ایک دن انقلاب کے ساتھ


سندھی سے ترجمہ : مدثر بھار

ہم ساتھی مٹھو مہیری اور نصیر نہڑیو کی سنگت میں کامریڈ احمد خان لغاری کے پاؤں چھونے گوٹھ داد جروار پہنچے۔ یہ قتل گاہوں کے در تک جانے اور پھانسی گھاٹ کے رسے پر جھولنے والے سندھ قافلے کے ایک اہم انقلابی کے درشن کا وقت تھا۔ ہم نے ایک دوست کی معرفت ملاقات کا وقت حاصل کر لیا تھا۔ ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے وہ ایک چھپر کے نیچے چارپائیاں اور چادریں تکیے لگا کر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ہمیں گلے ملتے ہوئے عمر رسیدگی اور نقاہت کے باوجود کامریڈ کی گرم جوشی دیدنی تھی۔

تنہائی پہاڑ جیسے مردوں کو کھا جاتی ہے لیکن جب کامریڈ احمد خان لغاری سے ملے تو کھلا کہ شاہ لطیف بھٹائی نے یہ مصرع کامریڈ احمد خان جیسے حوصلہ مندوں کے لئے لکھا ہے۔

” تنکے تو اڑ جاتے ہیں، لیکن پتھر اپنی جگہ پر قائم رہتے ہیں“

ان کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی ہے لیکن وہ آج بھی پر امید ہیں کہ انقلاب آ کے رہے گا اور ہم انقلاب کو دیکھیں گے۔ کسی کو امید کا چہرہ دیکھنا ہوتو وہ گوٹھ داد جروار کے کامریڈ احمد خان لغاری سے مل لے۔ جہاں امید بھی پر امید ہوجاتی ہے۔ وہ خود کہتے ہیں ”دکھ اور آنسو ہمیشہ سے ہمارے ساتھ ہیں لیکن ہم نے انہیں خوش مزاجی میں ڈھال دیا ہے“

کامریڈ کہنے لگے ”ساتھی! ایک آنکھ پیسے دے کر نکلوائی اور دوسری ڈاکٹر نے مفت میں نکال دی“

کامریڈ احمد خان کے دل پر لکھے ہیں ان کامریڈوں کے نام جنہوں نے جیل کاٹی یا پھانسی کے تختے پر جھول گئے۔ وہ تمام ساتھی جو ٹکٹکی ہر چڑھتے ہوئے ریاستی افسر کو گھورتے ہیں، ساتھیوں کو یاد کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکے اور پھر ایک قہقہے میں انہوں نے جیون کو امر کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری کارندے ہمیں کہتے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو لیکن ہم انہیں گھورتے اور اونچا بولتے۔ مٹھو مہیری اور کامریڈ احمد خان نے مل کر ان دنوں کا انقلابی گیت گایا اور جوش سے کامریڈ احمد خان نے مکہ ہوا میں لہرایا اور نعرہ لگایا ”انقلاب زندہ باد“ مزدور، محنت کش اور ہنرمند سندھ کی بستیوں اور قصبوں میں کامریڈ احمد خان جیسے لوک انسانوں میں آزادی اور بیداری کی امید جگاتے ہیں۔ اس سارے سفر میں کوئی شے ان کے من کو موہ سکی اور نہ ہی بھوک کی وجہ سے ان کے دامن پر کوئی داغ لگا۔

کامریڈ احمد خان وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ریاست کے اندر ہاری ریاست قائم کی تھی۔ انہوں نے یحیی خان کے مارشل لاء کے دنوں میں چمبڑ میں ہاری عدالت قائم کی جس کے وہ خود جج تھے۔ یہ ہاری عدالت ایک شامیانے کے نیچے قائم کی گئی تھی۔ جس میں ہاری اپنی فریاد داخل کرتا تھا اور زمینداروں کو اس عدالت کی طرف سے حاضری کے لئے باقاعدہ نوٹس بھجوایا جاتا۔ ان نوٹسوں کی پولیس تعمیل کرواتی تھی۔ میں نے پوچھا کیا پولیس آپ کی عدالت کے نوٹس لے جاتی تھی؟

وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے ہاں ساتھی! سپاہی بھی تو ہمارے ساتھی ہوا کرتے تھے۔ دوسری بات ہم ان دنوں بہت منظم اور متحرک بھی تھے۔ علاقے کے بڑے بڑے زمیندار اور جاگیردار اپنی فصل کی بٹائی کے حساب کتاب کے کھاتے اٹھا کر ہماری ہاری عدالت میں پیش ہوتے تھے۔ اس زمانے میں چمبڑ اور آس پاس کے علاقوں میں کامریڈ احمد خان لغاری ہاریوں کے یقین اور حوصلے کی علامت تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان دنوں ہم سب ایک دوسرے کی پریت میں جیتے تھے۔

ہم اگر آج بھی ان بستیوں میں جاتے ہیں تو ہمارا مان اور احترام اسی طرح سے ہوتا ہے۔ جدوجہد کے دنوں ہاری زمینداروں کا کام چھوڑ کر کامریڈ احمد خان کی طرف پہنچ جاتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب زمین دار ہاریوں کو انسان نہیں سمجھتے تھے۔ ہاری زمیندار کے سامنے چارپائی پر نہیں بیٹھ سکتا تھا اور اپنی فصل کی بٹائی کا حساب کتاب بھی نہیں مانگ سکتا تھا۔ اس زمانے میں یہ زمینداروں کے خلاف بڑی بغاوت اور سول نافرمانی تھی۔

اس زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو نے اس علاقے میں تین مرتبہ جلسے کیے اور جلسوں میں وعدہ کیا کہ وہ اقتدار میں آکر بڑی زمینداریوں اور جاگیرداریوں کو توڑ دے گا اور اس نے ایسا کیا بھی سہی لیکن اس اچھے عمل کو پارٹی کے جاگیرداروں اور کمداروں نے گٹھ جوڑ کے ذریعے ناکام بنا دیا۔ کامریڈ کہنے لگے کہ بہرحال ساتھی! ہاری ایک دن ضرور آزادی حاصل کر لیں گے اور اپنا حق پا لیں گے۔

میں آج بھی ساتھیوں کو بتاتا ہوں کہ میرے پاس کتاب میں اپنے ساتھیوں کے نام اور ان کے گوٹھوں کے نام لکھے ہیں۔ آپ لوگ مجھ سے یہ کتاب لے لیں اور سندھ بھر میں نکلیں اور اپنی بات لوگوں تک پہنچائیں۔ ان کو غلامی کا احساس دلائیں لوگ ضرور اٹھیں گے، ساتھی! انقلاب ضرور آئے گا۔ کامریڈ احمد خان نے جیسے گفتگو ختم کی تو وہاں موجود ساتھیوں نے تالیاں بجائیں تو کامریڈ مسکرائے۔ کامریڈ کو کسی نے بتایا کہ آج کے سندھ کے انقلابی، وڈیروں کی گاڑیوں کی اگلی نشستوں پر براجمان ہوتے ہیں۔ وہ بہت بارسوخ ہیں لیکن یہ رسوخ ان کو آزادی کے بدلے میں دیا گیا ہے۔

یہ رسوخ ان کو لگام ڈالنے کے لیے بخشا گیا ہے۔ یہ خودساختہ انقلابی خوش حالی کے دلدادہ ہیں اور لوگوں کو غربت کا طعنہ دیتے ہیں۔ بلند حوصلہ کامریڈ یہ باتیں سن کر چپ رہے اور کہا ”مجھے آپ لوگوں کی آمد کا پتہ ہوتا تو میں حیدرآباد سے اپنے بیٹوں کو بلوا لیتا اور آپ لوگوں سے ملواتا۔ آپ لوگ ان سے مل کر خوش ہوتے۔ میں نے انہیں انقلابی بنایا ہے، ایک تو انقلابی شاعری بھی کرتا ہے۔“

ساتھی! ابھی ہم مایوس نہیں ہوئے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کے نعرے ”روٹی، کپڑا اور مکان“ نے وقتی طور پر ہمارا نقصان کیا تھا۔ دوسرا نقصان ان پارٹیوں نے کیا جنہوں نے اپنی پارٹیوں میں ہاری تنظیمیں کھڑی کر لیں۔ جس کی وجہ سے ہاریوں کی منظم اور متحرک قوت تقسیم ہوگئی۔ یہ خودساختہ انقلابی رہنما بظاہر تو انقلابی ہیں لیکن اصل میں یہ ریاست کی طرف سے ایک بند ہیں۔ جیسے سیلاب سے بچاؤ کے لئے بند بنایا جاتا ہے۔ ایسا ہی بند ہیں یہ انقلابی انقلاب کے لئے۔ ہم ریاست کا بند تو توڑ چکے ہیں۔ ان اپنوں کا بند نہیں توڑ پائے۔ لیکن ہم مایوس نہیں ہیں۔ ساتھی! ہم آج بھی سرگرم ہیں۔ گھوٹکی، ڈھرکی اور لاڑکانہ جہاں کہیں ساتھی موجود ہیں وہیں کام کر رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ اس انقلابی کا دل نہ ٹوٹ جائے ورنہ کسے خبر نہیں کہ آج سندھ کہاں کھڑا ہے۔

2 سال تک چمبڑ میں ہاری عدالت قائم رہی۔ اگر کوئی زمیندار ہاری عدالت میں آنے سے انکاری ہوتا، بٹائی کے حساب کتاب کرنے سے گریز کرتا تو کامریڈ احمد خان اور ساتھی اس کی فصلوں تک رسائی حاصل کرلیتے اور زمیندار زمینوں سے فصل نہیں اٹھا سکتا تھا جب تک کہ حساب کتاب نہ ہوجاتا۔ ہماری محفل میں ایسے کئی لوگ موجود تھے جن کو بٹائی کے حساب کتاب کے بعد لاکھوں روپے زمینداروں سے کامریڈ احمد خان نے وصول کر کے دیے۔ یہ سالہا سال کا حساب ہوتا تھا اور اس بچت سے ہاریوں کو زمینیں لے کر دیں۔

ان زمینوں پر آج بھی یہ لوگ بستیاں بنا کر آباد ہیں۔ کامریڈ احمد خان نے ان ہاریوں کو زمینیں لے کر دیں اور اپنی زمین کا ٹکڑا بیچ دیا اس امید پر کہ انقلاب آیا ہی چاہتا ہے۔ ہاریوں کی منظم جدوجہد کے سامنے ہارے ہوئے مقامی زمیندار وڈیرے شاہنواز جونیجو کو لے آئے کہ کسی طور ان ہاریوں کی جدوجہد کا زور توڑا جائے۔ مقامی زمیندار وڈیرا نصیر خان مندرانی نے اس سلسلے میں ایک کھال کی پوری زمین شاہ نواز جونیجو کو دے دی۔

ہاری عدالت میں ہاریوں نے شاہ نواز جونیجو کے خلاف کیس داخل کرایا۔ کامریڈ احمد خان وقت مقرر پر عدالت کے مقام پر پہنچ گیا۔ تو وہاں ایک چارپائی رکھی تھی۔ کامریڈ سیدھا جا کر اس چارپائی پر بیٹھ گیا کمدار بولا کہ یہ چارپائی تو وڈیرے کے لئے رکھی ہے۔ کامریڈ احمد خان نے کہا کہ وڈیرے سے کہتے کہ زیادہ چارپائیاں بچھواتا۔ ایک چارپائی نہ رکھواتا۔ یہ نفسیاتی حملہ تھا جو کامریڈ نے کیا اور اس بات کو وڈیرا شاہ نواز جونیجو نے تسلیم کیا۔

پھر اس نے سب کے لئے قالین بچھانے کا کہ دیا۔ بہرحال کامریڈ کے سامنے وڈیرا شاہ نواز جونیجو بھی بٹائی کا حساب کتاب لے کر حاضر ہوا اور کامریڈ نے ہاریوں کو اپنا حصہ لے کر دیا۔ کامریڈ نے بتایا کہ بعد میں وڈیرا کے بھائی غلام رسول جونیجو نے مجھ پر حملہ کروایا۔ ایسے ہی دو حملے مزید بھی مجھ پر ہوئے۔ کامریڈ چمبڑ اور آس پاس کے علاقوں میں ایک دیومالائی کردار بن چکا ہے۔ بد نصیبی یہ ہے کہ جب ان کی جدوجہد کا میدان سجا لیکن وہ اپنی جدوجہد کے ثمرات نہ دیکھ سکے۔ وہ اور ان کے ساتھی جیل کاٹتے اور کوڑے کھاتے رہے لیکن گمنام ہی رہے۔ ان کے پاس مشہور ہونے کا ہنر نہیں تھا۔ ان کے ساتھی جیل کاٹتے اور در در دھکے کھاتے رہے اور آس پاس کے کچھ لوگ بغیر کسی کام کے ہیرو بن بیٹھے۔

واپسی سفر کے دوران مٹھو مہیری کہنے لگا کہ ہم کامریڈ احمد خان کو کیسے بتائیں کہ ہم سب اس تالاب میں ڈوب گئے ہیں اور آج کا دور پہلے دور سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔ کیا ممکن ہے کہ بازار میں موجود جھوٹے ہیروز کو ایک طرف ہٹا کر شعوری آنکھیں کھولتے ہوئے لوگوں کو گوٹھ داد جروار لایا جائے اور سندھ کے عظیم ہیرو کے پاؤں چھوئے جائیں اور معافی مانگی جائے کہ ان کی جدوجہد کو بھلا دیا گیا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے ہم س اس نابینا ہیرو کے پاس جائیں اور اسے اس کی آنکھیں لوٹا دیں۔

وہ نابینا ہیرو جو کل کی طرح آج بھی پرامید ہے کہ انقلاب ضرور آئے گا۔ آئیے کہ ہم ایک شام گوٹھ داد جروار جائیں اور اپنے گناہ دھو لیں۔ اس طرح کامریڈ احمد خان کی تنہائی کی پرچھائیاں ختم کر سکیں۔ وہ آدمی جس کی زندگی وڈیروں کی بندگی کرنے کی بجائے ان سے لڑائی لڑتے گزری، کچھ عمر جیلوں کی نذر ہوئی اور کچھ انقلاب کے لئے پیدل چلتے چلتے بیت گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments