاوہ فکری اور شعوری غلامی بھی تھی جس نے ہمیں ہندوستان کی ثقافت سے منہ موڑ کرہزاروں میل دور عربوں کی ثقافت میں جکڑنے کے لیے ذہنی طور پر قائل کیا۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے اباواجداد میں سے اس وقت کے پہلے شخص نے کس بنیاد پر مذہب کی تبدیلی کو قبول کیا جس کے فیصلے کی روشنی میں ہماری تمام بعد میں اسلامی نسل برصغیرپاک و ہند میں پروان چڑھی۔

ظاہری سی بات ہے برصغیر کے زمانہ اوائل میں بیشتر لوگ یا تو ہندو تھے یا پھر بدھ مت سے تعلق رکھتے تھے۔ آئیے اس پہلے جرات مند شخص کی فکری صلاحیت اور بصیرت کا جائزہ لیتے ہیں جو مسلمان ہوا کہ اس کے پاس کیا ممکنہ وجوہات ہوسکتی تھیں جس نے اس کو اپنا پیدائشی مذہب چھوڑ کر نیا مذہب ”اسلام“ اپنے لیے اختیار کرنے کے راستے پرڈالا۔ ہم اپنی بحث کو مندرجہ ذیل مفروضوں کی بنیاد پر آگے بڑھاتے ہیں۔

اول۔ وہ شخص ہندوؤں یا بدھ مت کی ذات پات اور نفرت کا شکار تھا اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ ہندوؤں کی نچلی ترین ذات سے تعلق رکھتا تھا، زندگی میں شاید ہر طرح کی محرومیوں کا شکار تھا جونہی اس کو اسلام کا پیغام ملا تو اس نے فوری طور پر اپنے پیدائشی مذہب سے بغاوت کی اور اسلام کو قبول کرلیا۔

دوم۔ دوسری ممکنہ وجہ اس شخص کے اوپر عرب حملہ آوروں کا اتنا زیادہ دباؤ تھا کہ اپنی جان و مال بچانے کے واسطہ اس نے مذہب کی تبدیلی کا سہارا لیا۔ اگر ایسا نہ کرتا تو مارا جاتا یا کم ازکم غلام بنالیا جاتا یا دوسرے درجہ کا شہری بن کرساری زندگی جزیہ دیتا رہتا۔

سوم۔ تیسری ممکنہ وجہ یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ وہ شخص اپنے دور کے لحاظ سے پڑھا لکھا اور باشعور تھا اور اپنے زندگی کے فیصلے کرنے کے لیے اتنا آزاد اور خود مختار تھا جتنا کہ شاید پاکستان میں بسنے والا آج کا نوجوان بھی نہیں ہے لہذا اس نے اسلام کا خوب مطالعہ کیا، باقی مذاہب کے ساتھ موازنہ کرنے کے بعد ریسرچ کی اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ دیگر مذاہب کے مقابلہ میں اسلام زیادہ معتدل اور ترقی پسند مذہب ہے لہذا اس کو قبول کرکے اپنی نسل کو پروان چڑھایا جائے۔

چہارم۔ چوتھی اور آخری صورت یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ عرب حملہ آورں نے جہاں برصغیر کے وسائل لوٹے وہاں ساتھ ساتھ آپنے مذہب کی تبلیغ کا کام بھی احسن طریقہ سے سرانجام دیا جس سے وہ پہلا مسلمان شخص ان کے طرز حکومت اور دعوت تبلیغ سے متاثر ہوا اور یوں اس نے اپنے ماں باپ کا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا۔

معزز قارئین کرام! اوپر دیے ہوئے کسی ایک یا زیادہ مفروضوں کی بنیاد پر اس پہلے شخص نے اسلام قبول کیا جس کی آج ہم نسل ہیں۔ لیکن آخر میں اہم ترین سوال آپ کے لیے چھوڑ کر جانا چاہتا ہوں۔

یہ فیصلہ تو اس پہلے شخص کا تھا ہم تو اس کے فیصلہ کا تسلسل اور تواتر ہیں۔ لہذا اسلام کو شعوری اور تحقیقی بنیادوں پر قبول کرنے میں ہمارا کیا کمال اور کردار ہے؟ ساتھ ہی ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کیا اس شخص کی عقلی استعداد، تعلیمی قابلیت یا پھر فیصلہ کرنے کی صلاحیت آج کی پڑھی لکھی نسل سے زیادہ تھی جس کو نسل در نسل قبول کرلیا گیا؟ اگر آپ کا جواب ”ہاں“ میں ہے تو پھر آپ اچھے اور سچے مسلمان ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments