بچوں کو ہنسنے مت دیں


ایک خاتون جو کہ افریقہ سے آئیں تھیں انہوں نے اپنے تین سالہ بچے کا داخلہ شہر کے بہترین اسکول میں کروایا ایک ہفتے کے بعد اس بچے نے اسکول جانے سے منع کردیا جب وجہ معلوم کی گئی تو اس بچے نے کہا ”یہاں سب بچے ایک دوسرے پر ہنستے ہیں او ر آپس میں ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے ہیں جب کوئی بچہ گر جاتا ہے تو اسے مل کر اٹھاتے نہیں ہیں بلکہ سب مل کر ہنستے ہیں۔“

ہنسنا صحت کی علامت ہے لیکن کبھی کبھی ہنسنا صحت کے لئے مضر بھی ہو جاتا ہے۔ وہ الگ بات ہے صحت اس کی خراب ہوتی ہے جس پر ہنسا جاتا ہے ہمیں بہت آسان لگتا ہے کسی پر ہنسنا، ا س کا مذاق اڑانا ا س کی کسی خامی پر، اس کی کسی کمزوری پر اور کہتے ہیں کہ جب برائی کو اچھائی سمجھ کر کرنے لگو تو برائی برائی نہیں لگتی۔

میں نے بڑے او ر سمجھدار لوگوں کو ایک دوسرے کا مذاق اڑاتے او ر ایک دوسرے پر ہنستے دیکھا ہے اس کے اثرات بھی دیکھے ہیں مگر سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ یہ عادت اب بچوں میں آ گئی ہے اور یہ اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ خود بڑوں کو بھی اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ ایک بچے کا دو تین بچے مل کر مذاق اڑا ر ہے ہوتے ہیں اور باقی سارے ہنس رہے ہوتے ہیں ساتھ میں خاندان کے بزرگ اور بڑے بھی اس چیز کو برا نہیں سمجھ رہے ہوتے بلکہ وہ خو د بھی ہنس رہے ہوتے ہیں کہ ”دیکھو کیسے میرے بیٹے نے سب کو ہنسا دیا یہ تو جہاں بھی ہوتا ہے اسی طرح محفل کو رونقیں دیتا ہے۔“

کسی کو بھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ جس پر ہنسا جا رہا ہے وہ کس اذیت سے گزرتا ہو گا اس کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہوں گے اگر وہ دس بارہ سال کا بچہ ہے تو حقیقتاً اس کی شخصیت لازمی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی اور بہت سے منفی اثرات اس کی شخصیت میں اس کے ذہن میں بگاڑ پید ا کر سکتے ہیں۔ مگر ہم تو بس شاید اس وقت کے مزے لے کر دامن جھڑک کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

میں اس وقت بہت زیادہ چونکی جب میں نے تدریسی عمل باقاعدگی سے شروع کیا بڑی جماعتوں کے بچے بڑے کھلے عام ایک دوسرے کا نہ صرف مذاق اڑا ر ہے ہوتے ہیں بلکہ اس بچے کی تذلیل بھی کر رہے ہوتے ہیں اور وہ لڑکا جس کا بھری جماعت میں مذاق اڑایا جاتا ہے وہ یا تو بہت زیادہ بدتمیز ہوتا ہے یا بے انتہا چڑچڑا۔ ہم جماعت لڑکیوں کے ان کی شکلوں او ر جسامت کے لحاظ سے ان کے نام رکھنا اور پوری جماعت کے سامنے ان کا مذاق اڑانا بڑی عام سی بات ہوگئی ہے بحثیت معلمہ میں نے بہت دفعہ سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے اور اس کے مثبت اثرات بھی دیکھے ہیں مگر مجھے ایسا لگتا ہے یہ تر بیت بہت کم عمری میں بچوں کو دینا اب بہت ضروری ہوگیا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے میری جماعت میں کسی اور ملک سے ایک بچی آئی وہ یہاں کے ماحول میں خود کو ڈھال نہیں پا رہی تھی اس کی شکایت پر میں نے بچوں کو پیار سے سمجھایا اور اپنے تئیں مطمئن ہوگئی مگر ایک دن چھٹی میں اس بچی کی والدہ کا فون میرے پاس آیا کہ وہ بچی اس اسکول میں تو کیا اس ملک میں ہی نہیں رہنا چاہتی اس کی والدہ بھی پاکستان پڑھنے کی غرض سے ہی آیئں ہوئیں ہیں میرے لئے یہ کافی شرمندگی والے حالات تھے میں نے اس بچی سے فون پہ بات کی اسے کافی سمجھایا۔

دوسرے دن جماعت میں ایک جذباتی تقریر کی بچوں کو سمجھایا کہ ا پنے ملک، اسکول اور گھر کی عزت کیسے رکھنی چاہیے تاکہ کوئی ہمیں بر ا نہ کہے کوئی ہم سے پریشان یا تنگ نہ ہو۔

بچے تو بچے ہوتے ہیں سمجھانے کے بعد دوستیاں بنائیں ذمہ داری دی تو خوش ہوگئے ساتھ ہی ساتھ پرنسپل کی مدد سے بچوں کو اخلاقی درس دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

بحثیت معلمہ ہم سب کو چاہیے کہ اس طرح کی اخلاقی برائیوں کی سرزنش ضرور کریں۔

یہ ایک عام سی بات ہو چکی ہے او ر ہم بڑوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہورہا ہے کہ ہمارے بچے کس ڈگر پر چل نکلے ہیں کسی کی شخصیت کو جانوروں سے تشبیہ دے کر اس کا نام رکھ دینا، ارے وہ جس کی مینڈک جیسی آنکھ ہے، ارے وہ کالی، ٹھگنی، ارے وہ گول گپا، اسے دیکھا ہے کتنی دبلی ہے بالکل چھپکلی لگتی ہے، ہا ں وہ بھینگی؟ اس طرح اگر آپ کسی کی شخصیت کو مسخ کریں گیں و ہ بھی اپنی اولاد کے سامنے تو وہ کیا سیکھے گا؟ یہ الفاظ ہو سکتا ہے کہ کبھی غصے میں یا کبھی مذاق میں نکل بھی جائیں تو سوچیں یہ زہر سامنے والے کے لئے ایک سلو پوائزن سے کم نہیں۔

اکثر یہ دیکھا گیا ہے جو بچے جیت جاتے ہیں کسی بھی کھیل میں وہ ہارنے والے بچے کا بے انتہا مذاق اڑاتے ہیں ان کو اتنا زچ کرتے ہیں کہ ان میں سے کچھ بچے تو دل برداشتہ ہو کر رونے ہی لگتے ہیں۔ نہ جیتنے والے بچے میں ظرف ہوتا ہے کہ ہارنے والے کو گلے لگائے نہ ہارنے والے کے پاس اتنا حوصلہ ہوتا ہے کہ اپنی ہار کو قبول کر کے جیتنے والے کو مبارک دیں۔ کیوں کہ ہم اپنے بچوں کو ہار کا مزہ ہی چکھنے نہیں دیتے ہم انہیں یہ احساس ہی نہیں ہونے دیتے کہ جب ہارتے ہیں تو کیا تکلیف ہوتی ہے اور اس وقت ہمارا برتاؤ کیا ہونا چاہیے اسی میں ہمارے بچے جیت کی سچی خوشی سے آشنا ہی نہیں ہو پاتے۔

یہ تو کھیل کا میدان ہے ہمارے بچے تو وہاں بھی انا کا مسئلہ ٔ بنا لیتے ہیں جب دوست کے نمبر زیادہ آجائیں۔ ا و ر فیل ہونے والے بچوں سے تو ہمارے یہ قابل بچے بات بھی کرنا پسند نہیں کرتے۔ ایک بچے کو یہ کہہ دینا کہ ارے یہ تو پھر فیل ہوگیا ہے اس بچے کی دوسری تمام صلاحیتوں کو زنگ لگانے کے مترادف ہے ہمارے اسکولوں میں جو رزلٹ کے نام پر بینکوئٹ میں تقریبات ہوتی ہیں یہ اول دوم اور سوم آنے والوں کے لئے تو شاید بہت شاندار ہوں مگر ذرا سوچیں جو بچے فیل ہوتے ہوں گیں یا جن کے کم نمبر آتے ہوں گے ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی۔

جماعت میں اگر کوئی بچہ غلط جواب دیتا ہے تو دوسر ا بچہ اس پر ہنس رہا ہوتا ہے وہ بچہ جو کبھی بہ مشکل ہی کھڑا ہو ا ہے بھری جماعت میں ایسے بچے کے غلط جواب پر بھی معلم یا معلمہ کا رویہ حوصلہ افزا ہونا چاہیے نہ کہ اس کو بر ا کہا جائے مگر میں نے اپنے ان دس سالہ تدریسی دور میں دیکھا ہے کہ جماعت کے بچے ہی اس کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔

بحیثت معلمہ میری یہ کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کو غلط اور بے موقع ہنسنے نہ دوں انہیں اس بات کا احساس دلاؤں کون سی بات ہنسنے کی ہے اور کون سی نہیں۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم بڑوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئیں ہیں ہم صرف بچوں کو اعلی تعلیم، اچھی ٹیوشن اور اچھا اسکول دے کر مطمئن نہیں ہو سکتے بلکہ اب ہمیں ان کی تربیت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے بچے ہنسیں مگر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہمیں اپنے بچوں کو ہنسنا سیکھا نا ہے وہ بھی دل سے تاکہ بچے زندہ دل کہلائیں۔

یہ ننھے ننھے پھول جنہیں ابھی اپنے ساتھیوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور ننھی ننھی پریشانیاں بانٹنی ہیں وہ اپنے دلوں کو مردہ ہنسی کے ساتھ زندگی دے رہے ہیں جبھی تو ان کے پھول سے چہرے مرجھا رہے ہیں۔

اپنے بچوں کو ہنسنا سکھائیں مگر دوسروں پہ نہیں۔

ثمینہ صابر
Latest posts by ثمینہ صابر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments