ماں کے بعد



( ماں کی وفات پہ لکھی گئی ایک تحریر )

انسان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ منظر، میرے نزدیک، اپنی مرحومہ والدہ کی وہ الوداعی زیارت ہے جو اس عزیز از جان ہستی کو لحد میں اتارنے سے ذرا پہلے کی جائے، کیا قیامت خیز لمحہ ہوتا ہے اور کیسا غمناک منظر۔ نہ نظر ہٹتی ہے، نہ دیکھا جاتا ہے۔ میرے اوپر یہ قیامت ابھی چند دن پہلے ہی گزری ہے اور زندگی نچوڑ کر لے گئی ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے کسی ویران اور خوفناک جزیرے میں ہوں اور ساحل پہ کھڑی اکیلی کشتی موجوں کی نظر ہو گئی ہے۔ یا جیسے کسی تپتے جلتے صحرا میں میرے سر پے کھڑا ٹھنڈی چھاؤں والا تنہا درخت یکلخت ٹوٹ کر گر پڑا ہے۔ اب مجسم غم ہوں، یوں کہ سانس بھی چل رہی ہے، زندگی بھی نہیں ہے۔ اندر ہی اندر بہت کچھ ٹوٹ گیا ہے، سب کچھ ڈھے جا رہا ہے، مسلسل کچھ گرے جا رہا ہے :

شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

ماں سے بچھڑنے کا خوف بچپن سے میر ے دامن گیر رہا۔ مجھے یاد ہے میں ساتویں جماعت میں تھا، ایک دن سکول میں بیٹھے شاید پہلی دفعہ بڑی شدت سے یہ خوف مجھ پے طاری ہوا اور میں رونے لگا۔ سکول میں باقی وقت بہت مشکل سے گزرا۔ چھٹی ہونے پر میں اپنی سائیکل اندھا دھند دوڑاتا ہوا سات آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے گھر پہنچا۔ دیکھا کہ والدہ گھر کے صحن میں ٹاہلی کے نیچے چار پائی بچھائے کسی کام میں مصروف تھیں، میں دیوانہ وار ان سے لپٹ گیا تو مجھے سکون آ یا۔

وقت گزرتا گیا لیکن یہ خوف برقرار رہا، کبھی شدت اختیار کرتا تو میرے آنسو نکل آتے، میں شہر میں ہوتا تو فوراً گھر کو بھاگتا، شہر سے باہر ہوتا تو اسی وقت ماں کو فون کرتا۔ میں کچھ عرصہ وطن سے باہر رہا۔ تمام تر سہولتوں کے باوجود ماں کی دوری کی وجہ سے میرا یہ وقت بڑی مشکل سے گزرا۔ روزانہ والدہ سے بات کرنا میرا معمول تھا۔ ایک دفعہ استنبول میں تھا، ہوٹل میں ناشتے کے بعد باہر نکلا کہ حسب معمول فون کروں۔ پی سی او والے نے بتایا کہ لائنوں میں کوئی خرابی ہے پاکستان بات نہیں ہو سکتی۔ میں ایک سے دوسرے اور پھر تیسرے پی سی او پر گیا لیکن ایسا ہی جواب ملا۔ پھر میں دیر تلک استنبول کی گلیوں میں بے قرار پھرتا رہا اور کہیں شام ڈھلے رابطہ ہونے پر اطمینان ہو سکا۔

ماں کا رشتہ تو ویسے ہی مقدس ترین ہے، لیکن ماں اگر ساتھ ساتھ تہجد گزار اور خوف خدا رکھنے والی بھی ہو تو اس رشتہ کی نورانیت، پاکیزگی اور خوبصورتی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ والدہ مرحومہ بھی ایک ایسی ہی ماں تھیں۔ سدا کی تہجد گزار۔ خود اول وقت میں نماز ادا کرتیں اور ہمیں اسی کی تلقین کرتیں۔ اور ذکر الہیٰ تو گویا ان کی خوراک بن چکا تھا۔ جیسے ہوا، جیسے پانی۔ تسبیح ہاتھ میں نہ ہوتی تو وہ سخت پریشان دکھائی دیتیں۔

میں صبح نماز کے لئے اٹھتا تو وہ تہجد پڑھنے کے بعد تلاوت قرآن میں محو ہوتیں۔ ادائیگی نماز کے بعد میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتا، انہیں کوئی پھل چھیل کر دیتا، انہیں شہد کا پانی وغیرہ پیش کرتا اور پھر ان کے سامنے نیچے بیٹھ کر ان کے پاؤں دبانے لگتا۔ یہ سب کرتے میں اک عجیب سکون محسوس کرتا۔ سوچتا تھا کوئی عمل اس سے بڑھ کر بھی باعث طمانیت ہو سکتا ہے! ۔ اس دوران وہ تلاوت کرتے ہوئے میرے سر پر ہاتھ پھیرنے لگتیں اور اکثر میرے اوپر دم بھی کرتیں۔ میں آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنا سر ان کے گھٹنے سے لگا دیتا! میرا وجود گویا ختم ہوجاتا اور تصور میں ماں کی گود میں کھیلتا ایک بچہ رہ جاتا :

زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم

یوں میں تسکین کے گھونٹ بھرا کرتا۔ برسوں یہ معمول رہا۔ لیکن میرے لئے حاصل زندگی وہ لمحہ تھا جب ایک بار ہم ماں بیٹا خانہ کعبہ میں عمرہ ادا کر رہے تھے۔ ہم پہلی منزل پر طواف کر رہے تھے۔ والدہ وہیل چیئر پر تھیں اور میں اسے چلا رہا تھا۔ عجیب نشاط اور سرشاری کا عالم تھا۔ جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ ابھی تین چار چکر ہی ہوئے ہوں گے کہ جمعے کا خطبہ شروع ہو نے لگا تو ہم رک گئے۔ میں نے چیئر کا رخ بیت اللہ کی طرف کر دیا اور نیچے بیٹھ گیا۔

خطبہ شروع ہونے میں ابھی کچھ لمحات تھے، میں والدہ کے پاؤں دبانے لگا۔ یہ جمعۃ المبارک کا مقدس دن تھا، عمرے کی ادائیگی کے دوران طواف کا افضل ترین عمل، اور میں بیت اللہ شریف کے بالکل سامنے بیٹھا اپنی عزیز ترین ہستی کے پاؤں دبا رہا تھا۔ میری جنت میرے ہاتھوں میں تھی۔ اس لمحے میں کہ جو حاصل زندگی تھا، میں نے اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھا۔ ایں سعادت بزور بازو نیست۔ طواف کے بعد سعی کرتے ہوئے ہم نے عمرہ مکمل کیا۔

باہر نکلے تو میں نے والدہ کی جوتیاں لیں اور بڑی محبت سے انہیں پہنانے لگا۔ والدہ نے میرا سر منہ چوما۔ ان کے آنسو چھلک پڑے۔ ہم دونوں ماں بیٹا اس عظیم سعادت پر رب کریم کا شکر ادا رہے تھے۔ ادھر ہی والدہ نے فرمایا تھا، ”میں سراپا تم سے خوش ہوں“ ۔ یہ میری زندگی کا اعلیٰ ترین ”سرٹیفیکیٹ“ ہے۔ جسے میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر کے معافی کا خواستگار ہوں گا۔

بخدا ان سطور کے لکھنے کا مقصد یہ بتانا ہر گز نہیں ہے کہ میں نے والدہ کی خدمت کرنے میں کوئی بڑا تیر مار لیا تھا۔ والدین کا حق خدمت تو ادا ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ ایسا تصور بھی محال ہے۔ انسان اپنی بساط میں کچھ بھی کر لے تو بھی دل میں یہی رہنا چاہیے کہ، ”حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا“ ۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ انسان اگر والدین کی خوشی کو ہمہ وقت ملحوظ خاطر رکھے توان کے جانے کے بعد جہاں ایک طرف غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑھتے ہیں تو دوسری طرف یہ بات کسی قدر باعث تسکین بھی رہتی ہے کہ میں نے ا پنے تئیں یہ حق ادا کرنے کی کوشش تو کی۔

یوں جلتے تپتے صحرا میں ٹھنڈی ہوا کی اک کھڑکی سی کھلی رہتی ہے۔ اور یہ اہتمام کسی دیر یا التوا کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس کا خیال رہنا چاہیے۔ فی الفور اور ہمہ وقت۔ ایسا نہ ہو کہ یہ شفیق چہرے مٹی کی ڈھیری کے نیچے چھپ جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے۔ ”ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو“ ۔ یہ صرف احساس اور طرز فکر کی بات ہے، ورنہ ماؤں کے قاتل بھی تو ہمارے ہی درمیاں پھرتے ہیں ( یہاں قتل سے مراد زندگی کا خاتمہ ہی نہیں ہے ) نجانے کتنی ہی مائیں روز ہمارے ارد گرد اولاد کے ہاتھوں لمحہ لمحہ قتل ہوتی ہیں۔

اور دوسری طرف جناب اویس قرنی ؒ بھی تو اسی دنیا میں ہو گزرے ہیں کہ جنہیں صرف ماں کی خدمت کے سبب یہ مرتبہ ملا کہ رسول پاکﷺ نے حضرت عمر ؓ اور حضرت علیؓ سے فرمایا تھا کہ ان کے پاس جانا اور ان سے کہنا کہ امت کے لئے دعا کریں۔ قرآن پاک ہمیں بتاتا ہے کہ والدین کے آگے بچھے رہو اور کبھی انہیں ’اف‘ تک بھی نہ کہنا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ اگر ’اف‘ سے بھی کوئی چھوٹا لفظ ہوتا تو اللہ تعالیٰ وہ یہاں استعمال کرتے۔

سوچتا ہوں جب اقبال اپنی والدہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اپنی لازوال نظم ”والدہ مرحومہ کی یاد میں“ لکھ رہے ہوں گے تو ان کی آنکھیں کتنی مرتبہ ڈبڈبائی ہوں گی! کتنی بار کاغذ پے گرتے آنسوؤں نے قلم کا رستہ روکا ہو گا۔ اقبال کی جذبات نگاری اور ان کے انداز بیاں تک رسائی تو اب شاید ممکن ہی نہیں ہے لیکن ان سطور کو لکھتے ہوئے الفاظ میرے سامنے بھی برابر جھلملا رہے ہیں۔ آنکھیں مسلسل باوضو ہیں۔

والدہ کی قبر پر پہلی حاضری کے لئے گھر سے نکلا تو یہ زندگی کا مشکل ترین سفر لگا۔ قدم نہیں اٹھ رہے تھے۔ میرا رخ ہمارے آبائی قبرستان کی طرف تھا۔ قبرستان کے کنارے پہنچا تو رستہ بھر جس طوفان کے آگے میں بند باندھنے کی اک ناکام سی کوشش کررہا تھا وہ پھٹ پڑا۔ آہوں آنسوؤں کا اک سیلاب امڈ آیا اور میں اس میں بہتا ہوا نجانے کب اور کیسے والدہ کی قبر پر پہنچا۔ میں ان کے پاؤں کی جانب بیٹھ گیا کہ زندگی بھر یہی میری پسندیدہ جگہ رہی۔

میری ہچکی بندھ گئی تھی۔ تو کیا اب یوں ملاقات ہوا کرے گی! آنکھوں کے سامنے اک مونس و شفیق چہرہ ابھرا اور پھر آنسوؤں میں غائب ہوگیا۔ میرے آنسو قبر کی تازہ مٹی کو گیلا کر رہے تھے۔ چشم تصور میں سیرت رسول پاک ﷺ کا ایک ورق ابھرا۔ حضور پاکﷺ کا بچپن تھا جب آپﷺ اپنی والدہ کے ہمراہ والد کی قبر کی زیارت کے لئے مدینہ تشریف لے گئے۔ واپسی پر آپ کی والدہ کی طبیعت خراب ہوئی اور رستے میں مقام ابوا پر انتقال ہو گیا۔

انہیں وہیں دفن کر دیا گیا۔ ان کی خادمہ ام ایمن ؓ بھی ساتھ تھیں۔ حضور پاک ﷺ صرف چھ سال کے تھے۔ ام ایمن ؓ بتاتی ہیں کہ ہم چلنے لگے تو آپ ﷺ والدہ کی قبر سے لپٹ گئے اور کہنے لگے کہ میں والدہ کے بغیر نہیں جاؤں گا۔ پھر ستاون برس بعد جب آپ ﷺ حجتہ الوداع کے لئے مدینہ شریف سے روانہ ہوئے تو ابوا کے قریب سے گزر ہوا۔ آپ ﷺ رستہ بدل کر وہاں پہنچے اور ماں کی قبر پر بیٹھ کر گھٹنوں میں سر دیتے ہوئے بچوں کی طرح روتے رہے۔

میں تادیر والدہ کی قبر پر انتہائی مضطرب بیٹھا رہا۔ قلب و زباں پہ جاری قرآنی آیات آنسوؤں میں بھیگتی رہیں۔ والدہ کے لئے دعا کو ہاتھ اٹھائے تو مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا! اس ہستی کے لئے دعا جو زندگی بھر میرے لئے مجسم دعا بنی رہی! لا تعداد مرتبہ ایسا ہوا کہ ادھر انہوں نے دعا کی ادھر قبولیت میرے سامنے مجسم ہو گئی۔ کئی دفعہ کسی ایسے مسئلے کے متعلق جس کا بظاہر کوئی حل نظر نہ آتا، میں انہیں بتاتا ہی نہیں تھا، تاکہ پریشان نہ ہوں۔

لیکن جیسے ہی انہیں ارد گرد سے اس کا پتہ چلتا تو وہ دعا کرتیں۔ بس پھر یوں ہوتا کہ اس مسئلے کا حل خود مجھے ڈھونڈتا پھرتا۔ میں دعا میں صرف یہی کہہ سکا، ”باری تعالیٰ! زندگی میں میرا کوئی بھی کام تجھے پسند آیا ہے تو آج اس کا صلہ میری ماں کو دے دے“ ۔ ماں کی قبر سے اٹھنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ اب قبرستان مجھے میرا گھر لگ رہا تھا اور باقی ساری دنیا قبرستان!

ماں کے انتقال کے بعد یہ بڑھتا ہو ا زمانی فاصلہ تو مجھے کھائے جا رہا ہے، ابھی کل کی بات تھی۔ ابھی پچھلے ہفتے کی بات تھی۔ اور وقت بطور مرہم کا تصور بھی یہاں درست نہیں۔ گزرتا وقت ہر زخم کو نہیں بھر سکتا، ”وقت زخم تیغ فرقت کا کوئی مرہم نہیں“ ۔ اس معاملے میں تو گزرتا وقت مرہم کی بجائے مہمیز کا کام کر رہا ہے۔ زخم گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ غم بڑھتا جا رہا ہے۔ اور غم بھی ایسا جس کی کوئی مثال نہیں۔ کوئی مثال نہیں!

آتش دوزخ میں وہ گرمی کہاں
سوز غم ہائے نہانی اور ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments