بیرونی حملہ آور اور مقامی شناختی بحران


حملہ آور صرف مال و دولت لوٹ کر نہیں لے جاتے رہے یا دھرتی کے بیٹیوں، بیٹیوں اور بچوں کو صرف غلام بنا کے نہیں لے جاتے رہے بلکہ اس سے بھی بڑا ظلم یہ کر گئے ہیں کہ آنے والی نسلوں تک سے بھی شناخت چھین کر گہرے اجتماعی نفسیاتی بحران میں پھینک گئے ہیں۔ مفتوح اپنی شناخت سے بھاگتے رہتے ہیں اور ذلیل و بے توقیر کیے گئے مفتوح کی بجائے طاقتور، بارعب اور پرتمکنت حملہ آور کے ساتھ اپنی شناخت جوڑنے میں نفسیاتی طورپر زیادہ آسودگی محسوس کرتے ہیں۔

وہ طاقتور حملہ آور کا حلیہ، ثقافت، زبان، لہجہ، خوراک، عادات اور طرز زندگی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی مقامی تہذیب و ثقافت میں ان تمام عناصر کی مقامی اشکال کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آئیڈنٹٹی کرائسس یعنی شناختی بحران کی یہ شکل ظاہری طورپر بہت مضحکہ خیز لیکن درحقیقت بے حد گہری، پیچیدہ، غیر محسوس، محرومی سے پر، مظلومانہ اور قابل رحم ہے۔

جب ان کو کوئی اس آسودہ سراب سے نکالنے کی کوشش کرے تو ایساحقیقت کی طرف کھینچ کر زخموں پر نمک پاشی کرنے والا وہ شخص ازلی و اجتماعی دشمن لگتا ہے۔ شاید تاریخی حقائق پڑھانے کے ساتھ ساتھ مظلوموں کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ مظلوم نہیں ظالم برا ہوتا ہے، دفاع کرنے والا نہیں بلکہ گھر پر آکر حملہ کرنے والا برا ہوتا ہے۔

جب مظلوم اس بات کو سمجھ گیا تو پھر کہیں شناختی بحران کے گہرے گرداب سے نکل کر جبر، تشدد اور بیشمار بے گناہوں کے خون سے رنگی ظالم کی اجنبی شناخت کا اپنے اوپر مسلط لبادہ پھینک کر اور اس گہرے شناختی بحران سے نکل کر صدیوں سے خود سے بچھڑی اپنی مٹی کی پرامن تہذیبی شناخت کو مکمل قبولیت و اپنائیت سے گلے لگا سکے کیونکہ اصل راحت اور پناہ تو اسی میں ملنی ہے جو رگوں میں صدیوں سے بہہ رہی ہے اور روح میں جذب ہے، جو آپ سے آشنا ہے اور جس سے آپ بھی آشنا ہیں۔

اجنبیت سی ہے ہر ریشے میں اس کے
یہ لبادہ ہے کسی کا، تیرا تو نہیں ہے
ہے کرب سا رقصاں تیرے چہرے پہ اس سے
ہے بوجھ ہے کسی کا، تیرا تو نہیں ہے
تن پہ تیرے جچتا ہی نہیں ذرا یہ
لوٹا دو ہے جس کا، تیرا تو نہیں ہے
شامل ہے اس میں بو اپنوں کے لہو کی
ظالم کا لبادہ ہے یہ، تیرا تو نہیں ہے

حال ہی میں سوشل میڈیا پر وادیٔ سندھ کے راجہ داہر اور عرب حملہ آور جرنیل محمد بن قاسم کے حوالے سے دلچسپ بحث چلی جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ دھرتی زادے تہذیبی شناختی جڑوں سے کٹ جائیں تو شناخت کا بحران بڑا شدید ہوجاتا ہے اورغیر محسوس طور پر شخصی اور اجتماعی قومی بحران میں بدل جاتا ہے۔ سوال اٹھتے رہنے چاہئیں، تنقیدی مطالعہ کرتے رہنا چاہیے اور تقدس کے جھوٹے بت توڑ کر علمی بحث ہوتی رہنی چاہیے یہی حقائق تک پہنچنے کا راستہ ہے اور یہی طریقہ ہے ذہنوں میں انڈیلے گئے کئی جھوٹے خودساختہ بیانئے توڑ کر تاریخ کی سچائیاں خود کریدنے اور پرکھنے کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments