مفروضہ قوم کا ہیرو:محمد بن قاسم یا راجہ ڈاہر؟


ہیرو کیا ہوتا ہے؟ اگر ہم لغوی معانی دیکھیں تو کوئی بھی ایسا شخص جو اپنی اعلیٰ خدمات پر یاد رکھا جائے اسے ہیرو کہتے ہیں۔ تو کسی شخص کی کون سی خدمات کو یاد رکھا جائے تو وہ ہیرو ہے؟ اور کب تک خدمات کو یاد رکھا جائے تو وہ ہیرو ہے؟ قومی ہیرو کون ہے؟ حقیقی ہیرو کون ہے؟ ہیرو کون ہے؟

ان دنوں ان سوالات کے جواب ڈھونڈنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ہیرو کی تعریف ہی اصل ہیرو کی پہچان دے گی۔ مثلاً مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ”جوانی پھر نہیں آنی“ کا ہمایوں سعید ہمارا قومی ہیرو ہے یا ”پنجاب نہیں جاؤں کی“ کی صدراتی ایوارڈ یافتہ مہوش حیات ہماری قومی ہیرو۔ اگر ہیرو کی تعریف مل جائے تو ہیرو کو بھی تلاش لیا جائے گا۔ آج کل یہ ہی موضوع زیر بحث ہے کہ ہمارا ہیرو کون ہے مثال کے طور پر آج کل سوشل میڈیا پر ایک بحث ہو رہی ہے کہ راجہ داہر ہمارا قومی ہیرو ہے یا محمد بن قاسم۔

اب میرے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جس کی خدمات خواہ کسی بھی شعبہ میں ہوں اور تو جب تک وہ خدمات یاد رکھی جائیں گی تب تک وہ شخص ہیرو ہوگا۔ مثال کے طور مہوش صاحبہ کی اگر خدمات شو بز میں ہیں تو جب تک ان کی خدمات یاد رکھی جائیں گی وہ شوبز کی ہیرو ہیں۔ اسی طرح اگر کسی شخص کی خدمات ایسی ہوں کہ وہ پوری قوم کو فائدہ دیں تو جب تک وہ خدمات یاد رکھی جائیں تب تک وہ شخص قومی ہیرو ہے جیسا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں تو ان کی خدمات کا اعتراف پورا ملک کرتا ہے اور پوری قوم کرتی ہے تو وہ ہماری قوم کے ہیرو ہیں قومی ہیرو ہیں۔ اسی طرح عالمی ہیرو بھی جس کی خدمات کل عالم یاد رکھے جیسا کہ اللہ مغفرت فرمائے اپنے ایدھی صاحب (رح) عالمی ہیرو تھے۔

اب واپس آتے ہیں اپنی بحث پر کہ محمد بن قاسم یا راجہ داہر ہمارا قومی ہیرو کون؟

تو اس کو سمجھنے کے لئے تاریخ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا۔ سندھ ایک قدیمی تہذیب ہے اور اس کی جڑیں زمانہ قبل از مسیح میں جا ملتی ہیں۔ بہت ہی قدیم تہذیب ہے بہت ہی قدیم تاریخ کی حامل مگر جب ہم محمد بن قاسم یا راجہ داہر کی مناسبت سے اسے دیکھیں تو ہمیں سند ہ کی برہمن سلطنت اور اس کا محمد بن قاسم کے ہاتھوں زوال دیکھنا ہو گا۔

سندھ (دیبل) میں رائے خاندان حکمران تھا۔ آخری رائے حکمران رائے ساہاسی لاولد فوت ہو گیا تو چچ نے سندھ میں برہمن سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ یہ سلطنت سن 632 سے سن 712 تک آزادانہ قائم رہی اور اس کے بعد کچھ عرصہ اموی خاندان کے زیر اثر قائم رہی۔ ان 70 سالوں میں تین حکمران آئے چچ، چندر اور راجہ داہر۔ راجہ داہر آزاد سلطنت کا آخری بادشاہ تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ سندھ میں ہندو سلطنت کا آخری بادشاہ تھا تو تسلیمی ہے۔

راجہ داہر 679 سے 712 تک سندھ کا راجہ رہا۔ کہا جاتا ہے کہ 678 میں جب چندر کا انتقال ہوا تو چچ کے بیٹے جے سینا کو بادشاہ بنایا جانا تھا مگر داہر نے خود بادشاہی کا دعویٰ کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ داہر کے فیصلے سے اس کے اپنے بھائی تک ناخوش تھے۔ مزید براں داہر نے قدیمی فارسی طرز پر سلطنت قائم کیے رکھی۔

محمد بن قاسم حجاج بن یوسف کی قریبی رشتہ داری میں سے تھا۔ ولید بن عبدالملک (ولید اول) کے دور میں اموی سپہ سالار تھا۔ محمد بن قاسم سے 712 میں سندھ پر حملہ کیا اور سندھ میں اس وقت کی برہمن سلطنت کے راجہ داہر کا تختہ الٹ دیا۔ محمد بن قاسم نے دیبل کے بعد ملتان میں بھی فتح حاصل کی۔ محمد بن قاسم ہندوستان میں پہلا مسلم فاتح تھا جو کہ نسلاً عربی تھا۔ فتح سندھ سے قبل محمد بن قاسم فارس (ایران) کا گورنر رہ چکا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ سیلون (سری لنکا ) سے واپسی پر قزاقوں نے مسلمان تاجر بچوں اور خواتین کو اغوا کر لیا تو ان خواتین نے حجاج بن یوسف کو خط کے ذریعے اطلاع دی تو محمد بن قاسم حجاج کے حکم پر دیبل پر حملہ آور ہوا اور سندھ کو فاتح کر کے فاتح سندھ کہلایا۔ کہا جاتا ہے سندھ اور بعد ازاں ملتان میں محمد بن قاسم کی بدولت اسلام برصغیر کے کونے کونے میں پھیلا کیونکہ محمد بن قاسم کے ساتھ ہی دیبل کے رستے علماء اور مشائخ نے ہندوستان کا رخ کیا اور اسلام کی ترویج کی۔ رائج تاریخ سے اس امر کا بھی علم ہوتا ہے کہ محمد بن قاسم کے اسلامی طرز حکومت اور مساوات سے متاثر ہو کر جوک در جوک ہندو دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ شاید اقبال ہے محمد بن قاسم کو دیکھ کر ہی کہا ہو کہ

”حسن کردار سے تو نور مجسم ہو جا
کہ ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہو جائے ”۔

مندرجہ بالا تاریخ رائج ہے مگر دور حاضر کے چند دوستوں کا اس پر اعتراض ہے مثلاً سندھ کی تاریخ کی سب سے مستند سمجھی جانے والی کتاب ”فتح نامہ سند“ جسے ”چچ نامہ“ بھی کہتے ہیں عرب مسلمانوں نے فتح ہند کے بعد لکھی۔ یہ ساتوں اور آٹھویں صدی میں فارسی زبان میں لکھی گئی۔ اسی طرح ہنری ایلیٹ کی کتاب
“The History of India, as Told by Its Own Historians”
بھی فارسی تراجم کا مجموعہ ہے۔ لہذا یہ تمام اگر عرب لوگ لکھیں گے تو اپنی مرضی کی تاریخ رقم کریں گے۔

رہا سوال محمد بن قاسم ہیرو ہے یا راجہ داہر؟

راجہ داہر کی کوئی خدمت سردست تاریخ کی کتابوں میں ایسی نہیں ملتی کہ جس سے انسانیت یا قوم کا فائدہ ہوا ہو۔ راجہ داہر نے اپنے ہی خاندان کے ساتھ ناراضی مول لی۔ اور کوئی تاریخی فتح اپنے نام نہ کر سکا۔ یہاں تک کہ عربوں کو دیبل کے رستے ہندوستان میں رسائی دے دی۔ مزید براں راجہ داہر کا دور وہ دور ہے جب قوموں نے تاریخ لکھنی شروع کر دی تھی مگر راجہ کے زمانے میں قدیم ہندوستانی علم مثلاً علم نجوم وغیرہ کو ہی ترجیح دی جاتی رہی اور تاریخ لکھنے لکھانے کا کوئی سامان نہ کیا گیا۔ جتنی بھی تاریخ کی کتابیں لکھی گئی ان میں راجہ کو محمد بن قاسم کی شکست کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے اور راجہ کی اپنی کوئی ایسی خدمت نہیں کہ جس کی وجہ سے راجہ کو یاد رکھا جاتا ہو۔

محمد بن قاسم پر ناقدین تنقید کرتے ہیں۔ محمد بن قاسم پر تنقید یہ ہے کہ وہ ہندوستان میں اپنی عورتیں چھڑانے آیا تھا مگر ہندوستان سے عورتیں اغوا کر کے لے گیا۔ اسی الزام کے سبب اس کو پھانسی بھی دی گئی۔ مگر اس تنقید کا جواب تاریخ کی رائج کتابیں دیتی ہیں کہ محمد بن قاسم ولید اول کا سپہ سالار اور حجاج کا بھانجا تھا لہذا جب سلیمان نے اموی تخت سنبھالا تو محمد بن قاسم کو اسی چپقلش میں قتل کروایا۔

میرے مطابق محمد بن قاسم ہمارا اصلی قومی ہیرو ہے۔ محمد بن قاسم اگر سندھ فتح نہ کرتا تو ہندوستان میں اسلام لوگوں کے سینوں کو منور نہ کرتا۔ ہندوستان میں اسلام کی ترویج و اشاعت کا سبب ہونا ہی محمد بن قاسم کی ایک لازوال خدمت ہے جو تا قیامت یاد رکھی جائے گی۔ محمد بن قاسم ہی دراصل ہیرو کی تعریف پر پورا اترتا ہے اور وہ ہی ہمارا قومی ہیرو ہے۔

رہی بات ہماری قوم کی تو جیسے پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ہماری قوم نے چند مفروضہ جات کی بنیاد پر راجہ داہر کو اپنا ہیرو بنا لیا ہے مگر افسوس کہ ہم تحقیق سے پرے مفروضوں پر ایمان رکھنے لگے ہیں۔ پھر کسی نے کہ دیا کہ محمد بن قاسم عربی نہیں راجہ داہر سندھی ہمارا ہیرو ہے تو ہم اس کی باتوں میں آ گئے۔

آخر میں میں ایک الحمدللہ سچا مسلمان اور سچا پاکستانی ہوں۔ مزید میرا کسی ایجنسی یا گروپ سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ وضاحت اس لئے کہ ہم نے اپنے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب پر بھی مفروضہ جات قائم کر لئے میں نے تو پھر بھی تنقید کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments