ارطغرل ڈرامہ اور اس پر بحث، آخر کیوں؟


اگر اس سیریز کو سیاسی حوالوں سے دیکھیں تو بلاشبہ یہ ترکی کی جانب سے ریاستی سرپرستی میں بنایا گیا ڈرامہ ہے جس کے اپنے مقاصد ہیں۔ مسلمان ممالک میں ترکی یورپ کے ساتھ براہ راست جڑا ہے، یورپ کے ساتھ ترک قوم کے مسائل صدیوں پرانے ہیں۔ اسی طرح خود ترکی کو اندرونی طور پر کرد قوم پرستوں کی طرف سے بھی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ کرد ماضی کی نسبت اب زیادہ متحرک ہیں۔ انہیں پہلے کی نسبت اب بین الاقوامی حمایت زیادہ مل رہی ہے۔

کردوں کا شام، عراق اور ترکی کے سرحدی علاقوں کو جوڑ کر الگ سے ملک کردستان بنانے کا ارادہ ہے۔ شام میں امریکی افواج کی موجودگی اور کردوں کے لئے امریکہ کی حمایت بھی ترکی کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ اسی طرح ترکی کا سو سالہ معاہدہ بھی ختم ہونے جا رہا ہے۔ سعودی عرب کو یقیناً یہی بات کھٹکتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے سیاسی پہلو ہو سکتے ہیں جن کا ہم یہاں ذکر نہیں کر سکے۔

کسی بھی تخلیق پر تنقید سے قبل اس کے مواد کا تجزیہ بہت اہم ہوتا ہے۔ جس قدر مواد کی جانچ پڑتال گہری اور عمیق ہو گی تنقید اسی قدر بہتر ہو سکے گی۔ ہمیں یہی طرز عمل ارطغرل پر بھی اپنانا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر جاری بحث مباحثوں میں سطحیت پائی جاتی ہے۔ ان مباحثوں میں الجھنا ذہنی تکلیف کا باعث ہی بنتا ہے۔ پاکستانی ناظرین نے اس ڈرامے کو ابھی مکمل نہیں دیکھا۔ جنہوں نے دیکھا بھی ہے تو ان کی تعداد بہت کم ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شروع میں ہی یوٹیوب یا دیگر ذرائع سے ترکش زبان میں انگریزی یا اردو سب ٹائٹلز کے ساتھ اس سیریز کو دیکھا ہے۔ میں نے خود فروری سے اس ڈرامے کو دیکھنا شروع کیا اور یکم مئی کو مکمل کیا۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما مرحلہ تھا۔ آپ ایک ہی وقت میں اس ڈرامے کو مکمل نہیں دیکھ سکتے۔ میری تجویز یہی ہے کہ اس ڈرامے کو ترکش زبان میں ہی دیکھا جانا چاہیے۔ اگر آپ اردو یا انگریزی سب ٹائٹلز کا سہارا لے کر اس ڈرامے کو ترک زبان میں دیکھ پائیں تو یہ اردو ڈبنگ کی نسبت زیادہ مزے دار ہے تاہم اس کا انحصار دیکھنے والے کی ذاتی دلچسپی پر ہے۔

جہاں تک اس ڈرامے پر اعتراضات کی بات ہے تو میں یہی کہوں گا کہ باوجود اعتراضات کے یہ ڈرامہ دیکھنے کے قابل ہے۔ یہ اعتراض درست نہیں کہ غیر ملک کی تخلیقات کی بجائے اپنی تخلیقات کی جائیں۔ آپ اپنا مواد ضرور پیدا کریں بلکہ لازمی تخلیق کرنا چاہیے مگر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں بیرونی دنیا سے کٹ کر رہنا بھی کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ اور محض نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر کسی بھی پروڈکشن کو نظرانداز کرنا کوئی اچھا رویہ نہیں ہے۔

ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو بھارتی فلمیں دیکھتے جوان ہوئے ہیں۔ بالی ووڈ کی کئی ایسی فلمز بھی ہم نے دیکھی ہیں جن میں پاکستان مخالف مواد پایا جاتا ہے۔ بے شمار بھارتی فلمیں ایسی ہیں جو ہماری واچ لسٹ میں شامل ہیں مگر اس کے مواد نے ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ اس کے ہم باوجود بالی ووڈ ستاروں کو چاہتے ہیں۔ کئی بھارتی اداکاروں کو اتنی مقبولیت بھارت کے اندر نہیں ملتی جتنی پاکستان میں۔ اسی طرح ہم ہالی ووڈ کی انگریز فلمز بھی دیکھتے ہیں۔ آپ نے یقیناً جولیس سیزر، سپارٹیکس، ہرکولیس کی زندگی پر مشتمل فلمز یا ٹی وی سیریز دیکھ رکھی ہوں گی۔ ہالی ووڈ نے انہیں ہیروز کے طور پر پیش کیا ہے، جبکہ تاریخی حوالوں سے یہ ہمارے ہیروز نہیں ہیں مگر ہم میں سے بہت سوں نے ان پروڈکشنز کو دیکھ کر اچھی انٹرٹینمنٹ کی ہو گی۔

ارطغرل میں جنگی مہموں پر جو اعتراض اٹھایا جاتا ہے بلاشبہ سیریز دیکھنے کے دوران میرے دماغ میں بھی یہ سوالات امڈے مگر مجھے یہ کہنے دیجئے کہ ارطغرل میں دکھائی گئی جنگی مہمیں کوئی افسانوی نہیں بلکہ حقیقی ہیں۔ آپ ہیرلڈ لیم کی چنگیز خان کی بائیو گرافی پر مشتمل کتاب کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ منگولوں نے کیسے چین سے سنٹرل ایشیا ، ایران، عراق اور یورپ تک یلغار کی۔ تاریخی مہمات کو فلمانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔

ہالی ووڈ نے تقریباً پہلی، دوسری جنگ عظیم سمیت ماضی کی سلطنتوں کی باہمی مہمات پر بے شمار فلمیں تیار کی ہیں جنہیں ہم سب پسند کرتے ہیں۔ آندرے بوریسو کی ڈائریکشن میں چنگیز خان پر فلم بن چکی ہے جو کہ دنیا کی تاریخ کا سفاک ترین حکمران گزرا ہے۔ ارطغرل ٹی وی سیریز میں کہیں بھی ایسا تاثر نہیں ملتا کہ جس سے دیکھنے والے کو یہ پیغام دیے جانے کا گمان ہوتا ہو کہ جنگیں کوئی اچھا کھیل ہیں۔ ڈرامے میں امن کے حق میں کئی سین فلمائے گئے ہیں۔ سیریز کے چوتھے سیزن میں ارطغرل کی بازنطینی گورنروں سے بار بار ملاقات اور امن معاہدوں کو دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح ارطغرل سلجوق ریاست اور ایوبیوں کے درمیان امن کے لئے کوشش کرتا ہے۔

کسی بھی سیریز کے ڈائیلاگ اس کی جان ہوتے ہیں۔ ارطغرل کے ڈائیلاگ اس کو ممتاز بناتے ہیں۔ یہاں ہم چند بہترین ڈائیلاگز شامل کرتے ہیں۔

” جس کا کوئی خواب نہیں اس کا کوئی مستقبل نہیں“
” ہمارے دشمن کی طاقت ہماری بہادری کی علامت ہے“
” آدمی کی زندگی کی حفاظت اس کی موت کا صحیح وقت کرتا ہے“
” ذوالفقار سے اچھی کوئی تلوار ہے نہ ہی علی سے بڑا بہادر کوئی زمین پر“
” جہاں انصاف اٹھ جاتا ہے وہاں بد امنی کو پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا“

” تلوار اور عقل دونوں ہی بڑی طاقتیں ہیں لیکن آج تک ایسی تلوار ایجاد نہیں ہوئی جو عقل کو ہرا سکے“
” جدوجہد ہماری، فتح خالص اللہ کی“
” سارا جہاں بھی اگر ظالم ہو جائے تو پھر بھی ہم ظلم سے ڈرنے والے نہیں ہیں“

” اس گھوڑے پر سواری کی کوشش ہی نہ کرو جس پر قابو نہ پا سکو“
” میں مظلوموں کی حفاظت کروں گا چاہے وہ میرے دشمنوں میں سے ہی کیوں نہ ہوں“
” اگر ہم نے دشمن کو اپنا وطن ہی نہیں، پتھر کا ایک ٹکڑا بھی رکھنے دے دیا تو مصائب ہم پر آ پڑیں گے“

اسکے علاوہ قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے بھی مختلف مواقع پر بیان کیے گئے ہیں۔ بالخصوص ابن عربی کے کردار کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ اس سیریز میں مسلمان سلاطین کے درباری احوال، امرا کی ترجیحات، شہزادوں کا حال، سپہ سالاروں کی جنگی زندگی، جاسوسی کے قدیمی طریقوں کو دکھایا گیا ہے۔ ترک قبائل کی زندگی بہت متحرک اور جہد مسلسل کی مانند دکھائی گئی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں اور بیرونی حملوں سے خیموں کو بچانے کی فکر سردار کو ہر وقت لگی رہتی ہے۔ لیکن اس ساری صورتحال میں سردار ہو یا سپہ سالار اس کا توکل اللہ پر ہی رہتا ہے جسے ارطغرل میں بہت خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے۔

ارطغرل پر تنقید کرنے والوں کا یہ بھی اعتراض ہے کہ یہ ڈرامہ سیکولر کی بجائے ایک مذہبی ریاست کی وکالت کرتا ہے لہذا اسے آئیڈیل نہیں کہا جاسکتا۔ جن دوستوں نے سیزن 3 اور 4 دیکھا ہو ان کو یقیناً اس کا جواب مل گیا ہو گا جب ہانلی بازار پر ارطغرل قبضہ کرلیتے ہیں اور بازار میں عیسائی تاجروں کو خاص مراعات دیتے ہیں۔ مسیحیوں پر اسلامی قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ وہ آزادانہ تجارت کرتے ہیں۔ اسی طرح ڈرامے میں ترک خواتین کے کردار کو نہایت خوبصورتی سے اجاگر کیا گیا ہے۔

ارطغرل کے والد اور قائی قبیلے کے سردار سلیمان شاہ کے انتقال پر قبیلے کی سرداری ارطغرل یا اس کے بھائی کو نہیں بلکہ ان کی والدہ کو سونپی جاتی ہے، اسی طرح اصلیحان خاتون چاودار قبیلے کی سردار بنتی ہیں اور ابلیگے خاتون عمرولگو قبیلے کی سرداری نبھاتی ہیں۔ جبکہ معیشت میں ترک خواتین کا کردار مردوں کی نسبت بلند درجہ ہے۔ قالین تیار کرنا اور انہیں رنگ کرنا قائی قبیلے کی خواتین کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ارطغرل، ترگت، دووان اور بامسی کی شادیوں پر ناچ گانا ہوتا ہے جس میں سپاہی روایتی رقص کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔

شادیوں میں نکاح کی رسم مخلوط ہوتی ہے۔ نکاح کے بعد دلہن اور دولہا دونوں نکاح خواں کا ہاتھ چومتے ہیں۔ اسی طرح علم سائنس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، تمام ترک قبائل میں ایک ڈاکٹر لازمی طور پر موجود رہتا ہے۔ ارطغرل کے پاس ڈاکٹر عارف طب کے میدان میں ایک ماہر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو لوگ اس ڈرامے کے مواد کو حد درجہ مذہبی قرار دیتے ہیں وہ تنقید میں ایمانداری نہیں برت رہے۔ ایسا اس لئے بھی ہے کیونکہ بہت سے دوستوں نے ابھی ڈرامہ مکمل دیکھا ہی نہیں۔

دیریلش ارطغرل کے کرداروں کی نجی تصاویر پر بھی بحث جاری ہے، اس میں دائیں بازو کی دلچسپی تو سمجھ میں آتی ہے مگر بائیں بازو کے آزاد خیالوں کو کیا ہو گیا کہ اپنی ہی تبلیغ کو چھوڑ دیا۔ پہلا سوال تو یہ بنتا ہے کہ اداکاروں کے لئے یہ کب سے واجب ہو گیا کہ جو کردار وہ ایک دفعہ نبھائیں پھر ساری زندگی اس کو خود بھی اپنائیں۔ ہمارے نوجوانوں کو پتا نہیں کیا سوجھی کہ اسرا بلگچ کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر انہیں حلیمہ سلطان کا دین بتانا شروع کر دیا۔

بنیادی طور پر ہمیں ٹی وی، کتاب، فلم اور موبائل انٹرنیٹ کا درست استعمال سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم کتنے خود پسند ہیں کہ اپنی سرزمین کے باہر کسی کو ہیرو ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ کیسی سوچ ہے کہ علم و تاریخ بھی ہم نظریاتی دماغ سے پرکھتے ہیں۔ کیا ہم چیزوں کو ان کے اصل کے ساتھ قبول کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments