ہمیں خبر نہ ہوئی، مصطفیٰ چلا گیا


سوشل میڈیم پر گزشتہ کئی برسوں میں جب بھی جھنگ کے کسی دوست سے رابطہ ہوا تو میں نے اپنے ہم جماعت ڈاکٹر محمد مصطفٰی سے متعلق ضرور پوچھا۔ مجھ سے استفسار ہوا کیپٹن ڈاکٹر مصطفٰی؟ تو میں کہتا، ہاں کیونکہ فوج میں تو وہ رہا تھا۔ جواب ملتا ٹھیک ہیں۔ خود میں زندگی میں کبھی جھنگ نہیں گیا، ہاں البتہ بہت پہلے جب کبھی سیلاب آ کے گزر گئے ہوتے تو ملتان سے جھنگ کے راستے لاہور جانے والی بسوں میں بیٹھ کے ضرور وہاں سے گزرا تھا۔

ہمارا نشتر میڈیکل کالج کے دنوں کے ہم جماعت افراد کا ایک وٹس ایپ گروپ ہے جس سے میں غالباً دو دفعہ پہلے اس لیے نکل چکا ہوں کہ کچھ دوستوں کی پوسٹس متنازعہ یا غیر معیاری ہوتی ہیں، اس بار پھر مجھے ہمارے ہم جماعت بریگیڈیر ریٹائرڈ، معروف کارڈیک سرجن ڈاکٹر بلال یوسف نے پھر سے شامل کر دیا۔ ساتھ ہی تلقین کی کہ یار لوگوں کو برداشت کیا کرو۔ آخر ہم کتنے ہم جماعت ہیں۔ ایک دوسرے کے بارے میں معلوم ہوتا رہتا ہے۔

ہمارے یہ کارڈیک سرجن دوست بھی خاصے کی شخصیت ہیں۔ جب بنگلہ دیش بن گیا تو یہ بھی، جن کا نام تب پرویز تھا، میرے سکول کے ہم جماعت اور بچپن کے دوست ملک روشن علی گھلو کے ساتھ، راجشاہی میڈیکل کالج سے منتقل ہوئے تھے۔ چونکہ ہوسٹلوں کے کمرے مختص ہو چکے تھے، اس لیے مہاجر طلباء کو ہم دوستوں کو کھپانا تھا۔ ظاہر ہے ملک روشن میرے ساتھ رہنے لگا تھا، اس کی وجہ سے انگریزی فلموں میں دکھائے گئے حضرت عیسٰی کی شکل کا یہ گورا چٹا، لمبا تڑنگا، بڑے بڑے بالوں والا، نیلی جینز اور شوخ رنگوں کی ٹی شرٹس کا شوقین پرویز بھی تقریباً دوست ہو گیا تھا۔ ہنس مکھ اور حاضر جواب ذہین نوجوان۔

پھر یک لخت نہ جانے اسے کیا ہوا کہ شلوار قمیص پہننے لگا، شلوار ٹخنوں سے اوپر ہوتی تھی۔ ایک بہت بڑا پگڑ پہنے ہوتا، داڑھی تو ویسے ہی بطور فیش رکھتا تھا، اب اسے بہت بڑھا لیا تھا۔ سردیوں میں ایک لمبا اوورکوٹ پہنے ہوتا اور بعض اوقات سیدھا تبلیغ سے مع بستر اور گلے میں لٹکائے، جی ہاں گلے میں لٹکائے ٹائم پیس کے ساتھ کلاس میں پہنچ جاتا۔ نام بدل کے بلال بن یوسف رکھ لیا۔ نظریں نیچی رکھنے لگا تھا اور کم ہنستا زیادہ خاموش رہتا۔ پیشہ ور تعلیم میں بھی ذہین تھا اس لیے کتابی کیڑا تھا۔

پھر وہ پاک فوج کا سٹار کارڈیک سرجن بنا۔ بیس سال فوج میں اور دس سال برطانیہ میں دل سی جوڑ کے آج وہ ماشاءاللہ خاصا خوشحال ہے۔ پھر سے شلوار قمیص کے علاوہ کبھی کبھار پتلون بھی پہننے لگا ہے۔ داڑھی تو بہت لمبی ہے مگر اب ہنستا بھی ہے، مذاق بھی کرتا ہے۔ آخر بریگئیڈیر ریٹائرڈ ہے۔ کاریں ہیں، کوٹھیاں ہیں۔ گالف کھیلتا ہے۔ سردیاں لاہور میں بتاتا ہے اور گرمیاں مانچسٹر میں جہاں اس کا بیٹا اسی کی طرح معروف واسکیولر سرجن ہے۔ مجھے گروپ میں شامل کرکے، خود وبا کے دور میں خصوصی پرواز سے گرمیاں بسر کرنے مانچسٹر سدھار گیا۔ کیا عجیب آدمی ہے، ہمارا یہ دوست بھی۔

گروپ میں کسی نے کہا کہ رمضان ہے۔ دنیا سے گزر جانے والے ہم جماعت دوستوں کے نام شیئر کریں تاکہ ان کی مغفرت کے لیے نام لے کر دعائیں کی جا سکیں۔ خیر سے بیشتر ہم جماعت سفید داڑھیاں بڑھائے ہوئے ہیں۔ نام لکھے جانے لگے : خواجہ ناظم، ملک روشن، اصغر برق، گونی، اقبال نیازی، عاشق رسول، نعیم خاکوانی، نعیم اختر، عبدالرحمان عثمانی، شیخ مجید، اظہر، اقبال تبسم، سعید خاں، علی حسین، علی حسین کی مسز حافظہ صاحبہ، علی شمس القمر، نعیم شیخ، بھا منظور، برکت علی، حلیم خاں، باطن بہاری، افتخار، مولوی اسمٰعیل، قربان حسین، افتخار حمید مظہر، شاہد، ڈاکٹر شاہدہ، اسلم ملک، مسز اسلم ملک ڈاکٹر شہناز، محمود صدیقی اور پھر کسی نے لکھا مصطفٰی فرام جھنگ۔ مجھے لگا جیسے مجھے کرنٹ لگ گیا ہو۔

استفسار پر ہمارے ہم جماعت مدثر نے بتایا کہ تین چار سال پہلے اس کی برطانیہ میں پھیپھڑوں کے سرطان سے موت ہوئی۔ ہمارے ہم جماعت ڈاکٹر محمد یوسف نے تصحیح کی کہ نہیں امریکہ میں۔ مصطفٰی تو سگریٹ کے نزدیک نہیں پھٹکتا تھا، اور امریکہ میں، وہ تو عمر بھر جھنگ میں رہا۔ معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا امریکہ میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے اسے بھی امریکہ کی شہریت مل چکی تھی۔

مصطفٰی کھلتی رنگت والا خاموش طبع، انتہائی شریف، نمازی لڑکا تھا۔ عین فائنل ایر کے امتحانات سے پہلے یکے بعد دیگرے اس کے والدین کا انتقال ہو گیا تھا۔ جس روز وہ سرجری کا وائیوا دے کے آیا تو سیدھا میرے کمرے میں پہنچا تھا اور داخل ہوتے ہی کھڑے کھڑے بلک بلک کر رونے لگا تھا۔ میرا سرجری کا وائیوا اگلے روز تھا اور میں تیاری کر رہا تھا۔ اسے ایسے روتے دیکھ کر میں فوراً اٹھا تھا۔ اسے گلے سے لگایا تھا۔ تسلی دی تھی۔ جب اس کا رونا کچھ کم ہوا تو اس نے رونے کی وجہ بتائی کی ہمارے انٹرنل ایگزامینر پروفیسر سید ظفر حیدر شاہ صاحب نے اس سے انگریزی میں کہا تھا کہ آپ سے اگلے امتحان میں ملیں گے۔

اب میں نے اس کے ساتھ مل کے اس معاملے کو نمٹانے کے لیے منصوبے باندھنے شروع کیے، پروفیسر صاحب کو گمنام خط لکھنے سے لے کر انہیں ذاتی طور پر ملنے تک سے متعلق مگر سب بیکار لگا۔ پھر میں نے مصطفٰی سے کہا کہ بے فکر ہو جاؤ میں کل اپنا امتحان داؤ پہ لگا کر ان سے بات کروں گا۔ مصطفٰی نے مجھے ایسا کرنے سے روکا لیکن مجھے معلوم تھا کہ وہ میرے پاس امید لے کر پہنچا تھا۔ اسے رخصت کر دیا اور کل ہونے والی گفتگو سے متعلق سوچنے لگا۔

شاہ صاحب اپنی طرز کے انسان تھے جو شلوار قمیض پہن کے وارڈ میں آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ نکٹائی باندھنا لازمی سمجھتے تھے لیکن مجھے ان دنوں سوشلزم کا جنون تھا اور میں مولانا بھاشانی کا معترف تھا۔ میں نے بھورے کھدر کے کئی جوڑے سلوا لیے تھے اور وہی پہنا کرتا تھا۔ تاحتٰی شاہ صاحب کی وارڈ کی کلاس میں بھی۔ اس ہمت کی وجہ بھی شاہ صاحب کا مخصوص مزاج تھا۔ وہ سرجری پڑھاتے پڑھاتے تصوف، ادب اور زراعت تک کی بات کرنے لگتے تھے۔ میں سرجری میں تو طاق نہیں تھا لیکن دوسرے معاملات میں نہ صرف ان سے بحثیں کیا کرتا بلکہ اختلاف بھی کرتا۔ میرے پہلوؤں میں بیج میٹس کی کہنیاں پڑ رہی ہوتیں لیکن میں جانتا تھا کہ شاہ صاحب میری چرب زبانی سے خوش ہوتے تھے۔

یوں اگلے روز امتحان لیتے لیتے انہوں نے مجھ سے پوچھ لیا کہ طالبعلم امتحان سے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔ میں بولا، سر باقی تو سب ٹھیک ہے، کل مصطفٰی نام کے ایک طالبعلم کا آپ نے امتحان لیا، اس کے ماں باپ کچھ عرصہ پہلے فوت ہوئے ہیں۔ وہ پریشان ہے۔ شاید بہتر تیاری نہ کر سکا، آپ نے اسے فیل کرنے کی نوید سنا کر زیادتی کی ہے۔ بس شاہ صاحب پھٹ پڑے کہ والدین فوت ہوئے اس کا امتحان سے کیا تعلق وغیرہ وغیرہ۔ میں گھبرا گیا کہ لو بھئی میں بھی گیا مگر شاہ صاحب کی کل گھومی اور انہوں نے کنگ ایڈورڈ سے آئے ایکسٹرنل ایگزامینر پروفیسر رشید سے کہا، یہ مرزا مجاہد ہے، بہت سچ بولنے والا۔ آپ اس سے جو چاہیں پوچھ لیں، یہ ذہین ہے۔ سرجری تو مجھے بری نہیں آتی تھی مگر رشید صاحب نے اناٹومی سے متعلق سوال پوچھنے شروع کر دیے جو مجھے نہ شروع سے پسند تھی اور نہ یاد رہی تھی۔

اب شاہ صاحب آنکھیں موندے، ماتھے کو ایک ہاتھ کی انگلیوں سے تھامے، ایک ٹانگ کو زور زور سے ہلاتے، میری درگت بنتے سنتے جونہی میں اٹکتا وہ آنکھ کھولتے اور سرجری کا کوئی آسان سا سوال پوچھ لیتے۔ یوں انہوں نے میری تو جان بخشی کروا دی یعنی میں پاس ہو گیا مگر مصطفٰی کو تو وہ فیل کر ہی چکے تھے۔ یہ قصہ میری خود نوشت کے پہلے حصے ”پریشاں سا پریشاں“ میں بھی درج ہے۔

یوں کالج چھوڑنے کے بعد مصطفٰی سے کبھی ملاقات نہ ہو سکی۔ ہمارے دوست نیشنل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر میجر جنرل ریٹائرڈ محمد اسلم ہر سال ہی دوستوں سے ملواتے رہے مگر مصطفٰی سے متعلق نہ خبر ہوئی اور وہ چلا بھی گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments