والدین کی محبت یا بچوں کے ارمانوں کا سودا



یہ اتنی کم ظرفی کیوں برتتی جاتی ہے؟ با اختیاری کیا تنگ دامانی کا پرمٹ دیتی ہے؟ کسی اور پہ گزرتی تکلیف خود پہ گزری یاد کیوں نہیں دلاتی؟ یا یاد دلاتی بھی ہے تو شاید با اختیاری کے نشے میں بھلا دی جاتی ہے۔ ہزاروں نوجوان کالج کی کسی اوٹ میں بیٹھ کر بے بسی کے فشار کو محسوس کرتے ہیں۔ ان کی آنکھوں سے ٹپکتے لاچارگی کے آنسو محض احباب تکتے ہیں جو انھی کی طرح بے اختیار ہوتے ہیں۔ یہ کیسی سرپرستی ہے؟ یہ کیسی پرواہ ہے؟

جو بچوں کی چاہتوں کا قتل کرتی ہے۔ ان کی خوشیوں کی قربانی مانگتی ہے اور پھر انھیں زبردستی کے رشتوں میں باندھ کر، ان کی چاہ سولی چڑھا کر اور اس کے عوض چار پیسے لٹا کر بھی کس قدر مطمئن رہتی ہے۔ اک بے بس کو تمام عمر کی بے چینی میں باندھ کر خود کیسے چین سے جیا جا سکتا ہے؟ جو اس کے دل پہ گزری اس کا کیا؟ بے اختیاری ان کا قصور بن جاتی ہے۔ یہ کیسی روایات ہیں؟ محترم اگر یہ آپ کی محبت کا اظہار ہے تو یہ خود غرض محبت ہے۔

یہ جبریت میں پلی محبت ہے جس میں زیادہ رنگ ستم کا دکھتا ہے اور کم احساس کا۔ اور ایسی محبت کئی کمروں سے نوجوانوں کی زندہ لاشیں نکال چکی ہے۔ اس سے زیادہ سنگ دلی و ہٹ دھرمی کی نمائندہ بات اور کیا ہو کہ بچے ہی کی زندگی کے سب سے اہم فیصلے پر اسی سے اختیار چھین لیا جائے۔ آپ کے بچے کے وہ دکھوں سے لبریز آنسو یونیورسٹی کے کسی کمرے میں احباب کے درمیان بہتے ہیں۔ وہ جو آنسوؤں کی آبشار بہتی ہے، اس ہر ایک آنسو کے ساتھ جناب آپ اپنا مقام اس بے بس کے دل میں برابر کھوتے جاتے ہیں۔

مانا کہ بچوں کی بہتری کے لیے فیصلہ دیکھ بھال کر کرنا چاہیے مگر اک بار بچوں کی فرمایش پر ان کی پسند پر غور کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد انکار کچھ معنی رکھتا یے۔ لیکن غور تو درکنار بچوں کے اظہار پر ہی انھیں ٹوک دیا جاتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ ایسا ماحول بنایا جاتا ہے کہ بچہ والدین کے غصے، ناراضی، طعنے کے خوف سے اظہار بھی نہیں کر پاتا۔ کبھی اپنی روایات کو مقدم رکھ کر، کہیں اپنی انا کو فوقیت دے کر بچوں کی خواہشات کا دم توڑا جاتا ہے۔

اکثر بچوں کو تعلیم کا طعنہ دیا جاتا ہے کہ انھیں زیادہ پڑھا دیا اس وجہ سے آج وہ ایسا کر رہے ہیں۔ ان سے کئی کئی دن ناراضی رکھی جاتی ہے اور معلوم ہے اس کے بدلے میں آپ کے بچے پورا دن سکول، کالج آ کر پڑھ نہیں پاتے، دھیان نہیں دے پاتے۔ یہ سب سزائیں انھیں اپنی پسند کے اظہار پر دی جاتی ہیں۔ حالانکہ یہ بلوغت کی عمر کا ایک فطری عمل ہے۔ پھر بھی اس قدر بد سلوکی کی جاتی ہے۔ جناب یہ کیسی ولایت ہے؟ جس میں آپ کے بچے آپ کے سامنے آپ سے ہی عرض نہیں کر پاتے یا کرتے ہیں تو دھدکار دیے جاتے ہیں، روتے ہیں تو رونے نہیں دیے جاتے، خواہشات دفن کرنے کو کہا جاتا ہے۔

یہ آپ جو آج با اختیار ہیں، کل خود اسی نہج پر تھے، یونہی تڑپتے تھے۔ جوانی کس کی دودھ کی دھلی ہوتی ہے۔ وہ سب بھلا کر ساری زندگی کے لیے بچوں کے ارمانوں کا قتل کیوں کردیا جاتا ہے۔ جو بچے باغی طبیعت کے مالک ہوتے ہیں وہ حدود و قیود توڑ کر پھلانگ نکلتے ہیں، اور اپنی کوشش سے مقصد حاصل کرتے ہیں۔ ایسے میں انھیں بے غیرت، بد تمیز اور نا جانے کیا کیا کہا جاتا ہے، یہ بھلا کر کہ وہ اس نتیجے پر کیوں پہنچے۔ ان کی آئے روز کی جانے والی منت و سماجت بھلا دی جاتی ہے۔

اس کے برعکس جو رو دھو کے آخر چپ ہو جاتے ہیں، اپنے سر پر فیصلہ لے لینے کی جرات نہیں کرسکتے انھیں اچھا، مہذب، با لحاظ، فرمانبردار کہا جاتا ہے۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ان کا دل چھلنی چھلنی ہو چکا ہے۔ ہمارے استاد محترم کہا کرتے تھے ”والدین بچوں کی تعلیم و تربیت کا صلہ شادی کے فیصلے کے موقع پر اس صورت میں مانگتے ہیں کہ چپ چاپ ان کی پسند پر ہاں کردیا جائے، حالانکہ وہ تعلیم، تربیت و خرچ ان کی ذمہ داری تھی نہ کہ احسان، نہ ہی بچے اپنی فرمایش پر دنیا میں آئے بلکہ لائے گئے۔“

جو آپ کے بچوں پر گزرتی ہے وہ ہم ( ان کے احباب) سے پوچھیے۔ مجھے قطعاً یہ پسند نہیں کہ اولاد کو ماں باپ سے بغاوت کا مشورہ دوں، ان کے احترام سے روکوں یا ان کی بے ادبی کرنے کا حوصلہ دوں مگر اس ظلم کے شکار لوگ آ کر جب اپنے والدین کے رویے، سختیاں، ہٹ دھرمیاں بتاتے ہوئے روتے ہیں تو یقین جانیے دل کٹ کر رہ جاتا ہے، میرے پاس سوائے خاموش رہنے کے کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ میری چاہ ہوتی ہے کہ کسی طرح بچوں کے دل سے والدین کا گرتا مقام لپک کر تھام لوں، اسے گرنے نہ دوں۔

بچوں کی نظروں میں والدین کی وقعت کم ہوتی روک لوں۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہو پاتا اور ہو بھی نہیں سکتا۔ مجھے اس وقت وہ بچے ہی مظلوم لگتے ہیں اور والدین قابل رحم۔ میرے پاس ان کے ان دکھوں کا کوئی مداوا نہیں ہوتا، حوصلہ دینے کو الفاظ نہیں بچتے۔ وہ تکلیف بس محسوس ہوتی ہے۔ خدارا ایسے مظالم نہ ڈھایا کریں۔ بچوں کو سمجھیں۔ محض اپنی پسند ان پر مسلط کرنے کی بجائے ان کی بھی سنیں۔ والدین کو چاہیے پسماندہ روایات کو بند کریں۔ ایک بار بچے کی خواہش پر غور تو کریں اور پھر اپنی انا و روایات سے ہٹ کر انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں۔ جواب نہیں میں بھی ہوا تو بچوں کو یہ احساس ضرور ہو گا کہ والدین نے ہماری خواہش کا احترام تو کیا اور غور بھی کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments