ہم قومی مفاد میں ایک کیوں نہیں ہو پاتے؟


کسی بھی قوم کی سوچ میں یکسانیت کے لیے اس قوم کا یکساں نظام تعلیم ہونا ضروری ہے۔ قوم کی فکری بنیادیں نظام تعلیم سے ہی مضبوط ہوتی ہیں۔ جس قم کا نظام تعلیم یکساں ہوتا ہے اس قوم کے فیصلے بھی مشترکہ مفاد کے تحت کیے جاتے ہیں اور پوری قوم ان فیصلوں پر لبیک کہتی ہے اور جن اقوام کا نظام تعلیم طبقات میں منقسم ہوتا ہے، وہاں تو پہلے فکری اعتبار سے کوئی قوم تشکیل ہی نہیں پاتی اور جب ایسے ممالک میں قومی مفاد کی خاطر کسی قسم کا کوئی فیصلہ کیا جاتا ہے تو وہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں جو عموماً قومی مفاد کے حق میں نہیں ہوتی۔ ہم بھی بحیثیت قوم کبھی ایک فیصلے پر متفق نہیں ہوتے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ کسی قوم کی کردار سازی اور ذہن سازی میں اس کے یکساں نظام تعلیم کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تین طرح کے نظام تعلیم رائج ہونے کی وجہ سے ہم کسی ایک نکتے پر اتفاق نہیں کر پاتے۔ ہمارے نظام تعلیم کا ڈھانچہ، انگلش میڈیم اردو میڈیم اور مدارس کے نظام تعلم کے بل بوتے پر استوار ہے۔ ان تینوں نظام کا مزاج، ماحول، دائرہ کار، سوچنے اور پرکھنے کا انداز مختلف ہے یہ تینوں طرح کے نظام تین طرح کے طبقات کو جنم دے رہے ہہے۔

ہماری اشرافیہ کے بچوں کے لیے ہمارے ہاں انگلش میڈیم طریقہ تعلیم رائج ہے، ان کے لیے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم آکسفورڈ اور کیمبرج سے درآمد کیا جاتا ہے ، ایک خاص کیپسول کے ماحول میں انہیں رکھا جاتا ہے، انہیں مڈل کلاس اور لوئر کلاس کی مخلوق کی ہوا تک لگنے نہیں دی جاتی، ان کو اردو سے دور اور انگلش سے قریب لانے کے لیے ہی باقاعدہ منافع بخش تعلیمی صنعت وجود میں آئی ہے جس سے کھربوں روپیہ سالانہ کمایا جاتا ہے ان کے نصاب درآمد شدہ ہوتے ہیں لہذا انہیں اس مٹی کی اقدار، روایات، احساسات، جذبات اور خیالات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔

میں نے اولیول، اور اے لیول اردو کا نصاب دیکھا پے جو کسی مذاق سے کم نہیں محض ایک سو پچاس الفاظ میں ایک مضمون ”درخت ہمارے دوست ہیں“ لکھنے پر پندرہ نمبر اورایک معمولی سا دوسو الفاظ پر مشتمل خط لکھنے پر بیس نمبر ہاتھ آ جاتے ہیں۔ اس پر بھی کئی طرح کی اغلاط سے پر رنگ برنگے خلاصے مارکیٹ میں انتہائی مہنگے داموں بک رہے ہیں جن کے معیار اور قیمت کو جانچنے کے لیے کوئی نظام وضع نہیں کیا گیا ہے۔ ان میں ادب نام کی کوئی چیز شامل نہ ہونے کی وجہ سے ہماری نئی نسل احساسات وجذبات سے بالکل عاری ہے کیونکہ ادب لاشعوری طور پر ہماری خوابیدہ حسیات کو بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کرتاہے اچھے برے میں فرق بتاتا ہے۔

بڑوں سے ادب اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنے کے لیے مذہب کے بعد ادب ہی ہے جو ہمیں احساس دلاتا ہے۔ اس طرح کے نصاب سے پاکستان میں اردو کا مستقبل بھی خطرے میں ہے۔ اکثر میں نے دیکھا ہے کہ اشرافیہ کے بچوں کا اردو میں اچھا گریڈ آ جائے تو وہ اسے اپنے رتبے کے منافی سمجھتے ہیں حالانکہ اردو ہی پاکستان میں وہ واحد ذریعہ ہے جو ہمیں ہر طرح کی صوبائی عصبیت سے نکال کر ایک قومی نکتے پر مجتمع کرسکتی ہے۔ لیکن حالیہ دو سال میں میڈیکل میں جانے کے لیے میرٹ بڑھنے سے او لیول اور اے لیول کے نظام کی خود بخود حوصلہ شکنی ہو رہی ہے اور سنجیدہ والدین اپنے بچوں کو ایف۔ ایس سی کی طرف لا رہے ہیں۔

اردو میڈیم اسکولوں یا سرکاری اسکولوں کا نظام، اس لیے تباہ ہوا کہ اس میں اشرافیہ کے بچے نہیں پڑھتے ہیں اس لیے ادارے عدم توجہی کا شکار ہوگئے ان کی مالی معاونت سے بھی ہاتھ پیچھے ہٹادیے گے اس کے نتیجے میں پرائیویٹ علم فروشی کے مختلف ادارے وجود میں آگئے جن کی ان اداروں کا پیٹ بھرنے کی استطاعت ہوتی ہے وہ وہاں چلے گئے باقی ان سرکاری اداروں کا خام مواد بنتے ہیں ان اداروں میں مختلف سیاسی تنظیموں کے کارندوں نے اپنے حیلے بہانوں سے ان طلبہ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے بطور خام مواد کے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ان کے دم سے ہی سیاست دانوں کے جلسوں جلوسوں کی رونق بڑھتی ہے، اور یہ مخلوق انگریزی میڈیم اداروں میں تعلیم پانے والوں کے کسی طور پربھی ہم پلہ ٹھہرنے کے لائق نہیں رہتے حالانکہ بیسویں صدی میں جتنے بھی بڑے لوگ پیدا ہوئے وہ انہیں سرکاری اداروں کے تعلیم یافتہ تھے اردو میڈیم جامعہ عثمانیہ کے لاکھوں فرزندان ملک اور بیرون ملک میں خدمات انجام دیتے رہے۔

راکیش شرما جیسا خلانورد، آئین اسٹائن کے ہم پلہ رضی الدین صدیقی جو جامعہ عثمانیہ کے علاوہ جامعہ کراچی کے بھی وائس چانسلر رہے ’ملک پاکستان سے اسلام کے پیغام کو عام کرنے والے شاہ بلیغ الدین‘ عالم اسلام کے عظیم سکالر ڈاکٹر حمید اللہ، جیسے دیگر کئی نامور لوگ اسی جامعہ کے فارغ التحصیل ہیں جنہوں نے پاکستان کا دستوربھی لکھا۔ امریکہ، انگلینڈ اور دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔ لیکن اب سرکاری سکولوں کا نظام اتنا پست ہو چکا ہے کہ کوئی بھی سنجیدہ آدمی اپنے لخت جگر کو ان اداروں کے حوالے کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

سرکاری سکولوں اور کالجوں پر کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس نظام کی تباہی ہی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو آکسیجن فراہم کر رہی ہے اور علم فروشی کی صنعت ایک منافع بخش کاروبار بن گئی ہے اب ہر لولہ لنگڑا جسے اور کچھ کرنے کو نہیں ملتا گلی محلے میں سکول کھول کر بیٹھ گیا ہے اورقوم کی بربادی میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے المیہ یہ ہے کہ اس کے معیار کو جانچنے والا کوئی نہیں ہے۔

ہمارے مدارس کو اگرچہ جدید علوم سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ان میں زیادہ تر ایسے بچے ہیں جن کے والدین ان کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے انھیں ایسے ادارے کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ان کے بچے کو تعلیم، رہائش اور خوراک مفت میسر آجائے۔ یہ بچے بھی عصری علوم سے عدم واقفیت کی بنا پرپیچھے رہ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے فرقہ پرستی میں ملوث ہونے کا ہروقت احتمال رہتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم کے لیے قومی پالیسی تشکیل دی جائے جس میں تمام تعلیم فروش اداروں کا مکمل خاتمہ کر کے ایک جیسا یکساں کسی بھی میڈیم میں نظام تعلیم تشکیل دیا جائے، چاہے اولیول اے لیول کو ہی رائج کیا جائے یا سرکاری اور مدارس کے نظام کو لیکن اس قوم کے ہر بچے کا نظام تعلیم ایک ہوناضروری ہے تاکہ وہ اپنے ہی ملک میں رہتے ہوئے کسی طرح کے احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔ اس طرح یہاں ایک ہی طرح کی سوچ پروان چڑھ سکے گی۔

ہماری جب بھی کوئی قومی مفاد میں پالیسی تشکیل دی جاتی ہے نظام تعلیم یکساں نہ ہونے کی وجہ سے گروہ بندیوں کا شکار ہو جاتی ہے اور اختلاف کی نذر ہو کر دم توڑ دیتی ہے، اور ہم بحیثیت قوم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ جب ہمارا نظام تعلیم ایک ہو گا ہمارے تعلیمی اداروں سے ہر طرح کی سیاسی مداخلت ختم ہو جائے گی تو ہماری سوچ بھی ایک ہو گئی اور ہم دنیا میں ایک بہترین قوم کے طور پر اپنا لوہا منوانے میں کامیاب ہو سکیں گے۔

ہمارے پاس صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے بس اپنا ایک سیدھا رخ متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ قومیں فکری اعتبار سے اپنی نسلیں دوسروں کے حوالے نہیں کرتیں، کیونکہ انہیں علم ہے کہ دوسروں کے ”پر“ لے کر اڑنے والا زیادہ بلندی پر نہیں پہنچ سکتا۔ اسی لیے جاپان اور چین نے دنیا کے کئی ممالک سے اپنے تجارتی معاہدے کیے لیکن اپنے نظام تعلیم اور اپنی ثقافت پر کسی کی میلی نظر نہیں پڑنے دی۔ اسی لیے آج ان کی ہرقومی سوچ اور فیصلوں میں یکسانیت پائی جاتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments