علامہ ضمیر اختر نقوی امریکہ میں


علامہ صاحب قالین پر نیم دراز تھے۔ مجھے دیکھ کر انھوں نے اٹھنے کی کوشش کی۔ میں نے جلدی سے آگے بڑھا ہوا ہاتھ تھام کر درخواست کی کہ مت اٹھیں۔ میں وہیں ان کے قریب بیٹھ گیا۔
”کیا رات کو مجلس پڑھتے ہی شکاگو چلے جائیں گے؟ “ میں نے پوچھا۔
”نہیں، صبح کی پرواز ہے۔ “ علامہ صاحب نے بتایا۔
”پھر پاکستان؟ “
”ڈیلاوئیر۔ اس کے بعد نیوجرسی۔ واپسی ایک ہفتے بعد ہے۔ “ انھوں نے پروگرام بتایا۔

پھر ارشد جعفری سے کہا، ”اچھا تو آپ چائے نہیں پلائیں گے؟ “
”ابھی پیش کرتا ہوں۔ “ ارشد بھائی نے یہ کہہ کرباورچی خانے کا رخ کیا۔

”صبح ہم واشنگٹن گئے تھے۔ لائبریری آف کانگریس دیکھنے۔ “ علامہ صاحب نے بتایا۔
میں اچھل پڑا۔

”مجھے فون کیوں نہیں کیا؟ میرا دفتر وہیں تو ہے۔ اسٹوڈیو میں آپ کا انٹرویو ریکارڈ کرلیتے۔ “
انھوں نے بتایا کہ 1990 میں وہ واشنگٹن آئے تو وائس آف امریکا نے ان کا انٹرویو کیا تھا۔

اس وقت اردو سروس کا ٹی وی پروگرام نہیں تھا۔ ظاہر ہے کہ انٹرویو ریڈیو پر نشر ہوا ہوگا۔ چائے آئی۔ ساتھ میں کاجو والے بسکٹ تھے۔ چائے پی کر علامہ صاحب نے اسٹیل کی ڈبیا کھولی جس میں لگے ہوئے پان جمع تھے۔

”پان ختم ہورہے ہیں تو اور منگواؤں؟ “ ارشد بھائی نے پوچھا۔
”نہیں، زلفی پان کے پانچ پتے دے گئے تھے۔ کافی ہیں۔ “ انھوں نے پان منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔

پھر مجھ سے مخاطب ہوئے، ”اگلی کتاب کس موضوع پر ہوگی؟ “
میں نے جھجکتے ہوئے کہا کہ انچولی پر کچھ مضامین ہوگئے ہیں۔ میں کتاب کے بارے میں سوچ رہا تھا لیکن انچولی والوں کا ردعمل اچھا نہیں۔
علامہ صاحب نے کہا کہ ردعمل کو چھوڑیں۔ آپ کام کریں۔ کچھ مدد میں کردوں گا۔ عون عباس جعفری بھی انچولی پر کتاب لکھ رہے تھے لیکن پتا نہیں کیا ہوا۔

اس کے بعد انھوں نے انچولی کے ایک صاحب کا مزے کا قصہ سنایا جن کا نام تو کچھ اور ہے لیکن محلے بھر میں ابا کے نام سے مشہور ہوگئے ہیں۔ کوئی گھر جاکر انھیں آواز دیتا ہے تو بیگم جواب دیتی ہیں، ابا باہر گئے ہوئے ہیں۔

ہم سب خوب ہنسے۔ پھر میں نے سوال کیا کہ آپ کس کتاب پر کام کررہے ہیں؟
علامہ صاحب نے فرمایا کہ مرثیے کی تاریخ مرتب کی ہے۔ درجنوں زبانوں کے مرثیے جمع کرلیے ہیں اور ہزاروں صفحات پر مشتمل چودہ پندرہ جلدوں کی کتاب تیار ہوگئی ہے۔

یہ میری دلچسپی کا موضوع تھا۔ میں نے ریکارڈنگ شروع کردی۔ علامہ صاحب تفصیل سے بتانے لگے کہ کون سی جلد میں کون سی زبان کے مرثیے ہیں اور کون کون سے شعرا کا کلام ان کے پاس ہے۔ کون سا مرثیہ نگار کس کا بیٹا ہے اور کس کا شاگرد ہے۔

یہ گفتگو اس قدر تفصیلی اور دلچسپ تھی کہ کیا کسی لٹریچر فیسٹول کا سیشن ہوگا۔ پی ایچ ڈی کے مقالے جیسا وقیع کام اور تحقیق کرنے والے کی اپنی زبان سے تعارف۔ علامہ صاحب لکھنؤ کے ہیں اس لیے نئی نسل کے لیے متروک ہوچکے الفاظ درست تلفظ کے ساتھ بولتے ہیں۔ پھر ان کا لہجہ اور آواز۔ میں جوش میں سوالات بھی کرتا گیا۔

میزبان نے توجہ دلائی کہ علامہ صاحب کو کہیں کھانے پر جانا ہے اور لوگ وہاں انتظار کررہے ہیں۔ میں نے اجازت چاہی لیکن علامہ صاحب نے ہاتھ جھٹک دیا۔
”ہمیں کھانے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہم نہیں جارہے۔ یہاں علمی باتیں ہورہی ہیں۔ “
میں نے ڈرتے ڈرتے، میزبان سے نظر چراتے ہوئے دو سوال اور کیے۔

ایک واقعہ میں نے اپنی کتاب سفر عشق میں لکھا ہے کہ لکھنؤ کے ایک نواب کی والدہ کربلا گئیں تو وہاں نہر نہیں تھی۔ بتایا گیا کہ سانحہ کربلا کو صدیاں گزریں۔ نہر خشک ہوچکی۔ انھوں نے عراقی مزدوروں کو کام پر لگوا کر کربلا میں نہر کھدوائی۔ جو مٹی نکلی، وہ چھکڑوں پر لدواکر لکھنؤ لے گئیں۔ وہاں اس سے امام باڑہ بنوایا۔

میں نے عرض کیا کہ وہ بی بی کون تھیں؟ علامہ صاحب نے بتایا کہ وہ آصف الدولہ کی والدہ بہو بیگم تھیں۔

وہ مٹی لکھنؤ لے جاکر انھوں نے محل کی چھت پر بچھوا دی تھی اور کہا تھا کہ اس سے خاندان کے بزرگوں کی قبریں بنیں گی۔ بہت سی مٹی بچ گئی۔ اس سے ایک مسجد بنوائی گئی جس کا نام مسجد خاک شفا ہے۔ ایک بات جو کربلا جاکر بھی معلوم نہ ہوئی، وہ انھوں نے بتائی کہ اس نہر کا نام نہر آصفیہ ہے۔

دوسری بات میں نے یاد کی جو علامہ صاحب نے برسوں پہلے ایک مجلس میں پڑھی تھی۔ سچ یہ ہے کہ میں اگر خدا کا انکار نہیں کرتا تو اس کی وجہ علامہ صاحب کا وہ بیان تھا۔ اس نے مجھے ہلاکر رکھ دیا تھا۔

علامہ صاحب نے حضرت علی کے حوالے سے کہا تھا کہ ماضی، حال، مستقبل انسانوں کے لیے ہوتا ہے۔ خدا کے لیے کوئی ماضی نہیں، کوئی مستقبل نہیں۔ ازل سے ابد تک کا سارا منظرنامہ ہر وقت اس کے سامنے ہے۔

اس کے بعد علامہ صاحب نے نتیجہ پیش کیا کہ کربلا کا سانحہ رسول پاک کے لیے مستقبل کا واقعہ تھا۔ ہمارے لیے ماضی کا واقعہ ہے۔ لیکن خدا کے سامنے ہر وقت سانحہ کربلا تازہ ہے۔

یہ سن کر مجھے ایک جھٹکا لگا تھا۔ حضرت علی کے دور میں ٹی وی نہیں تھا۔ علامہ صاحب ویڈیو ایڈیٹنگ نہیں جانتے۔ اس کے باوجود انھوں نے ایک ایسی بات کی، جو ویڈیو ایڈیٹنگ کرنے والے سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

ہم ٹائم لائن پر ایک ویڈیو رکھتے ہیں۔ اس کا آغاز، انجام، درمیان سب ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ ہم کہیں سے بھی پلے کریں، پوری ویڈیو ہمارے نظر میں ہوتی ہے۔ گویا ہم خدا کی طرح ازل سے ابد تک پورا منظر دیکھ سکتے ہیں۔

میں نے علامہ صاحب سے کہا کہ مجھے نہج البلاغہ میں حضرت علی کے وہ جملے نہیں ملے۔ انھوں نے تصدیق کی کہ وہ حضرت علی کا قول ہے اور وعدہ کیا کہ مجھے ریفرنس فراہم کریں گے۔

میرا جی تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن میں اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ علامہ صاحب کو دیر ہورہی تھی۔ ارشد بھائی نے مجھ سے بھی کھانے پر ساتھ چلنے کو کہا لیکن میں نے معذرت کی اور کہا کہ رات کو مجلس میں آؤں گا۔

چلتے چلتے ایک تصویر ساتھ بنوانے کی فرمائش کی۔ علامہ صاحب فوٹو کھنچوا چکے تو انھیں ایک تصویر دکھائی جس میں وہ مجھے گلے لگائے کھڑے ہیں۔ وہ حیران ہوئے۔ ”یہ فوٹو ہم نے کب کھنچوایا؟ کیا کراچی میں؟ “

میں نے ہنس کر کہا کہ یہ دشمنوں کی شرارت ہے۔ ہم دونوں کی تصویریں جوڑ کر اوپر نیپالی لونڈا اور لڈن جعفری لکھ دیا ہے۔ علامہ صاحب مسکرا دیے۔ ان کی حس مزاح اچھی ہے۔ جس میں حس مزاح نہ ہو، وہ عالم ہی نہیں ہوتا۔

میں نے دریافت کیا کہ فیس بک پر آپ کی ایک تصویر گردش کرتی رہی ہے جس میں آپ لیموزین سے اتر رہے ہیں۔ وہ اصلی ہے یا نقلی؟ انھوں نے تصدیق کی کہ عید غدیر پر کیلی فورنیا گئے تو وہاں وہ فوٹو کھینچا گیا۔ دشمنوں کو خوب آگ لگی۔
اس بار علامہ صاحب کے چاہنے والوں نے ہیلی کاپٹر کا بندوبست کیا ہے۔ گویا جلنے والوں کو جلا جلا کر خاک کرنے کا ارادہ ہے۔

11 اکتوبر 2019

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi