راجا داہر، محمد بن قاسم، جاری بحث پر طنزیہ تحریر


” 1001 دن، داستان“ کوا جاتی

جنگل میں عدالت لگی ہوئی تھی۔ مخبر چوہوں نے شیر بادشاہ کو آگاہ کردیا تھا کہ کوا وہ واحد پرندہ ہے جو انسانوں میں جاکر ان کی منڈیروں پہ بیٹھا، بھانت بھانت کی خبریں ان انسانوں میں ”کائیں کائیں“ کر کے پہنچایا کرتا ہے، جو سیانے ہیں اسے بیٹھنے نہیں دیتے اور جو سیانے نہیں، وہ اس کی کائیں کائیں بڑی دھیان سے سنتے، آہیں بھرتے ہیں کہ ”کوئی وارد، نووارد ہوا“ ۔

شیر بادشاہ یہ سنکر آگ بگولہ ہوا سزائے موت تجویز ہوگئی کہ ”وارد، نووارد“ کا فلسفہ کسی کے پلے نہیں پڑ سکا۔ شیر بادشاہ نے اسے اپنے خلاف مخبری مان لیا۔ جلتی پہ تیلی کا کام مینا اور کوئل نے کردیا۔

”حضور یہ ہمارے انڈے کھانے کے لئے ہم کو گھونسلہ تک بنا کر دیتا ہے۔ اب ہم ٹھہری معصوم، آ جاتے ہیں ورغلانے میں“ ۔

شیر بادشاہ کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ اس کے پلے جو نہ پڑے وہی مخبری ہے۔ یوں کوا غدار۔ مجرم نکلا۔

کافر ہونے کی اصطلاح یہاں جنگل میں انسانوں کی دنیا کی طرح عام نہ تھی گو کہ چند ایک پرندوں نے ”کافر کافر“ کا شور مچایا، تاریخی حوالے دینا چاہے لیکن شیر بادشاہ کے سر پہ خون سوار تھا۔ کوے نے اپنی بساط میں آخری کوشش کی۔

”حضور جان تو سب کو دینی ہے جان لینے والا خدا نہ سہی آپ سہی۔ پر میں نے جو بھانت بھانت کے کشت اٹھائے تو عالم پناہ کے لئے اٹھائے۔ میری آخری التجا ہے حضور میری کہانی سنے بغیر کوئی فیصلہ نہ کیجیئے گا کہ انی پسند ائے تو اس نا چیز کی جان بخش دیجیئے گا اور جو ناپسند ہوئی تو بے شک دو بار سولی پہ لٹکائیں جو اف کروں“ ۔

بادشاہ نے کہانی سننے کی خواہش ظاہر کی، یوں کوے کے سیانے پن کی بدولت جنگل میں ایک ہزار ایک دن، داستان کا آغاز ہوا۔ کوا کچھ یوں گویا ہوا۔

”ایک ہزار سال میں جنگل جاتیوں میں کچھ نہیں ہوتا پر جو ہوتا ہے انسانوں کی بدولت ہوتا ہے۔ حضور یہ جانور جاتی نہیں ہیں پر کہتے ہیں کہ ان کے دماغوں میں کیڑے رہتے ہیں“ ۔

عدالت میں ”ہا“ کی آواز ابھری چہ مہ گوئیاں ہوئیں۔

شیر بادشاہ نے حکم دیا کہ سب جانور سانس روکے یہ کہانی سنیں اور کوا، بنا روکے ٹوکے مخاطب کیے، کہانی کہے۔

”ایک ہزار سال میں۔ انسانوں کی دنیا میں بہت کچھ ہوا۔
ترکی پلٹ گیا
ہندوستان پلٹ گیا
یورپ پلٹ گیا
لیکن۔ ۔ ۔
جب ترکی پلٹا تو ترقی پسند ترک، ترک ہی رہے۔
جب یورپ پلٹا تو یورپین، یورپین ہی تھے۔

جب ہندوستان پلٹا۔ تو ایک ہزار سال سے وہیں رہنے والے مسلمان۔ محمد بن قاسم کے بحری بیڑے سے اترے نووارد قرار پائے۔

نووارد بنانے والے خود ان کے چھ سو سال بعد وارد ہوکر تخت ہندوستان پہ تخت برطانیہ بنا کر بیٹھے۔ مخلص قرار پائے۔ محسن بنے۔ جنگجو صرف تھا تو محمد بن قاسم تھا۔ نووارد۔ بھی۔

انہی نوواردوں نے جونہی پاکستان بنایا تو جیسے ہی پاکستان بنا باقی چار ہندوستان سے الگ ہونے والے فوری ایک ہزار سال والے مسلمان ہو گئے۔ بنگلہ سے آئے ہوئے مسلمان پھر ایک ہزار سال پرانے اچھوت ہو گئے، دھتکارے گئے۔

جونہی ہزار سال والے مسلمانوں نے ہندوستان سے پاکستان میں قدم رکھا۔ یہ چار صوبوں والے پھر ہزار سال والے مسلمان ہوگئے اور آنے والے مسلمان، خودبخود ہندوستانی ہوگئے۔

ستر سالوں سے ان چار صوبوں میں چار صوبے والے اور باقی ہندوستانی بسے ہیں۔ پاکستانی کا کوئی پتہ نہیں، کیا ہوا کسی کو نہیں معلوم۔ اب مسلمان کون ہے؟ کون تھا؟ کتنا پرانا؟

اسی ضمن میں موجودہ مودی ہندوستان میں ایک پیش رفت ہوئی۔ یہ مسلمان ہزار سالہ پرانی تاریخ کے ساتھ، اب ہندوستانی نہیں رہے نووارد ہوچکے۔ جبکہ لاکھوں ٹھہرائے جانے والے نووارد۔ ہندوستانی نہیں۔ پوچھتے پھرتے ہیں کہ ہم کہاں سے وارد ہوئے تھے یہ تو بتاؤ۔

رہ گیا۔ مغربی خطہ۔ جو ابھی تک پاکستانی نہ بن سکا۔ جبکہ پاکستان کو بنے ہوئے صدی ہونے کو ہے۔ البتہ مسلمان ہے۔

کب کا؟ وارد یا نووارد۔ ہزار سال والا یا ہندوستانی وقت والا، برطانیہ والا یا پارٹیشن والا۔
تعین صرف ایک شوشہ کر دیتا ہے چاہے اندرونی فرقہ واریت کا شوشہ ہو یا بیرونی امداد و کفر کا۔

امداد خاموشی سے کھانے والی چیز ہے۔ فی سبیل اللہ کھا لی جاتی ہے البتہ کفر پہ غل غپاڑہ ہوتا ہے ایمان تازہ ہوتا ہے۔ تب یہ سارے ہندوستانی و صوبائی گیر ایک ہوکر مسلمان نکل پڑتے ہیں۔

پھر یاد اتا ہے پاکستانی بھی ہیں۔

پھر خیال اتا ہے محمد بن قاسم کے وقت میں بھی یہیں بستے تھے تو اس وقت میں پاکستانی کیوں نہ نکالا۔ اتنی بے غیرت قومیت جو اسلام کی برصغیر آمد سے خالی ہو، نہیں لیں گے سو پاکستانی۔ محمد بن قاسم کے وقت سے نکل آتا ہے۔

جیسے ہی محمد بن قاسم۔ پاکستانی کے ساتھ ہندوستان میں قدم رکھتا ہے راجہ داہر بھی وارد ہوتا ہے کہ اس سر زمین پر سارے ہی نووارد تھے ماسوائے راجہ داہر و فوج کے۔ جو ہندوستانی کبھی نہیں تھا۔ بس راجہ تھا۔ باقی اس کی رعیت۔ اور پاکستانی تو دور دور تک تھا ہی نہیں، برطانوی بھی نہیں تھا۔

ابھی رعیت اپنی قومیت نکال ہی رہی تھی کہ محمد بن قاسم پھر نکل ایا اور اب کی بار صوفیاء بھی لایا۔ اور باقی سارے ہندوستانی ہنستے مسکراتے صوفیاء اکرام کی بدولت پھر سے مسلمان قرار پائے جو ہندوستان میں بستے تھے اور کبھی راجا داہر کی رعیت نہیں تھے اور ان کا سپہ سالار محمد بن قاسم ہوتا تھا۔ کیونکہ وہ محمد بن قاسم کی بدولت مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ابھی ساری رعیت مشرف بہ اسلام ہو رہی تھی اور ممکن تھا کہ پاکستانی بھی ہوجاتی کہ ایک فرقہ واریت پر مبنی بات اچھالی گئی اور ساری ہمہ گیریت آن ہی آن میں چار صوبوں میں تقسیم ہوگئی۔

اس بار صوبائیت اپنے اپنے سپہ سالار نکال لائی۔ اب کے محمد بن قاسم اکیلا رہ گیا، وہ ہندوستانی ہوگیا۔ پاکستانیوں کو یہ گوارا نہ ہوا پھر محمد بن قاسم سندھ میں وارد ہوا اور سندھ ہندوستان کبھی نہیں ہوا۔ یوں محمد بن قاسم سیدھا پاکستانی ہوگیا۔ ہندوستانی نہ رہا۔ جو ہندوستانی، ہندوستان سے پاکستان کو چلے۔ چلے تو مسلمان تھے پہنچے تو ہندوستانی ہوگئے۔ انھوں نے کہا پاکستانی۔ جواب ملا نہ نہ ہم چار صوبوں کے بانی۔ یہاں نہ چلے گی تیری ہندوستانی کہ یہاں کبھی ہندوستانی نہیں تھے۔ صرف مسلمان تھے۔ یوں یہ پھر محمد بن قاسم سے جا ملے۔ جو ہندوستان آیا تھا۔ اور سندھ ہندوستان میں نہیں تھا بلکہ محمد بن قاسم کے آنے سے پہلے ہی مشرف بہ اسلام ہو کر عرب کی سلطنت سے جا ملا تھا۔ جہاں راجہ داہر کی حکومت تھی۔

پھر یہ پھر وہ۔ پھر محمد بن قاسم نووارد۔ ”
کوے نے کہانی ختم کی مرغے نے صبح صادق کی اطلاع دی۔
”ککڑوں کوں“
سارے جانور جاتی سانس روکے بادشاہ کے حکم کے منتظر تھے۔ شاید سب کو کہانی دلچسپ معلوم ہوئی تھی۔

بادشاہ نے فوری حکم دیا کہ کوے جاتی پر نظر رکھی جائے اس کی بھانت بھانت کی کہانیاں سنائے بغیر یہ کہیں نہ جائے گا۔

یوں کوے کی جان بخشی ہوئی۔
ایک ہزار ایک داستان کی ”کوا جاتی“ کہانی تو یہاں ختم ہوگئی۔
ایک ہزار سال پرانے مسلمانو!

نہیں ہندوستانیو۔ نہ نہ۔ راجا داہر کے وارث۔ نہ نہ۔ صوبائی گیر۔ ہندوستانی۔ ارے ہاں! انگریز کی باقیات! فرقہ واریت کے بانیو!

آؤ پرچار کریں۔
بیکار ہوئے حکومتی، خالصتا ہندوستانی، ایک ہزار ایک سال، کوے جاتیوں کی طرح کرتے پھریں۔ کائیں کائیں
جنگجو داستانیں۔ حملہ آور۔ کائیں کائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments