میری ماں کا ایک عوامی فیصلہ


بی ڈی ممبرز کے چناؤ کا دن تھا۔ ملک میں عوامی سطح پر چونکہ پہلی سیاسی سر گرمی تھی اس لئے ہر جانب اک نئی ہی گہما گہمی دکھائی دیتی تھی۔ میرے اباجی بھابھڑہ کی چیئر مینی کے امیدوار تھے ان کے مقابلے میں ان کے چچا زاد بھائی کھڑے تھے۔ جس کی وجہ سے خاندانی اور علاقائی دھڑے بندیاں زوروں پر تھیں۔ گاؤں والے ابا جی کے پورے جانثار تھے اور ان کے ایک اشارہ ابرو پر جانثاری ان کے روایت تھی۔ چنانچہ انتخابات کے دن علی الصبح گاؤں میں عید کا سماں تھا۔ لوگ جوق در جوق نئے کپڑے پہنے، کنگھی پٹی کیے ہماری حویلی میں جمع تھے۔ عورتیں، بچے اور بوڑھے بزرگ سبھی اپنے میاں جی کی خاطر عجب جوش سے بھرے تھے!

صحن میں بھانت بھانت کی آوازوں کی گونج تھی، جس میں گھر کے ملازمین سکھ چین کے درخت کے نیچے بڑے سے چولہے پر رکھے جلیبیوں کے کڑاہ سے تازہ جلیبیاں بڑے بڑے تھالوں میں بھرے سب کو کھلاتے پھرتے تھے، اباجی باہر دارے میں تھے اور امی جی پیڑھی پر گاؤں کی عورتوں کے درمیان بیٹھیں انہیں ووٹ ڈالنے کا طریقہ سمجھا رہی تھیں۔ اب بسوں کی انتظار تھا جو سرگودھا سے دن چڑھنے سے پہلے آنی تھیں۔ مگر ابھی تک ان کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ جیسے جیسے سورج بلند ہو رہا تھا، امی ابا جی کی پریشانی ان کے چہروں سے نمایاں ہو رہی تھی۔ پولنگ اسٹیشن وہاں سے تین کوس دور تھا جہاں سواری کے بغیر اتنے لوگوں کو لے جانا ممکن نہ تھا۔ جبکہ مخالف پارٹی اپنے لوگ بسوں میں بھر کر صبح کی نکل چکی تھی۔

ان حالات میں بسوں سے مایوس ہو کر گاؤں کے مرد ٹولیوں کی صورت پیدل پولنگ اسٹیشن کی جانب روانہ ہو چکے تھے۔ مسئلہ عورتوں کا تھا۔ انہیں وہاں کیسے پہنچایا جائے؟

یہ سوال جب گمبھیر ہو نے لگا تو میری سمجھ دار ماں نے ایک عجب فیصلہ کیا، گاؤں کی عورتوں کے ہمراہ پیدل پولنگ اسٹیشن جانے کا۔ اباجی نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے انہیں روک دیا۔ گاؤں کی عورتوں نے بھی دبی زبانوں میں مخالفت کر تے ہوئے کہا، کہ تین کوس کا کچا راستہ جس میں کئی کھالیاں، ٹبے ٹوئے اور سیم آتی ہے آپ کیسے طے کریں گی۔ جبکہ آپ تو گاؤں کے اندر بھی کبھی نہیں نکلیں۔ سب کی مشترکہ تجویز تھی کہ وہ جیپ میں بیٹھ کر جائیں اور ووٹر عورتیں ان کی جیپ کے پیچھے پیچھے پیدل آجائیں۔ مگر انہوں نے اس تجویز کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ میرے لوگ پیدل آئیں اور میں گاڑی پہ، یہ ممکن نہیں۔ میں انہی کے ساتھ قدم قدم چلتے ہوئے پولنگ اسٹیشن جاؤں گی۔ چنانچہ انہوں نے گاؤں کی عورتوں کے جم غفیر کے ہمراہ تین کوس پیدل طے کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ اپنے لوگوں سے کتنی قریب ہیں۔ اور مزاجاً کس قدر عوامی ہیں۔

الیکشن کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا تھا۔ میرے ابا جی اگلے کئی برسوں کے لئے بھابھڑہ کی چیئرمینی کے لئے منتخب ہو گئے۔ وہ لکڑی کی صندوقچی جس پر کرسی کا نشان تھا۔ اک عرصہ سٹور میں پڑی اس واقعے کی یاد دلاتی رہی جب عوامی مزاج رکھنے والی میری ماں کے ایک عوامی فیصلے نے ابا جی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

میری ماں ایسی ہی تھی۔ 16 ستمبر 92 کی صبح جب اس نے اس بے وفا دنیا پر آخری نگاہ ڈالی اور اگلے سفر کی تیاری باندھی تو اس کے چہرے پر ولیوں جیسا اطمینان اور آسودگی تھی۔ اس نے اسی طمانیت میں آنکھیں ہمیشہ کے لئے موند لیں تو اک عجب منظر میرے سامنے تھا۔ میں پی ایف سرگودھا کے آئی سی یو میں کھڑی حیرت سے اس عورت کو دیکھتی تھی جو میری ماں تھی اور اس وقت جس کے خاموش چہرے پر ٹھہری ہوئی لازوال مسکراہٹ، اور خاموش خدو خال پر پھیلا ہوا حسن مجھے عبادت گاہوں کی پاکیزگی، تقدس، اور وہاں ہمہ وقت گونجنے والی مناجات سے مشابہ لگ رہا تھا۔ کیا میری ماں اتنی حسین تھی؟

میں بند پلکوں والی اس مسکراتی شکل کو دیوانوں کی طرح دیکھ رہی تھی۔ کیا مائیں خوبصورت بھی ہوتی ہیں؟ اور اگر ہو تی ہیں تو بچوں کو ان کی زندگی میں اس بات کی خبر کیوں نہیں ہوتی؟ اور میں اس انمول چہرے کو کیا پہلی دفعہ دیکھ رہی ہوں؟ یا پھر آخری دفعہ؟

ماں چلی گئی اور دربار شریف ( آبائی قبرستان ) میں اونچی لمبی کھجوروں کے جھنڈ کی ہمسائیگی میں بنائی ہوئی اس کی قبر پر میرا پنجابی شعر درج ہو گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی جیسے وہ قبر سے اٹھ کر میرے دل میں مقیم ہو گئی۔ اس کی ہر گزری ہوئی برسی پر اس کے ذکر کو دہراتے ہوئے اپنے پڑھنے والوں کو بتانا چاہتی ہوں۔ میں اس کی ہر برسی پر دکھ کا ایک پیغام باندھتی ہوں۔ اور اس کی جدائی کے گزرے سالوں کا حساب جوڑتی ہوں۔

مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ حساب مجھ سے کبھی جوڑا نہیں گیا۔
جوڑا جا ہی نہیں سکتا!

شاید اسی لئے میری ماں بے بسی کے ان لمحوں میں اٹھ کر میرے پاس چلی آتی ہے اور مجھے سمجھاتی ہے۔ بچہ بہادر وہ ہوتا ہے جو آنکھ میں آیا آنسو دل پر گرا دے۔

کسی کو رو کر دکھا نا بہادری نہیں بزدلی ہے۔ تمہیں مقابلہ کرنا ہے دنیا کی ہر مشکل کا اور کامیاب ہو کر دکھانا ہے۔ اور پھر اپنے مدھم مگر واضح لہجے میں بتاتی ہے۔ تم ایک درویش صفت باپ کی بیٹی ہو۔ تمہارا نانا۔ چناں کے کنڈے کا سردار تھا، لمبی چوڑی زمینوں کا مالک۔ جن کا بڑا حصہ اس نے مستحق لوگوں میں بانٹ دیا۔ جس نے ساری زندگی بیواؤں، محتاجوں اور مساکین کی دلداری میں گزار دی۔ جو سادہ لباس پہنتا تھا۔ سادہ غذا کھاتا تھا اور شب بیداری جس کا شیوہ تھی۔ وہ جسے مشرقی پنجاب کی مہاجر مائی جیواں نے ایک دن کمال بے نیازی سے چنیوٹ میں، اپنے حجرے سے ملحق مسجد کی اساری میں لگا دیا۔

اور جب ساندل بار کے سردار نے اک مزدور کی طرح گارے کی تغاری سر پر اٹھا کر لکڑی کی سیڑھی پر پہلا قدم جمایا تو اللہ والی نے کڑک کر کہا۔ سلطان احمدا چھیتی کر نہیں تے مزدوری نئیوں لبھنی۔ تو سلطان احمد نے چھیتی سے دوسری سیڑھی پر قدم جمایا۔ اللہ والی نے گرج کر تنبیہاً کہا۔

یاد رکھیں۔ ایہہ دنیا دل لاون دی تھاں نہیں سلطان احمدا۔ سو سلطان احمدا نے اس نصیحت کو پلو سے باندھ لیا اور اس دنیا کو مکھی اور مچھر کے پر سے زیادہ کبھی اہمیت نہ دی۔ ماں بھی یہی کہتی تھی۔ بچو یہ دنیا دل لگانے کی جگہ نہیں۔ دل اس کے ساتھ لگانا جس نے یہ دل دیا ہے۔

بس ایسی ہی تھی میری ماں، اس کے متعلق سوچوں تو مجھے وہ دنیا کی عجیب ترین عورت لگتی ہے۔ جس کی مامتا اس کی پہچان تھی۔ مگر کتنی عجیب بات کہ یہ مامتا اس کی اپنی اولاد کے لئے ہی مخصوص نہ تھی۔ اس کی وسعت میں وہ تمام بچے بچیاں نہایت آسانی سے سما جاتے تھے۔ جو آج بھی اس کی جدائی کا دکھ روتے ہیں۔ اور برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

وہ جو ایک درویش صفت باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ اور لمبی چوڑی دنیاوی نعمتوں سے مالامال تھی۔

مگر اس کے باوجود مٹی کی بیٹی تھی۔ میلے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا اسے زیادہ بھاتا تھا۔ وہ ان کے دکھوں پر آنسو بہاتی تھی۔ ان کی مشکلوں میں ان کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی تھی۔ جس کا گھر واقع سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا اک سرائے کی مانند تھا۔ کہ یہ دنیا دل لاون کی جگہ نہ تھی۔ چنانچہ اس سرائے نما گھر میں ہمہ وقت ضرورت مند، مسافر، اور پردیسی موجود رہتے تھے۔ مقدمے۔ شادیاں، بیماریاں۔ خوشیاں اور غم اٹھائے ہوئے وہاں آنے والوں کے لئے وہ گھر اک عافیت کدہ تھا۔ اس کے دستر خوان پر دس پندرہ مہمان ہمیشہ موجود ہوتے تھے۔ جن کی اس گھر میں رہنے والوں کو عادت پڑ چکی تھی۔

بہت برس پہلے جب وہ مجسم خدمت اور محبت عورت اس جہان سے اٹھ گئی، تو مجھے لگا جیسے مجھ سے زندگی کی سب سے بڑی نعمت چھن گئی ہو۔ جیسے میری ساری کائنات ڈانوا ڈول ہو گئی ہو۔ اب تک ڈانوا ڈول ہے کہ وہ مرکز تھی۔ نیو کلس تھی میرا۔ ہم سب کا۔ جس کے گرد ہمہ وقت گھومتے رہتے تھے ہم سب۔ کہ ہمیں ماں کی عادت پڑ چکی تھی۔ عادت اس کے ہونے کی!

پھر پتہ چلا ہر بچے کو ماں کی عادت ہوتی ہے، چاہے وہ جتنا بھی بڑ اہو جائے، جتنا بھی بوڑھا ہو جائے یہی وجہ وہ ہر عورت میں ماں کو ڈھونڈتا ہے۔ مگر وہ نہیں ملتی۔ کہیں نہیں ملتی۔ کہ وہ نایاب ہوتی ہے قیمتی ہوتی ہے۔ میری ماں بھی ایک ایسی ہی نایاب اور قیمتی انسان تھی۔ جس نے مدت ہوئی اس دنیا سے پردہ کر لیا۔ مگر میں جدائی کی اس مدت میں برابر اسے ڈھونڈتی ہوں۔

مگر وہ مجھے کہیں نظر نہیں آتی۔
اے اس دنیا کی سب سے قیمتی اور نایاب عورت تو کہاں ہے؟

اک بار دکھائی دے جا کہ تیری بیٹی تیرے چہرے کی ملائمت اور نرمی کو دیکھ کر اس مچھر اور مکھی کے پر جیسی دنیا کی دشواریوں سے گزرنے کا حوصلہ پا جائے۔
اور اس جدائی کو بھی بہلا لے جو سولہ ستمبر 92 سے دل میں گھس کر بیٹھ گئی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments