کالا دپٹہ سرخ شلوار


جس دن میری موت ہوئی موسم بہت اچھا تھا۔ آسمان سرمئی بادلوں میں چھپا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ بہار کی آمد آمد تھی۔ باغوں میں پھول کھلے تھے۔ فضا معطر تھی۔ گلیوں اور بازاروں میں چہل پہل تھی۔ زندگی رواں دواں تھی۔ اچانک موت کا بھیانک چہرہ میرے سامنے آ گیا۔ میں مرنا نہیں چاہتی تھی اور اس دن تو بالکل بھی نہیں۔ کون مرنا چاہتا ہے؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ جہان آب و گل ہمارا مستقل ٹھکانہ نہیں ہے۔ سب بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں۔ دوسروں کومرتا دیکھ کر چند لمحوں کے لئے افسردہ ہوتے ہیں، پھر دوبارہ اپنے معمولات میں اس طرح گم ہوتے ہیں کہ موت کا تصور ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتا۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے موت ایک چالاک شکاری کی طرح ان کا پیچھا کرتی ہے۔ جب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا وہ اچانک اپنا وار کرتی ہے اور مرنے والا سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے۔

میری پیدائش بھی عجیب حالات میں ہوئی تھی۔ میری امی نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ جب ان کی شادی ہوئی وہ ایک بھرے پرے گھرمیں آئیں تو ان کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔ ابو، خالد چچا، دادا دادی اور میری تین پھوپھیاں، سب ایک پانچ مرلے کے گھر میں رہتے تھے۔ ابو سب سے بڑے تھے اور میری امی گھر کی پہلی بہو۔ ان سے بہت سی توقعات وابستہ تھیں۔ پہلے دبے دبے لہجے میں بات ہوتی تھی پھر دادی کا مطالبہ احتجاجی انداز اختیا رکرنے لگا۔ امی رات کو لحاف میں چھپ کر رویا کرتی تھیں اور وہ بھی ایسے کہ کسی کو ان کی سسکیوں کی آواز نہ سنائی دے۔ ہزاروں دعائیں مانگی تھیں لیکن بے اثر رہی تھیں۔ شادی کو چھ سال ہو گئے تھے۔ اب پہلے جیسے حالات نہیں رہے تھے۔ اب تو بات بات پر انہیں طعنے سننے پڑتے تھے۔

ابو اور امی نے اپنے طور پر مسئلہ حل کرنے کے لئے نہ کوئی ڈاکٹر اور حکیم چھوڑا تھا نہ کوئی پیر فقیر مگر پھر بھی اولاد سے محروم تھے۔ ابو کے بعد ان کی دو بہنوں کی شادیاں ہو گئی تھیں۔ دادی کو ایک نواسا اور ایک نواسی مل چکے تھے اس کے باوجود ان کی سوئی وہیں اٹکی تھی کہ پوتا چاہیے۔ چچا گھر میں سب سے چھوٹے تھے۔ اب وہ بھی شادی کے قابل تھے۔ ایک بار میری امی نے کہا۔ خالد کی شادی کر دیں آپ کو پوتا مل جائے گا۔ دادی نے اس پر امی کو خوب برا بھلا کہا۔ ”تم کون ہوتی ہو مجھے مشورے دینے والی۔ خالد سے بڑی ایک بہن بیٹھی ہے پہلے اس کی شادی ہو گی۔ اور پھر تمہیں اس سے کیا۔ مجھے اپنے بڑے بیٹے کی اولاد چاہیے۔“

امی نے حسب معمول چھپ کر خوب آنسو بہائے لیکن دادی فیصلہ کر چکی تھیں۔ ابو نے امی کو بتایا کہ دادی جو کافی عرصے سے ابو پر دوسری شادی کا دباؤ ڈال رہی تھیں۔ اب انہوں نے یک طرفہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ ابو کی دوسری شادی وہ آئندہ مہینے میں کروا رہی ہیں۔ اس دن تو امی نے رو رو کر آنسوؤں کے دریا بہا دیے تھے۔ بادل کھل کر برسا تو آسمان صاف ہو گیا اور ان کی آہیں عرش تک پہنچ گئیں۔ چند دن بعد جب امی نے ابو کو خوشخبری سنائی تو وہ خوشی سے اچھل پڑے۔ انہوں نے دادی اماں کو فوراً بتایا اور دوسری شادی سے انکار کر دیا۔

دادی نے خوشی کا اظہار تو کیا لیکن دوسری شادی کروانے پر اصرار بھی جاری رہا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ وہ زبان دے چکی ہیں اور اب شادی کینسل نہیں ہو سکتی۔ پھر نہ جانے کتنے جتنوں سے امی نے یہ شادی رکوائی۔ ابو نے اس موقعے پر امی کا بھرپور ساتھ دیا۔ وہ بھی ڈٹ گئے کہ اب دوسری شادی کا کوئی جواز نہیں۔ پھر میں آ گئی۔ میرے پیچھے پیچھے میرا بھائی بھی آ گیا۔ اب تو گھر میں خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ دادی کا رویہ امی کے ساتھ بہت اچھا ہو گیا تھا۔ اب تو آنے جانے والوں سے ان کی تعریفیں کیا کرتی تھیں۔

ہر سال میری سالگرہ بڑے جوش و خروش سے منائی جاتی تھی۔ دراصل میں اپنے ابو کی لاڈلی تھی۔ دادی کا راج دلارا تو میرا بھائی تھا۔ ابو میری ہر خواہش کو پورا کرتے تھے۔ تین چار سال کی عمر تک مجھے گود میں اٹھائے پھرتے تھے۔ گلی کی نکڑ تک جانا ہوتا تو مجھے اٹھا کر ساتھ لے جاتے۔ دور جانا ہوتا تو موٹر سائیکل پر بٹھا کر لے جاتے۔ جب کبھی اکیلے جاتے یا کام کے سلسلے میں جانا پڑتا تو واپسی پر میرے لئے مزے مزے کی چیزیں ضرور لاتے۔ لاتے تو بھائی کے لئے بھی تھے لیکن مجھے ایسا لگتا تھا جیسے ساری دنیا سے بڑھ کر وہ بس مجھ سے ہی پیار کرتے ہیں۔

میں ان کی موٹرسائیکل کی آواز پہچان لیا کرتی تھی۔ بھائی تو کھیل میں مگن رہتا تھا۔ میں جلدی سے دروازے کی طرف بھاگتی۔ کبھی خالد چچا دروازہ کھولتے کبھی کوئی اور۔ میں جیسے ہی ابو کو دیکھتی بھاگ کر ان سے چمٹ جاتی۔ وہ مجھے گلے لگاتے، ماتھا چومتے پھر فوراً کبھی آئس کریم، کبھی ٹافیاں اور بسکٹ وغیرہ میری طرف بڑھا دیتے۔ ایک چیز تو وہ کبھی نہیں بھولتے تھے چاکلیٹ۔ وہ کہتے تھے میری پیاری بیٹی کو چاکلیٹ بہت پسند ہے میرا دل چاہتا ہے میں چاکلیٹ بنانے کی فیکٹری کھول لوں۔ امی ہنستی تھیں۔ کبھی کبھار وہ کسی بات پر غصہ ہوتیں تو میں بھاگ کر ابو کے پاس چلی جاتی۔ پھر امی کی ایک نہیں چلتی تھی۔

امی غصے سے کہتیں کہ آپ بچی کو بگاڑ رہے ہیں لیکن ابو کہاں سننے والے تھے۔ وہ تو گھر میں کسی کو بھی میرے بارے میں ایک بھی لفظ کہنے نہیں دیتے تھے۔ جب مجھے سکول میں داخل کروایا گیا۔ وہ بھی عجیب کہانی ہے۔ مجھ سے زیادہ ابو پریشان تھے۔ ایک ایک ٹیچر سے ملے۔ ان کو اتنی ہدایات دیں کہ وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ خیر پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا۔ میں نے بھی ابو کو مایوس نہیں کیا۔ ہمیشہ کلاس میں فرسٹ آتی تھی۔ ابو کہتے تھے میری بیٹی بڑی ہو کر ڈاکٹر بنے گی۔ میرے پاس جھوٹ موٹ کے آلات تھے۔ میں نقلی سٹیتھو سکوپ سے ابو کی دھڑکن چیک کرتی۔ نقلی سرنج سے انجیکشن لگاتی اور وہ ایسی شکلیں بناتے جیسے بہت درد ہو رہا ہو۔ بہت مزہ آتا تھا ایسے ابو کے ساتھ کھیلتے ہوئے۔

میری نویں برتھ ڈے تھی۔ ابو مجھے اپنے ساتھ کپڑوں کی ایک دکان پر لے کر گئے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں اپنی پسند سے کوئی لباس خریدوں۔ دکاندار نے بہت سارے کپڑے ہمارے سامنے ڈھیر کر دیے۔ ابو کو ان میں سے کوئی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ انہوں نے ایک چمک دمک والا سبز غرارہ پسند کیا تھا۔ مگر مجھے وہ اچھا نہیں لگا تھا۔ مجھے سرخ رنگ بڑا پسند تھا۔ ایک شلوار قمیص مجھے بہت اچھا لگا تھا۔ قمیص میں سرخ اور سیاہ رنگ کی آمیزش تھی۔ شلوار سرخ تھی اور دپٹہ کالا تھا۔ ابو نے جب مجھ سے پوچھا تو میں نے فوراً اس لباس پر ہاتھ رکھا۔

”نہیں نہیں۔ برتھ ڈے پر تم یہ سادہ سا سوٹ پہنو گی؟“ انہوں نے بھی فوراً نفی میں سر ہلایا۔ ایسا شاذ ونادر ہوتا تھا کہ وہ انکار کریں۔

”مجھے یہ پسند ہے۔“ میں نے دھیرے سے کہا۔
”تو کوئی بات نہیں یہ بھی لے لیتے ہیں لیکن برتھ ڈے پر تم سبز غرارہ ہی پہنو گی، ٹھیک ہے؟“ ابو نے کہا۔
”جی ٹھیک ہے۔“

مجھے تو وہ سوٹ خرید کر جو خوشی ہوئی سو ہوئی دادی بھی بہت خوش ہوئیں کیوں کہ اس شلوار قمیص کے ساتھ ایک بڑا سا دپٹہ جو تھا۔ وہ اب ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگی تھیں کہ دپٹہ سر پہ رکھا کرو۔ مجھے تو خیر برا لگتا ہی تھا، امی بھی منہ بناتی تھیں۔

”بچی ہی تو ہے۔ جانے دیں۔“ اس بات پر دادی کا منہ بن جاتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments