فرسودہ مذہبی طبقہ


پاکستان میں موجودہ تمام جماعتوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے، تو یہ بات سامنے آتی ہیں کہ سب کے سب ملک اور قوم کی خدمت کی بجائے اپنے مفادات کے پیچھے پڑے ہیں۔ اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے قوم کی خون چوس رہی ہیں۔ لیکن آج ہم بات صرف مذہبی طبقے کی کریں گے، کیونکہ ہمارا مذہبی طبقہ اسلام کے نام پر اپنی تشہیر کر کر کے فرسودہ نظام اور سامراج کا آلہ کار بن گیا ہے۔

اس لیے عوام کی اکثریت یہ جان چکی ہے کہ ہمارا مذہبی طبقہ استحصالی نظام کو تقویت دے رہا ہے۔ اور قوم کی رہنمائی کی بجائے طاغوتی نظام کا تابع بن گیا ہے۔ جس کی اس نا اہلی کی وجہ سے قوم عروج کی بجائے دن بہ دن زوال پذیر ہو رہی ہے۔

نبی کریمﷺ کے ایک ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ انسانیت جب تباہ ہو گی، اس کے بنیادی اسباب میں سے ایک سبب یہ ہوگا کہ اس کے رہنما جھوٹے ہوں گے اور قوم سچوں کو جھٹلا دے گی۔ گویا جھوٹے پراپیگنڈے کی مہارت پیدا ہو جائے گی۔

آج آپ غور کریں کے ہمارے مذہبی رہنما جن کو ہم دین دارسمجھتے ہیں کتنے جھو ٹے اور مکار ہیں۔ وہ خود کو تو اللہ کے مقرب اور جنت کے دعویدار کہلاتے ہیں۔ لیکن مایوس کن اور شکست خوردہ نظر آرہے ہیں۔ کیا ایمان والوں کی یہی حالت ہوتی ہیں؟ اہل ایمان تو خدا تعالیٰ کے مقبول بندے اور مدد الٰہی کے حامل ہوتے ہیں۔ اہل ایمان کا کام تو دنیا کی رہنمائی کرنا اور حق کوغالب کرنا ہوتا ہے۔ ان کا کام معاشرے کے ظالم اور گمراہ طبقے کو شکست دینا ہوتا ہے۔ وہ معاشرے میں احترام انسانیت پیدا کرنے کے لئے کوشش اور جدوجہد کرتے ہیں۔ ایمان والوں کی تو یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فاسد نظام کا خاتمہ کرکے قرآن کا اعلٰی عادلانہ نظام قائم کریں۔

لیکن افسوس کی ا ہمارا معروف مذہبی طبقہ ان تمام خصوصیات سے عاری نظر آرہا ہے۔ ہمارے نام نہاد علما اور پیر رہنمائی کی اہلیت نہیں رکھتے۔ بڑٰی بڑی خانقاہوں کی پیروں سے لے کر مسجد کی امام تک سب، چوہدری اور خان ملک کے آگے بے بس ہیں۔ وہ امامت صغریٰ کا اہل نہیں تو امامت کبریٰ اس کے بس میں کیسے ہوگا! وہ تو اپنا بھی ووٹ ایسے نظام کو دے رہے ہیں کہ جس میں بے حیائی کی تہذیب چل رہی ہے۔

آج ہمارے فاسد مذہبی طبقے میں اس سامراجی نظام کے خلاف شعور نہیں ہیں۔ اس کے خلاف کوئی جاندار سوچ نہیں رکھتے۔ وہ عقل سلیم سے محروم ہیں، قرآن کی اصلی تعلیمات، اعلٰی فکروفلسفہ اور پروگرام سے بے خبر ہیں۔ اور اس حد تک بے بس ہوگیا ہیں کہ اپنا تاریخ بھی بھول گئے ہیں۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ امرا اور بادشاہ ان سے ڈرا کرتے تھے۔ پیران پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی صاحب کے حالات اور وعظ تو پڑھ کر دیکھ لو کہ وہ حکمرانوں کی کس طرح اصلاح کرتے ہیں۔ اور یہاں! یہاں تو مسجد میں نہایت کمزور لوگ مولوی صاحب کو دبائے بیٹھے ہیں۔ جس کی وجہ سے دین کا پورا کا پورا نظام چلا گیا لیکن انہیں کوئی فکر نہیں۔

آج ہمارے مولویوں کی معاشرتی حیثیت ختم ہو گئی ہیں۔ مدارس سندیں تو دے رہی ہیں، لیکن معاشرے میں اس کی پرائمری درجے کی بھی حیثیت نہیں۔ کیونکہ قرآن کا صحیح اور اعلیٰ فکر وفلسفہ نہیں دیا گیا۔ معاشرے میں رہنما بنانے کے لئے نظام تعلیم تشکیل نہیں دیا گیا۔ جن کی وجہ سے ان کو معاشیات کا علم نہیں ہے، عصر حاضر کے سماجی نظاموں کا ادراک نہیں۔ سائنسی ترقیات اور جدید علوم سے ناواقف ہیں۔ حقیقت میں پورے صالح نظام کے اصولوں کے اعتبار سے جاہل ہیں۔ جو اس ناکامی اور لاعلمی کی وجہ سے اسلام کو دنیا میں ذلیل کر رہے ہیں۔

بے شعوری، حق ناشناسی اور غلبہ دین کا تصور نہ ہونے کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے علما سے سوال کرو تو فوراً کہیں گے کہ آج گمراہی کا دور ہے، پورے دین پر عمل نہیں ہوسکتا نہ اب دین غالب آسکتا ہیں، جب حضرت امام مہدی آئیں گے تو دین غالب کریں گے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا ان کی آمد تک ہم کفر کا اتباع کرتے رہیں گے؟

آج قرآن کا صالح فکر و فلسفہ اور پروگرام معاشرے میں پھیلانے میں مشکلات کیوں پیش آرہی ہیں؟ حق بات کہنے پر کفر کے فتوے کیوں لگائے جاتے ہیں؟ اس لیے کہ مذہبی طبقے کا شعور ختم ہوگیا ہے۔ اسے اپنی ذلت کا احساس نہیں۔ قرآن کی حکمت کو نہ سمجھنے کے سبب ان کی عقل کو زوال آگیا ہے۔ خانقاہ کا عقیدت مند اور نام نہاد دین دار مولوی پستی اور بے شعوری کے عالم میں صرف جزوی اصلاح اور دعا کروانے کے لئے حکمرانوں کے دربار پہ حاضر ہوکر رائج فرسودہ اور باطل نظام کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اپنی گدی اور منصب کے لئے معاشرے کے فرسودہ اداروں سے صلح کرکے بزدلی اور کاہلی کا راستہ اختیار کر چکے ہیں۔

سوچنا تو یہ ہے کہ آج ہزاروں لاکھوں کے اجتماعات کیے جاتے ہیں۔ سالہا سال سے دنیائے انسانیت کی ہدایت اور قانون الٰہی مخلوق کو سناتے ہوئے گزر گئے مگر تبدیلی نہیں آرہی۔ ہمارے مولوی اور پیر صاحبان صرف اس خوشی فہمی میں مبتلا ہیں، کہ جب ہم عرب، امریکہ، افریقہ اور یورپ جاتے ہیں تو وہاں کے لوگ ہماری صحبت سے بڑے متاثر ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سیرت کی تقریر سے لوگ بڑے خوش ہو گئے۔ لیکن۔ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرہ کسی اور روح جا رہا ہے۔ رسمی عبادات موجود ہیں مگر معاشرت، تہذیب و ثقافت، سیاسی و معاشرتی نظام اہل مغرب کا ہے۔ جھوٹ، بد یانتی، دھوکہ، حرام خوری، سود خوری اور ظلم کا غلبہ ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک کامل، دیندار اور حق جماعت کی تلاش کریں۔ ایک ایسی جماعت ہو، جو عادلانہ نظام قائم کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ قرآن کا پروگرام سے واقف ہو۔ ایک ایسی جماعت ہو جس کا ہر فرد حب اللہ سے سرشار اور انسانیت کی فلاح کانظریہ رکھتا ہو۔ تب جا کے ہم عروج کی منزل تک پہنچ سکیں گے۔ اور دنیا کو بتائیں گے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments