گمشدہ مامتا


محسوس ہوتا تھا کہ خوش گمانی کے پرندے میرے اردگرد پرواز کرتے ہیں کہ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وطن سے شدت پسندی، لاقانونیت کا خاتمہ قریب ہے، دیس کی مقید حدود میں علم کے تارے جگمگ نظر آتے، جب بھی کسی کالج یا یونیورسٹی کے سامنے سے گزرتی ہوں یا سوشل میڈیا پر عقل مند اور قابل نوجوانوں کا بہت اچھے انداز سے لکھا گیا کوئی مضمون پڑھتی ہوں، خوشی محسوس کرتی ہوں۔ لڑکیاں بھی سوچ رہی ہیں پڑھ رہی ہیں دور دراز کے علاقوں میں بھی تعلیم اور معاش کے لئے فعال ہیں۔ سوشل میڈیا پر سنجیدہ ہیں۔ ایک خوش کن اور روشن احساس، جو تقویت بخشتا۔

لیکن محبوس فضا میں موجود حبس اس وقت بڑھ گیا اور دم گھوٹنے لگا جب دنیا بھر میں وبا کا سیاہ بادل چھایا اور ہماری ریاست کے کرم فرماؤں نے وبا کو بھی مذہب سے متصادم کر دیا، وبا کو عورتوں کی بے حیائی سے ناپنے والے افراد ماؤں کے عالمی دن پر ماؤں کو خراج تحسین پیش کریں گے۔ ماں کی مامتا کو دنیا کے کسی ترازو میں نہیں تولا جا سکتا لیکن ہم نے مامتا کو بھی تولنے کے پیمانے بنا رکھے ہیں۔ باحیا اور بے حیا ماں، ماڈرن ماں، عورت مارچ کی حمایت کرنے والی ماں۔ عورت مارچ کی مخالفت کرنے والی ماں۔ چادر اوڑھنے والی ماں، عبایا پہننے والی ماں، ملک بھر میں کئی اقسام کی مائیں موجود ہیں جن کی مامتا کا صرف ایک درجہ ہے اور شہر کراچی ایسی ماؤں کی رہائش گاہ ہے جہاں مختلف زبانیں بولنے والی مائیں رہتی ہیں۔

پچھلے دنوں شہر کی کچھ ایسی ماؤں سے ملاقات ہوئی، جن کے بچے ملکی حالات کی نذر ہوئے، اور وہ اپنے بچوں کی جدائی کے دکھ میں مبتلا ہیں۔ ان ماؤں میں شہر کے لاپتہ و قتل کیے گئے سیا سی کارکنان کی مائیں۔ بلوچستان کے لاپتہ افراد کی مائیں، مسلکی بنیاد پر قتل کیے گئے افراد کی مائیں اور افغانستان کی وہ مائیں شامل تھیں جو بھیانک جنگ میں اپنے بچے کھو چکی ہیں۔ ملک کے شمالی علاقوں سے بے دخل کر دی جانے والی مائیں جو اپنے گھر اور علاقے کو یاد کر کے آبدیدہ تھیں اور ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے بچوں کے غم میں مامتا کے درد سے نڈھال تھیں۔ ماؤں کے مشترکہ غم سنتے سنتے ایک نظم صفحے پر اترتی گئی۔ کاش کہ ماں جیسی کہلائی جانے والی ریاست قوم کی ماؤں کی مامتا کا احساس کرے۔

گمشدہ ماں
میں نے تم کو محسوس کیا
اپنے احساسات میں
اپنے خیالات میں
اپنی خوشبو میں اور
اپنے بدن کے اندر
تمھارے ملائم ہاتھوں کی نرمی
میرے سینے پر سفر کرتی
میری بھیگتی مامتا تسکین پاتی تھی
تمھاری مسکراہٹ اور
تمھاری بے ضرر نگاہ سے
جو صرف مجھے تلاشتی تھی
اب میں تم کو تلاش کرتی ہوں
اپنے بستر کی شکنوں میں
اپنی خالی بانہوں میں
میں خود گم ہوچکی ہوں
اپنی خوابگاہ کی خاموشی میں
مصلحت کی چادر میں
گمشدہ مامتا
میں نے تم کو محسوس کیا
تمھارے اضطراب میں
تمھارے مضبوط ہاتھوں میں دبی کتاب میں
تمھارے نعرے میں
تم جوش میں
اپنی درس گاہ میں لگاتے تھے
اس تاریک راستے پر جہاں تم
حق کی راہ تلاشتے اور
علم کی مشعل روشن کی کوشش کرتے تھے
اب میں تم کو تلاش کرتی ہوں
تمھارے جسم کے جلے ہوئے داغوں میں
تمھاری ٹوٹی ہوئی انگلیوں میں
تمھارے اکھاڑے ہوئے ناخنوں میں
تمھاری نہ بند ہونے والی آنکھوں میں
تمھارے بریدہ بدن میں
جہل کی دہکتی مشعل میں
آسمان پر سلگتے آفتاب میں
زمین پر گل ہوتے چراغ میں
تمھاری تربت تک جانے کا راستہ
نفرت کے پہرے میں قید ہے
قیدی مامتا
میں نے تم کو محسوس کیا
اپنے ذہن کی اس روشنی میں
جو میرے دودھ سے تم تک منتقل ہوئی
تمھاری روشن سوچ سفر کرتی اور
تم کو علم کی پیاس میں دوڑاتی تھی
تمھارا ضمیر زندہ رکھتی تھی
اب میں تم کو تلاش کرتی ہوں
اس سواری میں جس کے مسافروں کی منزل گم ہو گئی تھی
کیونکہ ان کے شناختی نشان
اجنبیت کی عکاسی کرتے
زمین زادوں کی اس زمین میں
جہاں سب کرائے کے انسان تھے
ان کی اپنی شناخت گم ہو چکی تھی
مگر وہ مسافروں سے ان کی پہچان پوچھتے تھے
بارود برساتے تھے
تمھارے نشان زدہ وجود کو
میں نے پھر بھی پہچان لیا
اس تعویذ سے
جو تمھاری حفاظت کے لئے
میں نے تمھارے بازو پر باندھا تھا
میں نے تم کو محسوس کیا
اس حیا میں جو میرے خون سے تمھارے خون میں منتقل ہوئی
اپنی پاکیزگی میں
تم بھی پاک تھیں
مصفا پانی کی طرح
روشن چاندنی کی طرح
میں نے تم کو محسوس کیا
تمھاری کم سنی کی معصومیت میں
میں نے تمھاری اذیت کو محسوس کیا
کئی دن کی بربریت کے نچے جسم میں
تمھاری کٹی ہوئی زبان میں
تمھاری نازک بانہوں میں
جو توڑ دی تھیں
کسی وحشی نے وحشت میں
کسی بے حیا نے حیا کا پرچار کرتے ہوئے
تمھاری چھوٹی سی تربت
کرائے پر چڑھا دی
کرائے کے انصاف نے
کرائے کے خبر داروں نے
کرائے کے دین داروں نے
کرائے کے اندھے قانون نے
مامتا گروی رکھ دی گئی حیا کے نام پر
میں نے تم کو محسوس کیا
ان کوچوں میں جہاں تم بچپن میں کھیلے
اس گلی میں جہاں تمھاری نانی کا گھر ہے
اس سائیکل میں جو کئی ماہ
پیسے جمع کرنے کے بعد
میں نے تمھارے لئے خریدی تھی
جس کو تم بہت تیز چلاتے تھے
میں نے تم کو محسوس کیا
تمھاری ایک پاؤں کی چپل میں
جو سڑک کنارے چپ پڑی رہ گئی
جب تم ایک جیپ میں زبردستی
سوار کرا دیے گئے
تمھاری سبز ٹی شرٹ
تمھارے سر پر منڈھ دی گئی
میں جیپ کے پیچھے بھاگتی رہی
لیکن تمھارا پتہ نہ ملا
لاپتہ مامتا
میں نے تم کو محسوس کیا
اس بہادری میں جو خطے کی ماں کی میراث ہے
اس وردی میں جو تم پر سجتی تھی
اس بندوق میں جو دیس کی حفاظت کے لئے
تمھارے کندھے پر رکھی تھی
اس تابوت میں جس میں تم اور تمھارے اعزازت رکھے ہیں
میں تمھارا قاتل تلاش کرتی ہوں
جو بچوں کے اسکول میں جا کر چھپ گیا
اور اسکول کی دیواریں خون سے رنگنے لگا
اس قاتل کو دیس کے سپہ سالار نے
بہ حفاظت رکھ
لیا ایک آرائشی زندان میں
تا کہ وہ دیس کی ماؤں کی مامتا کا امتحان لیتا رہے
دیس کی مائیں اپنی مامتا تلاش کرتی ہیں
ماں جیسی با حیا ریاست کی گود میں
لیکن ریاست کی گود میں
نامعلوم افراد ہیں
علم کے قاتل ہیں
لاپتہ گزر گاہیں ہیں
ٹوٹے قلم ہیں
دیمک زدہ بوسیدہ اوراق ہیں
روایات کی زنگ آلود زنجیریں ہیں
جھوٹی شجاعت کی عمارات ہیں
دستار زادے ہیں
درباری ملا ہیں
خاموش خطیب ہیں
فتوی فروش مفتی ہیں
جعلی قانونی مقابلے کرانے والا افسر ہے
غلطیاں دوہراتا اور قاتلوں کو پناہ دیتا سپہ سالار ہے
بے انصافی کی بدروح ہے
لاقانونیت کی
باحیا جادوگرنی ہے
آبرو باختہ جنات ہیں
جو ریاست کے عامل عالموں نے حاکم کو تحفے میں
دیئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments