بھارتی فلمی صنعت کی کامیاب ترین خاتون موسیقار: اوشا کھنہ


مجھے اتنا تو پتا ہی تھا کہ اوشا کھنہ بھارت کی ایک مشہور خاتون موسیقار ہیں۔ ان کے بعض گیت مجھے زبانی یاد بھی تھے لیکن ان کے بارے میں مزید جاننے کا شوق مجھے پلے بیک سنگر ایس بی جون صاحب نے دلایا۔ فلم ’‘ سویرا ”( 1959 ) میں ماسٹر منظور حسین شاہ عالمی والے کی موسیقی میں فیاضؔ ہاشمی کا گیت“ تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے، یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے ’آج تک سدا بہار ہے۔ اس کو جون بھائی نے ریکارڈ کرایا تھا۔ جون بھائی ماشاء اللہ حیات ہیں اور اس کمتر سے بہت شفقت فرماتے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ اوشا کھنہ کا ذکر کیا تو میں نے بے اختیار ان سے تفصیل پوچھی۔ میں موصوفہ کے بارے میں بہت شوق سے تحقیق کرتا تھا، کیوں نہ کرتا پاکستان کی اولین خاتون موسیقار شمیم نازلی کی طرح یہ بھارت کی پہلی کامیاب ترین خاتون موسیقار ہیں۔ میں نے جون بھائی سے اوشا کھنہ کے بارے میں اور جاننے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ان کے فیملی فرینڈ ہیں۔ اس سے اوشا کھنہ کی کہانی بہت دل چسپ ہو گئی۔

فلم ”سویرا“ جمعہ 17 جولائی 1959 کو نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ اس فلم کا گیت سرحد پار بھی مشہور ہو چکا تھا۔ جون بھائی 1960 میں بھارت گئے تو وہاں موسیقار اوشا کھنہ سے کسی نے ملاقات کروائی۔ ملتے ہی اوشا نے پوچھا :

” اصلی ایس بی جون ہو یا جعلی؟“ ۔
اس پر جون بھائی بڑے حیران ہوئے تب اوشا نے کہا :
” پہلے اپنا گیت گا کر سنائیے“ ۔ استھائی سن کر کہنے لگیں :
” ہاں یقین آ گیا“ ۔
” کیا معاملہ ہے؟“ ۔ جون بھائی نے پوچھا۔

” ایک صاحب پاکستان کے فلمی گلوکار سلیم رضا بن کر بمبئی میں گھومتے رہتے ہیں۔ یہ جعلی سلیم رضا بن کر لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اسی لئے میں نے تسلی چاہی۔۔۔“ اوشا نے کہا۔ جون بھائی نے بتایا کہ اس واقعہ کے بعد وہ اوشا کے فیملی فرینڈ ہو گئے۔

اوشا کھنہ گوالیار میں 7 اکتوبر 1941 کو پیدا ہوئیں۔ گوالیار کی مٹی موسیقی کے معاملے میں نہایت ہی زرخیز واقع ہوئی ہے۔ دور کیوں جائیں! میاں تان سین کا نام ہی کافی ہے! یہاں پیدا ہوئے اور یہیں ان کی قبر بھی ہے۔ اوشا کے شاعر اورگلوکار والد، منوہر کھنہ ریاست گوالیار کے واٹر اینڈ ورکس ڈپارٹمنٹ میں ملازم تھے۔ کسی کام سے 1946 میں بمبئی آئے تو اداکارہ نرگس کی والدہ جدن بائی سے ملاقات ہوئی جو بھارتی فلمی صنعت کی دوسری خاتون موسیقار ہیں۔ یہ 1930 کی دہائی میں فعال تھیں۔ پہلی خاتون موسیقار خاتون ’سرسوتی‘ ہیں جن کا کام 1930 سے 1950 تک گاہے بگاہے منظر پر آتا رہا۔ جدن بائی کی فلم کمپنی ’نرگس آرٹ پروڈکشن‘ نے منوہر صاحب کو گیت نگاری کی پیشکش کی۔ فلم ”رومیو اینڈ جولیٹ ’‘ کے لئے انہوں نے 3 غزلیں ’جاوید انور‘ کے قلمی نام سے لکھیں جس کا انہیں 800 روپے معاوضہ ملا۔ اس وقت ریاست سے ان کو 250 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ یوں شاعری اورموسیقی میں ننھی اوشا نے ہوش سنبھالا۔

شروع سے ہی اوشا کا لگاؤ موسیقی ترتیب دینے کی طرف تھا۔ والد سے ہارمونیم پر چند بنیادی باتیں جیسے سپتک اور سرگم وغیرہ سمجھ کر خوب مشق کی البتہ راگ راگنیاں اورکلاسیکل موسیقی کا کسی سے کوئی درس نہیں لیا۔ اسکول اور ہائی اسکول کے زمانے میں اوشانے غزلوں اور گیتوں کی دھنیں بنانا شروع کر دیں۔ جہاں اس کے والد نے کوئی نیا گیت یا غزل لکھی وہیں اوشا نے اس کی طرز بنائی۔ اوشا جب مستند فلمی موسیقار بن چکی تھی تب ان کے والد نے کسی سوال کا یہ یادگار جواب دیا : ” اوشا کو موسیقی تو نہیں صرف کمپوزیشن آتی ہے“ ۔ بے شک یہ ایک خدائی عطیہ تھا۔

اوشا کو گانے کا بھی بے حد شوق تھا۔ نامور فلمی گیت نگار ’اندیو ر‘ کا اوشا کے گھرانے میں خاصا آنا جانا تھا۔ ان کو اس بات کا علم تھا کہ اوشا خود اپنے والد کے گیتوں کی طرزیں بنا کر گاتی ہے۔ ایک دن یہ اوشا کو مشہور فلمساز ’سسدہر مکھر جی‘ کے دفتر لے گئے۔ اوشا نے کوئی گانا سنایا۔ گیت نگار اندیور نے مکھرجی کے چہرے کے تاثرات بھانپتے ہوئے فوراً کہا کہ اس کا اصل ہنر تو دھنیں بنانا ہے اور اسے اپنی کوئی دھن سنانے کو کہا۔ ایک دو آئٹم سن کر مکھرجی نے گیت نگار اندیور سے کہا کہ وہ نہیں مان سکتے کہ یہ اس بچی کی بنائی دھنیں ہیں لہٰذا اندیور نے ’ڈمی بول‘ اوشا کو دیے جس کی اس نے فوراً دھن بنا دی۔ اس پر مکھر جی نے یہ یادگار جملہ کہا: ” یہ تو ایک دم او پی نیر کا اسٹائل ہے۔ اس کو ہم جتنا دیتے ہیں اس سے کہیں کم میں ہم اس بچی سے کام لے سکتے ہیں“ ۔

اس وقت اوشا کی عمر محض 17 سال تھی۔ طے یہ ہوا کہ آئندہ چند ماہ ہر روز اوشا چار نئی دھنیں بنا کر مکھر جی کو سنائے گی۔ ہر ایک مرتبہ ان کو سننے کے بعد مکھر جی کا ایک ہی جواب ہوتا: ” بس ٹھیک ہے۔۔۔ مزید بہتر کرو!“۔ اس صبر آزما مشق کے بارے میں اوشا کا کہنا تھا: ” پہلے پہل تو میں سخت کوفت میں مبتلا ہوئی لیکن جلد ہی سمجھ گئی کہ اس میں خود میرا ہی فائدہ ہے“ ۔
بالآخرکئی ماہ کی سخت محنت اور ریاضت ختم ہوئی اور سسدہر مکھر جی کی بننے والی باکس آفس ہٹ فلم ”دل دے کے دیکھو“ (1959) کے لئے موسیقار اوشا کھنہ کے نام کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا۔ وہ بے حد منکسر المزاج واقع ہوئی تھیں۔ کسی نے ذرا سا بھی ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں کوئی کام کیا اوشا نے اٹھتے بیٹھتے اس شخص کا ہمیشہ اچھے الفاظ میں ذکر کیا۔ جیسے وہ اپنی اولین فلم ”دل دے کے دیکھو“ کے بارے کہا کرتیں کہ وہ گیت اس نے اپنے ارینجر اور معاون، ماسٹر سونک اور نامور شاعر مجروحؔ سلطان پوری کے ساتھ مل کر تیار کیے ۔ اپنی پہلی فلم کے بارے میں و ہ کہتی تھیں :

” اور وہ دن آ گیا جس کا انتظار تھا جو میں کبھی بھلا نہ سکی۔ میرا پہلا فلمی گیت محمد رفیع نے ریکارڈ کرایا“ میگھا رے بولے سنن سنن۔۔۔ ”۔ یہ فلم کئی لحاظ سے تاریخ ساز فلم ہے۔ میری تو بحیثیت موسیقار پہلی فلم ہے ہی، آشا پاریکھ بھی اسی فلم میں پہلی دفعہ ہیروئن آئی۔ اس سے پہلے یہ چائلڈ اسٹار کے طور پر کام کرتی تھی۔ ہدایت کار ناصر حسین کی یہ دوسری فلم ہے۔ اس وقت آشا پاریکھ 17 اور میں (اوشا) 18 سال کی تھی۔ جب مذکورہ فلم کے تمام گیت فلما لئے گئے تو فلم کے ہیرو شمی کپور نے مجھ سے کہا کہ کوئی نئی دھن سناؤ۔ جب میں نے ایک نئی دھن سنائی تو نہ جانے شمی کپور نے کیا محسوس کیا کہ فلمساز سسدہر مکھر جی سے کہا کہ خواہ کچھ بھی ہو یہ دھن فلم میں ضرور شامل کی جائے۔ یہ سپر ہٹ گیت ثابت ہو ا“ :

ہم اور تم اور یہ سماں کیا نشہ نشہ سا ہے
بولئے نہ بولئے سب سنا سنا سا ہے

اس دور میں ہر ایک فلم میں ’روک ان رول‘ ، بھجن، غزل اور ایک کلاسیکل گیت لازمی ہوتا تھا۔ اب یہ سب کچھ اس لڑکی نے کیسے کیا ہو گا؟ اس کا جواب وہ یوں دیا کرتی تھیں :

” میں باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کر سکی۔ حتیٰ کہ راگ راگنیوں اور بندشوں تک کا کوئی علم نہیں تھا۔ ’تال‘ ، ’ماترے‘ ، E۔ flat اور G۔ minor کیا ہوتا ہے، کچھ پتا نہ تھا۔ مگر میں نے ہر طرح کی کمپوزیشنیں بنائیں۔ اس میں میرا کوئی کمال نہیں یہ سر س وتی دیوی کی مہربانی ہے۔ البتہ میں نے ہمیشہ نغمگی melody کو موسیقی کے تمام شعبوں پر فوقیت دی ’‘ ۔

اوشا کی بالکل ابتدائی دھنیں موسیقار او پی نیر کے اسٹائل میں تھیں لیکن ان کا کہنا تھا :

” مجھے حقیقی معنوں میں موسیقار شنکر جے کشن کے اسٹائل نے متاثر کیا۔ میں ان کی ہمیشہ معترف رہی۔ ان کے گانے عوام کی طرح میں بھی پسند کرتی۔ ان گانوں کی خاصیت یہ تھی کہ بولوں کی دھن کے ساتھ ساتھ ’انٹرو‘ ، ’انٹرول میوزک‘ اور ’باریں‘ تک اکثر لوگ آسانی سے یاد رکھتے تھے“ ۔

مجھ کو اوشا کھنہ کی بعد کی دھنوں میں کہیں کہیں لکشمی کانت پیارے لال کا انداز / ’ٹچ‘ بھی محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً فلم ”ہوس“ ( 1974 ) کا گیت محمد رفیع کی آواز میں جس کو ساون کمار نے لکھا:

تیری گلیوں میں نہ رکھیں گے قدم آج کے بعد
تیرے ملنے کو نہ آئیں گے صنم آج کے بعد

اس گیت کی چند چیزیں سن کر ایسا لگتا ہے گویا اس کو پیارے لال نے ارینج کیا ہے۔ جیسے : گیت کے آغاز کا انٹرو۔ پھر استھائی میں وائلن کا مسلسل کاؤنٹر۔ اس کے بعد پہلے انٹرول میوزک میں وائلنوں کا استعمال، پہلے نچلے سروں میں پھر یہی پیس اونچے سروں میں اور اس کے ساتھ مخصوص ردھم۔ پھر دوسرے انٹرول میوزک میں وائلنوں کا بالکل مختلف انداز سے دوسرا پیس بجانا۔ اور گیت میں کٹ کا استعمال۔۔۔ پھر گیت کا خاتمہ وائلنوں سے استھائی کے بولوں پر المیہ انداز سے بجوا کر کرنا۔ یہ سب لکشمی کانت پیارے لال کا کام لگتا ہے۔

اوشا کھنہ کو کوئی فلم فئیر ایوارڈ نہیں ملا۔ البتہ فلم ”سوتن“ ( 1983 ) کے گیت پر ان کا نام متوقع امیدواروں میں شامل ضرور ہوا تھا۔ ان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں دو گلوکاروں کو سال کے بہترین گلوکار کا ایوارڈ حاصل ہوا: پہلا ایوارڈ فلم ”ہوس“ ( 1974 ) میں محمد رفیع کی آواز میں ساون کمار کے لکھے اس گیت پر :
تیری گلیوں میں نہ رکھیں گے قدم آج کے بعد
تیرے ملنے کو نہ آئیں گے صنم آج کے بعد

دوسرا ایوارڈ 1979 میں گلوکار کے جے یسوداس کو فلم ”داد ا“ میں کلونت جانی کے لکھے ہوئے اس گیت پر بہترین گلوکار کا ’‘ فلم فیئر ”ایوارڈ ملا :

دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مسکرا کے چل دیے
جاتے جاتے یہ تو بتا جا ہم جئییں گے کس کے لئے
دونوں گیتوں کی دھن کو یہ ایوارڈ دلوانے میں بہت زیادہ دخل ہے۔ جس طرح کبھی گیت نگار اندیور نے اوشا کھنہ کو فلموں میں متعارف کروایا تھا اسی طرح اوشا نے بھی ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں بلکہ 6 گلوکاروں کو متعارف کروایا: پنکھج اداس، ہیم لتا، محمد عزیز، شبیر کمار، ادت نرائن اور سونو نگم۔۔۔ ان سب کو اوشا نے ہی سب سے پہلے گانے کا موقع دیا۔

اوشا کھنہ کے کچھ مقبول گیت:

اوشا کھنہ نے بمبئی کی ثقافت میں بھی ایک خوبصورت اضافہ کیا۔ یہ ’جہانگیر آرٹ گیلری‘ میں ایک کیفے ’سماوار‘ کا قیام تھا جو انہوں نے 1964 میں قائم کیا۔ یہ کیفے 50 سال کامیابی سے چلا۔ لاہور میں بھی معروف ماہر تعمیرات جناب نیر علی دادا کی نیرنگ آرٹ گیلری اور کیفے /رستوران ایسی ہی ایک مثال ہے۔ بمبئی کی فلمی دنیا سے وابستہ لوگ اور صاحب ذوق عوام یہاں باقاعدگی سے آتے تھے۔ اپنی وفات سے ایک سال پہلے خرابی صحت کی وجہ سے انہوں نے اسے بند کر دیا۔ ایک بھرپور زندگی گزرنے کے بعد وہ جولائی 2016 کو آ نجہانی ہو گئیں۔ اوشا کھنہ کا نام، ان کے کام کی صورت ہمیشہ زندہ رہے گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments