سندھ حکومت اور میڈیا



مٹھی تھر پارکر سندھ کا اک دور پار کا علاقہ ہے وہاں کے مقامی صحافیوں کو مین سٹریم میڈیا پہ آنے کا موقع صرف انتخابات کے مواقع پہ ملتا تھا۔ اک دن اک نیوز چینل پہ غذائی قلت کے شکار بچے کی رپورٹ کیا چلی۔ میڈیا کو اک ہاٹ ٹاپک اور مقامی صحافیوں کو مین سٹریم میڈیا پہ ’ان‘ رہنے کا نسخہ کیمیا ہاتھ لگ گیا۔

عوام یہ جانے بغیر کہ میلنیوٹریشن کیا چیز ہے کیوں ہوتی ہے پاکستان میں کن کن علاقوں میں پائی جاتی ہے سندھ حکومت کے خلاف بولنا شروع ہو جاتے ہیں۔ راقم نہ صرف نیوٹریشنسٹ ہے بلکہ چار سال سے زائد یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او کے غذائی کمی کے شکار بچوں کے پروجیکٹ پہ کام کر چکا ہے۔ یہ غذائی قلت عموماً دو طرح کی ہوتی ہے۔ اک میں جسم سوکھ کر کانٹا بن جاتا ہے جبکہ دوسری قسم میں بچے کا جسم سوج جاتا ہے۔ پانچ ماہ سے لے کر انسٹھ ماہ (پانچ سال) تک کے بچوں کو قابل علاج سمجھا جاتا ہے اس کے اوپر والوں کرانک میلنیوٹریشن میں شمار کیا جاتا ہے جس کا علاج عمومی طور پہ ممکن نہیں۔

پانچ سال تک کے بچوں میں اس بیماری کی دو سٹیجز ہوتی ہیں اور دونوں کے لیے طریقہ علاج بھی مختلف ہوتا ہے۔ شدید قسم کی غذائی قلت (OTP) کے شکار شیر خوار بچوں کو F 75 اور F 100 دودھ کے ساتھ اس کی والدہ کو مخصوص قسم کا آٹا اور گھی بھی دیا جاتا ہے۔ اگر ان بچوں کو مزید طبی پیچیدگیاں جیسے دست بخار ہیضہ قے وغیرہ ہوں تو ان کو ایڈمٹ کر کے پہلے پیچیدگی دور کی جاتی ہے اور پھر اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ کم شدید غذائی قلت میں بچوں کو بھرپور غذائیت والے بسکٹ اور پلمپی نٹس نامی چاکلیٹس کھلانے کو دی جاتی ہیں۔ یونیسیف کی تیار کردہ پلمپی نٹس (PlumpyNuts) جس میں بھرپور غذائیت ہوتی ہے کی تیاری میں پھلیاں سبزیوں کا آئل میٹھا وغیرہ شامل کیا جاتا ہے۔ یہ پلمپی نٹس دو قسم کے ہوتے ہیں OTP اور SFP دونوں کے لیے مختلف چاکلیٹس دی جاتی ہیں۔

غذائی قلت کے شکار بچوں کی اک مخصوص ٹیپ (Muac) کے ذریعے بچے بازو پہ لپیٹ کر تشخیص کی جاتی ہے ‍‍۔ MSF France جسے دنیا ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے نام سے جانتی ہے کے ساتھ مل کر ہم نے مظفرگڑھ (پنجاب) کے میرے شہر کوٹ ادو کے دو کلومیٹر کے احاطے میں رینڈملی سروے کیا اور اک ہزار بچوں میں سے چار سو سے زائد بچے غذائی قلت کے شکار نکلے۔ اسی طرح خود میری ٹیم نے مظفرگڑھ کے تین مراکز صحت رنگپور، چک فرازی اور ML 133 میں اک سال کے دوران غذائی قلت کے 3300 سے زائد بچوں کا علاج کیا۔ مظفرگڑھ کے تیس کے قریب مراکز صحت پہ دس ہزار سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار تھے۔ مظفرگڑھ کے بعد ہم نے کئی سال راجن پور میں کام کیا اور وہاں بھی یہ تعداد ہزاروں میں تھی۔

اگر آپ یونیسیف، ڈبلیو ایچ او اور سیو دی چلڈرن کا ڈیٹا اٹھا کر دیکھیں تو سندھ سے زیادہ غذائی قلت کے شکار بچے کے پی اور پنجاب میں ہیں۔ کیونکہ سندھ میں عرصہ دس سال سے غذائی قلت کے خلاف کام ہو رہا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے بعد بلاول بھٹو نے تھر پہ خصوصی توجہ دی۔ آج کا تھر سرائیکی وسیب کے اضلاع مظفرگڑھ راجن پور اور ڈی جی خان سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ تھر میں واٹر پلانٹس سڑکیں ہسپتال حتیٰ کہ ائیرپورٹ تک بنا دیا گیا ہے۔ بلاول آئے روز مٹھی تھر پارکر میں ہوتے ہیں۔ تھر کے مکینوں سے اس کا ذاتی تعلق بن چکا ہے۔ چونکہ بلاول کے دوروں اور تھر کے منصوبوں میں مصالحہ نہیں ہے اس لیے میڈیا ہر دوسرے دن پرانی فوٹیج چلا کر غذائی قلت کے شکار بچوں کو مار رہا ہوتا ہے۔

پچھلے دنوں اے آر وائی کے رپورٹرز کو دیے جانے والے احکامات کو لے کر پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے تحفظات کا اظہار کیا کیا کہ آج سندھ حکومت زیر عتاب ہے۔ اگر مازکورہ چینل پورے ملک کے لیے یہ سرکلر جاری کرتا تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے مگر جب آپ اک مخصوص صوبے کو ٹارگٹ کریں گے تو آپ کی غیر جانبداری سچائی اور ایجنڈے پہ سوال تو اٹھیں گے۔ سندھ میں صحت کی سہولیات کی اک دنیا معترف ہے پنجاب سے علاج کی غرض سے سندھ جانے والے دوست بتاتے ہیں کہ کس طرح اک روپیہ خرچ کیے بغیر کینسر سے لے کر جگر کی پیوندکاری تک کے آپریشن ہو رہے ہیں۔

جبکہ پنجاب کے مراکز صحت کسی کو نظر نہیں آتے۔ ینگ ڈاکٹرز چیخ چیخ کر تھک گئے مگر مجال ہے میڈیا کے کان پہ جوں رینگی ہو۔ Merlin UK میں کام کرتے ہوئے ہم نے مظفرگڑھ کے 33 بنیادی مراکز صحت کو نیا فرنیچر ادویات سے بھری ہوئی فارمیسی لاکھوں روپے مالیت کا جرنیٹر صاف پانی کے لیے واٹر ڈسپنسر کچھ مراکز پہ ایکوئپڈ ایمبولینسز لیبر روم کا تمام سامان مہیا کیا تھا۔ صرف چند ماہ میں وہ سارا سامان پراسرار طور پہ مراکز صحت سے غائب ہو گیا راقم نے اک قومی روزنامے میں اس بابت کالم لکھ کر حکام بالا کی توجہ بھی مبذول کرائی تھی مگر آج بھی راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔

آج کل سندھ کے اک بچے کی موت کو کیش کرایا جا رہا ہے۔ ریبیز کے شکار اک بچے کی موت ہو گئی سارا میڈیا لٹھ لے کر سندھ حکومت پہ چڑھ دوڑا حالانکہ طب کا تھوڑا سا بھی تجربہ رکھنے والا بندہ بتا سکتا ہے کہ ویکسین تب تک موثر ہوتی ہے جب تک بیماری کے جرثومے ایکٹو نہ ہو جائیں۔ بچے کی دردناک موت کا دکھ اپنی جگہ مگر جب بچے کو ہسپتال لایا گیا تب وہ ریبیز نامی بیماری میں مبتلا ہو چکا تھا۔ بچے کو پھر بھی احتیاطاً ویکسین لگائی گئی۔

مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔ کتے کے کاٹے کی ویکسین سندھ کے ہر سرکاری ہسپتال میں قلیل تعداد میں ہی سہی مگر موجود ہے۔ اب یہاں پنجاب کی بھی سن لیں پچھلے اک سال سے سرکاری ہسپتال تو دور پرائیویٹ بھی یہ ویکسین نہیں مل رہی۔ کچھ عرصہ قبل ہمیں اک ویکسین کے لیے کوٹ ادو سے ڈی جی خان اور ڈی جی خان سے ملتان کا سینکڑوں کلومیٹر کا سفر کرنا پڑا۔ بڑی تگ و دو اور سفارشیں لڑوانے کے بعد ویروریب نامی انجکشن آٹھ ہزار روپے کا ملا۔ کیا میڈیا نے کبھی یہ خبر چلائی ہے جواب آپ سب کو معلوم ہے۔

سندھ حکومت کو سبق سکھانے کے لیے چند اینکرز نے روجھان (پنجاب) کے اک بچے کی ٹوبے (تالاب) سے پانی پینے کی تصویر اٹھا کر ٹویٹ کر دی کہ یہ تھر کی حالت ہے۔ پھر جب اصلیت سامنے آئی تو یہ بتائے بغیر کہ بچہ کہاں کا ہے ٹویٹ ڈیلیٹ کر کے معافی مانگ لی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سندھ حکومت فرشتوں پہ مشتمل ہے اور سندھ میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں مگر ہمارا میڈیا جان بوجھ کر سندھ حکومت کو ٹارگٹ کرتا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں۔

میں اس تحریر کے توسط سے حکومتوں کو جوابدہ کرنے والے حوالدار اینکرز اور زسندھ میں مشن سونپ کر ڈھونڈ ڈھونڈ کر مسائیل بتانے والے میڈیا سے گزارش کروں گا کہ حضور اک نظر ادھر بھی۔ کبھی سرائیکی وسیب بلوچستان میں نظر کرم کر کے تو دیکھیے سندھ آپ کو پیرس محسوس ہونے لگے گا۔

رضوان ظفر گورمانی
تصاویر :
1 : لیہ کے اک سکول میں سوئمنگ کلاسز کا اجرا


2:بلوچستان کے اک سکول میں سردیوں میں بچے کھلے آسمان تلے حصول علم میں مگن3:کے پی کے اک سکول کا منظر


4:ٹرائبل ایریا کا مستقبل


5:تونسہ اور روجھان میں انسان اور جانور اک تالاب سے پانی پیتے ہیں


6:لیہ کا اک معصوم بچہ جو کتے کے کاٹنے کی وجہ سے آج کل ڈی ایچ کیو لیہ میں داخل ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments