قادیانیوں کو قومی کمیشن برائے اقلیت میں شامل کرنے کی مخالفت کیوں؟



28 اپریل 2020 کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ قومی کمیشن برائے اقلیت میں احمدیوں کا بھی ایک نمایندہ شامل ہو گا اور یہ ہدایات وفاقی حکومت کو جاری کر دیں گیں۔ ایک اخباری خبرکے مطابق اس کمیشن کی تشکیل اس طرح سے تھی کہ اس کا سربراہ ایک ہندو رکن کو بنانے کا فیصلہ ہوا۔ کمیشن کے 16 اراکین ہوں گے جس میں سے 6 اراکین سرکاری اور 12 غیر سرکاری ہوں گے۔ جس میں ہندو، سکھ، مسیحی، پارسیاور ایک نمایندہ قادیانیوں کا بھی شامل ہو گا۔

1974 کے بعد سے جب پیپلزپارٹی کی حکومت نے آیین میں ترمیم کر کے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا تھا یہ پہلا موقع تھا کہ احمدی فرقے کے کسی فرد کو بحیثیت رکن قومی اقلیت کمیشن میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور وزارت مذہبی کو یہ ہدایت جاری کر دی گیں تھیں کہ وہ قومی کمیشن برائے اقلیت کو دوبارہ سے ترتیب دے۔ اس میٹنگ کے دوران کابینہ کے کئی وزرا نے وزیراعظم عمران خان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ قومی کمیشن برائے اقلیت کے غیر مسلم کوٹے میں احمدی فرقے کے ایک نمایندے کو بھی شامل کیا جائے۔

ابھی اس اقلیتی کمیشن کی تشکیل نو ہو رہی تھی کہ ہمیشہ کی طرح آمرانہ طاقتوں کا ساتھ دینے والی اور پرویز مشرف کو وردی میں دس مرتبہ منتخب کروانے والی سیاسی جماعت نے اس نسبتاً بہتر کام کو سبوتاژ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ فوراً ہی ق لیگ کے صدرچوہدری شجاعت حسین نے کابینہ کے اس فیصلے پر اپنا ایک بیان داغ دیا اور اپنی جماعت کے تحفظات کا بھی اظہار کر دیا۔

چوہدری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ قادیانیوں کے ایک نمائندے کو اس اقلیتی کمیشن میں شامل کر کے پھر سے یہ پنڈورا باکس کیوں کھولا جا رہا ہے۔ بقول ان کے نہ تو احمدی اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تصور کرتے ہیں اورنہ ہی پاکستان کے آیین کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان حالات میں قادیانیوں کی حمایت پاکستان کے ساتھ ایک مذاق ہے جس کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

چوہدری شجاعت حسین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے علما کے ساتھ ایک وسیع تر بحث و مباحثہ ہونا چاہیے۔ صدرپی ایم ایل ق کا مزید کہنا تھا کہ اتنے اہم فیصلے پر حکومت نے اپنے قریبی اتحادیوں سے مشورہ کرنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ انہوں نے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وزیراعظم اور کابینہ کے اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لیا جائے ورنہ ہماری جماعت اپنے آپ کو ان تجاویز سے علیحدہ سمجھے گی جو آئین سے متصادم ہونے کا باعث بنیں۔

ق لیگ کا یہ دھمکی آمیز بیان جب میڈیا تک پہنچا تو وزارت مذہبی امور کو بھی تشویش لاحق ہوئی اور یقیناً اس بیان میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے لئے بھی ایک پیغام تھا۔ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور ان کی وزارت نے یا تو خود اپنے طور پر یا پھر کسی کی ہدایات کے تحت یہ فیصلہ کیا کہ ایک نئی سمری وفاقی کابینہ کو ارسال کی جائے جس میں احمدی فرقے کے کسی رکن کو قومی اقلیت کمیشن میں شامل کرنے کے فیصلے پرنظر ثانی کی جائے۔ تا حال یہ ترمیم شدہ سمری وزیراعظم تک پہنچی ہے یا نہیں اس کی کوئی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے حلیفوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے گی۔ اور قومی اقلیت کمیشن میں احمدی فرقے کے کسی فرد کواس کمیشن میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

ملک میں سیاسی جماعتوں نے جتنی بھی حکومتیں بنائی ہیں، عموماً کوئی بھی سیاسی پارٹی مکمل اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے نتیجتنا حکمرانی کے شوق میں پارلیمنٹ میں چند سیٹیں حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں یا آزاد امیدواروں سے جوڑ توڑ کر کے حکومت بنا لی جاتی ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہی قابل فروخت عناصر اپنے ناجائز مطالبات منوانے کے لئے اپنی بڑی حلیف پارٹی کو بلیک میل کرنے لگتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ جب 1974 میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کے دباؤ کے تحت آئین میں ترمیم کر کے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا اور وہ ایک اقلیت میں تبدیل ہو گئے اور ابھی تک ایک اقلیت کہلاتے ہیں۔ ان کی تمام دستاویزات پر ان کی مذہبی شناخت لکھی جاتی ہے۔ ان کے لئے اپنے فرقے اور مذہبی لٹریچر کی اشاعت اور ترویج پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان کی مساجد کو عبادت گاہ کا درجہ دے دیا گیا ہے تو ان میں اور دیگر مذاہب کے مانبے والی اقلیتوں میں کیا فرق ہے۔

جب قومی کمیشن برائے اقلیت میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو مناسب نمائندگی دی جا سکتی ہے تو پھر احمدیہ فرقے کے نمائندے کو اس میں شامل کرنے میں کیا قباحت ہے۔ ان کے حقوق کو بھی وہی برابری ملنی چاہیے جو دوسرے مذاہب کی اقلیت کو ملتی ہے۔

یوں تو تحریک احمدیہ اپنے قیام یعنی انیسویں صدی کے اختتام سے لے کر آج تک متنازع رہی ہے لیکن برطانوی دور حکومت میں اس فرقے کے خلاف اتنی نفرت انگریزی اور شدت پسندی نہیں تھی۔ اس دور میں تحریک کے قابل لوگوں کو بڑا عروج حاصل ہوا۔ سرظفراللہ وائسرائے ہند لارڈ لن لتھگو کی کونسل کے ممبر تھے، تقسیم کے بعد قائد اعظم نے انہیں پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر عبدالسلام ایک قابل سائنس دان تھے اور ملک کے پہلے نوبل انعام یافتہ لیکن ملک اور قوم نے اس قابل انسان کی قدر محض مذہب اور فرقے کی بنیاد پر نہیں کی گئی۔

تقسیم کے بعد 1953 میں لاہور میں احمدیوں کے خلاف زبردست فسادات ہوئے اور پورا پنجاب ان فسادات کی لپیٹ میں آ گیا۔ ایک بیرونی رپورٹ کے مطابق ان فسادات میں 20 سے 200 افراد تک ہلاک ہوئے۔ فسادات کو روکنے کے لئے فوج کو طلب کر لیا گیا جنرل آعظم خان کی قیادت میں لاہور میں تین ماہ کے لئے مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ یہ نوزائیدہ مملکت کا پہلا مارشل لا تھا۔

اس کے بعد آنے والی فوجی آمریت کے دور میں حالات نسبتاً بہتر رہے۔ لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھٹو کے پہلے سیاسی دور حکومت میں مذہبی شدت پسند اور دیگر سیاسی جماعتوں نے پھر سر اٹھایا اور بھٹو اور پیپلزپارٹی کو مجبور کر کے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے لئے 1974 میں پارلیمنٹ سے بل منظور کروا لیا

یونائٹڈ اسٹیٹس کمیشن برائے مذہبی آزادی ایک آزاد اور خود مختار فیڈرل گورنمنٹ ادارہ ہے جس کو انٹرنیشنل مذہبی آزادی 1988 کے ایک ایکٹ کے تحت 28 اکتوبر 1998 کو قائم کیا گیا تھا۔ اس کمیشن کو کانگریس اور سینیٹ دونوں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ دنیامیں اپنی نوعیت کا وہ واحد ادارہ ہے جو عالمی سطح پر مذہبی آزادیوں اور عقائد کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کو دنیا کے سامنے لاتاہے اور مذہبی آزادیوں کا دفاع کرتا ہے۔

مذہی آزادی کے اس کمیشن کی ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ وہ لوگوں کے عقائد کے خلاف ہونے والے زیادتیوں کی نگرانی کرے، اور ان کا تجزیہ کر کے سالانہ رپورٹ تیار کرے۔ اس رپورٹ کی روشنی میں اپنی سفارشات تیار کر کے فارن آفس، امریکی صدر، سیکرٹری اسٹیٹ، اور کانگریس کو بھیجے۔ اس مذہبی کمیشن نے اپریل 2020 میں اپنی سالانہ رپورٹ تیار کی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کمیشن نے مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے بارے میں کیا رپورٹ تیار کی ہے۔ یہ رپورٹ کافی طویل ہے لیکن اس کا کچھ حصہ مضمون میں دیا جا رہا ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ 14 ممالک ایسے ہیں جن کے بارے میں کمیشن کو کافی تشویش ہے۔ کمیشن نے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو اپنی سفارشات بھیجیں ہیں کہ ان ممالک کو خصوصی پریشانی کا باعث قرار دیا جائے کیونکہ ان ممالک کی حکومتیں مسلسل جاری رہنے والی مذہبی آزادیوں پر قدغن لگانے میں خود ملوث ہیں۔ یا پھر ایسے عناصر سے صرف نظر کر رہی ہیں جو مذہبی آزادیوں اور ذاتی عقائد کے منافی کام کر رہے ہیں اور اقلیتوں پر ظلم و تشدد میں ملوث ہیں۔ یہ 9 ممالک ہیں جن میں برما، چین، ارٹیریا، ایران، شمالی کوریا، پاکستان، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان شامل ہیں، ۔ بھارت کو بھی ایک ایسی ہی دوسری فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

یو ایس کمیشن برائے مذہبی آزادی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مذہبی آزادی کو سختی سے محدود کر دیا گیا ہے اور ملک میں عقیدے کی آزادی کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ ریاست ہندو، مسیحی اور سکھ اقلیتی شہریوں کو زبردستی مسلمان کرنے سے روکنے میں ناکام رہی ہے۔ جس نے مذہبی آزادی کو اور محدود کر دیا ہے۔ کمیشن نے امریکی حکومت سے سفارش کی ہے کہ پاکستان کو زیادہ تشویش کن کیٹیگری میں ڈال دیا جائے۔ مذہبی آزادی کے کمیشن کو اس بات کا علم ہے کہ توہیں رسالت کے الزام میں اس وقت 80 افراد جیل میں قید ہیں۔ جن میں سے نصف کو سزاے موت کا سامنا ہے۔

رپورٹ میں احمدی مسلمانوں کی حالت زار پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ احمدیوں کو اپنے عقیدے کی وجہ سے زبردستی مجرم بنایا جا رہا ہے۔ ایک طرف وہ حکام کے ظلم و ستم کا شکار ہیں دوسری طرف سول سوسائٹی اور ہجوم انہیں ہراساں کر رہے ہیں۔ ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جو بہت کم منظر عام پر آتی ہے۔ حکومت اور انتظامیہ دونوں کو اقلیتوں اور خصوصاً احمدیوں پر اس نفرت انگیز اور ناروا سلوک کا بخوبی علم ہے لیکن اس کے باوجود ان نا انصافیوں کو روکنے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا ہے۔ مذہبی طاقتیں، اور مذہبی سیاسی جماعتیں اقلیتوں کے مسئلے پر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جاتی ہیں اور حکومتوں کو گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کر دیتی ہیں۔

دیکھتے ہیں قادیانی فرقے کے کسی رکن کی قومی اقلیت کمیشن میں شمولیت پر حکومت کا کیا رد عمل سامنے آتا ہے۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ حکومت مذہبی طاقتوں اور اپنے ہی اتحادیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments