اللہ ان سے زمین بھر دے


تین مارچ 1974، شام سات بجے
”یہ ریڈیو پاکستان ہے!
۔ ۔ ۔ ۔ سے خبریں سنیں

آج ترکش ائر لائنز کا ڈی سی 10 جہاز فرانس میں پرواز کے فوری بعد کریش کر گیا جس میں سوار عملے کے گیارہ ارکان سمیت تمام کے تمام تین سو چھیالیس افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ بدقسمت جہاز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

میں اس وقت نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ دریائے سوات شرقاً غرباً بہتا ہوا مالاکنڈ ایجنسی (اب ضلع مالاکنڈ) اور ضلع دیر زیریں کی حدود کا تعین کرتا ہے۔ مارچ کے پہلے ہفتے میں عام طور پر علاقے میں سردی پڑتی ہے لیکن اس سال بارشوں کی وجہ سے سردی شدید تھی۔ اس زمانے میں گھروں میں باقاعدہ باورچی خانے نہیں تھے جبکہ سردیوں میں عارضی باورچی خانوں کا بندوست کیا جاتا تھا۔ اسی طرح کے چھوٹے باورچی خانے میں کھجور کی دو چٹائیوں پر ہم تمام اہل خانہ شام کا کھانا کھایا کرتے تھے۔

اس شام بھی میرے والد، والدہ اور ہم پانچ بہن بھائی گیلی لکڑیوں اور اوپلوں کی آگ جس میں کڑوا دھواں شامل تھا، پچیس والٹ کے زرد بلب میں مٹی کے بنے توے پر بنی روٹیوں کے ساتھ کھانا کھا چکے تھے۔ والد صاحب نے حسب معمول سات بجے کی خبروں کے لیے اپنا ریڈیو آن کیا اور پھر ہم نے ترکش ائر لائنز کے حادثے کی خبر سنی۔ خبروں کا زیادہ حصہ بدقسمت جہاز، بدقسمت جہاز کی گردان تھی۔ ہم سب یہ افسوسناک خبر سن کر کافی پریشان ہوئے۔

میں اپنے ناپختہ ذہن سے سوچ رہا تھا کہ کاش سب مسافر حادثے سے پہلے دریا میں چھلانگ لگا سکتے اور ان میں سے چند افراد بچ جاتے وغیرہ۔ افراد خانہ میں شامل دادی اماں (ابئی ) کا ذکر میں نے ابھی تک نہیں کیا جو کہ اسی باورچی خانے کے باہر نماز عشاء کی ادائیگی میں مصروف تھی۔ دادی اماں اگرچہ اونچا سنتی تھی لیکن انہیں بھی ہماری غیر معمولی حرکات سے کسی انہونی کا اندازہ ہو گیا تھا یا پھر ان کی نماز میں کچھ خلل واقع ہو چکا تھا۔

میں نے کبھی دادی اماں کو گھر کا کام کاج کرتے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے انہیں صرف حکم چلاتے یا اڑوس پڑوس اور رشتے داروں کے گھروں میں جھکی کمر کے ساتھ انتہائی کھلے بازوں والی قمیض پہنے آ تے جاتے دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے ان کی پانچ وقت کی لمبی لمبی نمازیں اور اس سے بھی زیادہ لمبی لمبی دعائیں مانگنا یاد ہے جس میں وہ ترتیب کا خاص خیال رکھتی تھی تاکہ دعا مانگنے میں خاندان کا کوئی فرد رہ نہ جائے۔ وہ مجھے ہمیشہ اپنے پورے نام سے پکارتی تھیں بلکہ اس میں ”خان“ کا سابقہ بھی ضرور شامل کرتی تھی حالانکہ یہ میرے نام کا حصہ نہیں تھا جس سے مجھے اپنی اہمیت کا خاص احساس ہوتا تھا۔ پیار کے وہ سلسلے جو انتہا پہ تھے!

دادی اماں نے سلام پھیرا تو بڑے بھائی نے انہیں جہاز کے حادثے اور اس میں سوار تین سو چھیالیس مسافروں کی ہلاکت کا بتایا۔ دادی اماں نے اپنا دایاں ہاتھ سینہ کوبی کے انداز میں چھپ سے سینے پر مارا۔ انہوں نے کچھ دیر کے لئے نماز میں توقف کیا اور اسی موضوع پر ہماری گفتگو میں شامل ہو گئیں۔ اس دوران والد صاحب جنہیں انگریزی کی اچھی سمجھ بوجھ تھی نے بی بی سی انگلش بلیٹن کا کچھ حصہ ٹرانزسٹر کو کان سے لگا کر سنا اور بتایا کہ مسافروں میں سے صرف اڑتالیس افراد ترک تھے جبکہ باقی سب یورپی، چینی، جاپانی یا غیر مسلم تھے۔ ہم نے یہ خبر دادی اماں کو بھی اونچی آواز میں پہنچائی۔ وہ اس دوران بقیہ نماز پڑھنے کھڑی ہو چکی تھی۔ انہوں نے خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ اس سے بھی زیادہ اونچی آواز میں کہا ”اللہ ان سے زمین بھر دے۔“ کچن کا ماحول اب نارمل ہو چکا تھا۔

دو ہزار بیس تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے گزر چکا ہے۔ دادی اماں کے بعد والد صاحب اور پھر والدہ صاحبہ بھی داغ مفارقت دے گئے ہیں۔ ہماری نسل بھی اپنی جوانی بتا چکی۔ اب علم ہوا کہ زندگی بہت پیاری، لیکن جوانی گزرنے کے بعد یہ رنج بے خمار ہے۔ بقول شاعر ”بساط بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی، فضا خموش، سبو چپ، اداس پیمانے۔“

مارچ کے آخری ہفتے میں چند رشتے داروں کے ساتھ بڑے بھائی کے پاس مردان جانا ہوا۔ بھائی صاحب جو یونیورسٹی کی ملازمت میں اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچ کر عرصہ قبل ریٹائر ہو چکے ہیں شروع سے ہی سیاسی اور سماجی مسائل میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ انتہائی معقول آدمی ہیں اور ہر مسئلے پر صائب رائے رکھتے ہیں۔ مجھے خصوصی طور پر ان کی رہنمائی اور شفقت ہمیشہ میسر رہی ہے۔ اس شفقت کی وجہ سے البتہ اس عمر میں بھی ان کے سامنے شاذونادر ہی کھل کر اپنا موقف بیان کرنے کی جسارت ہوتی ہے، خاص کر جب وہ کسی ایشو پر دوران گفتگو واضح موقف لے چکے ہوں۔

اس دن بھی ان کی محفل میں کرونا وائرس کی وبا زیر بحث رہی۔ میں زیادہ تر خاموش اور سر ہلانے تک محدود رہا۔ بھائی نے خود نوٹس لیا اور کہا کہ تم بھی کچھ سنی سنائی کہو نا۔ میں نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ مساجد میں اکثر مولانا حضرات صرف مسلمانوں کے لیے اس وبا سے نجات کی دعا مانگتے ہیں جبکہ باقی انسانوں کے لئے ایسی دعا مانگنے سے جھجکتے ہیں حالانکہ یہ وبا تو ساری انسانیت کا مسئلہ ہے۔ بھائی صاحب نے فوراً کہا کہ کیا تمہیں علم نہیں کہ انہوں نے ہمارے ساتھ عراق، افغانستان، لیبیا اور شام میں کیا کیا؟ ایسے میں ہم مسلمان کیسے ان کی عافیت کی دعائیں مانگ سکتے ہیں۔ میں نے مزید کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ بات میری سمجھ میں آ چکی تھی کہ ”لکیر کھینچ کے بیٹھی ہے تشنگی میری۔ ۔ ۔ بس ایک ضد ہے کہ دریا یہیں پہ آئے گا“ مجھے بے اختیار دادی اماں کی کڑک دار آواز یاد آئی ”اللہ ان سے زمین بھر دے!“

زندگی ہر دم رواں رہتی ہے۔ چودہ اپریل کے دن میرے نواسے شیرو (شہیر) کی سالگرہ تھی۔ قریبی قصبہ بٹخیلہ جو کبھی تانگوں کے لئے مشہور تھا اب چنگچی رکشوں کا شہر بن چکا ہے۔ اب شہر میں لوہاروں کی دکانوں کی جگہ چنگچی رکشوں کی ورکشاپس ہر گلی کوچے میں موجود ہیں۔ اگرچہ پرزے ہم خود نہیں بنا سکتے لیکن الحمدللہ اب ہر پرزے کی مرمت ہم خود ہی کر لیتے ہیں۔ اس طرح پچاس سال میں ہمارا سماجی انقلاب ہمیں تانگے کے دور سے چنگچی کے دور تک لا چکا ہے۔

بٹخیلہ سے پانچ سالہ شیرو کی سالگرہ کے لئے کیک اور دوسرا سامان لایا تو گھر میں کافی بچے جمع تھے۔ چھوٹا شیرو بچوں کے درمیان اپنی ٹرائی سائیکل آگے پیچھے کر رہا تھا۔ میرے چہرے پر چڑھے ماسک کو دیکھ کر شیرو نے پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ کیسے کرونا وائرس سے ہماری حفاظت کر سکتا ہے۔ اس نے جواب میں کہا کہ مجھے تو ابو نے بتایا ہے کہ کرونا وائرس مسلمانوں کو کچھ نہیں کہہ سکتا جبکہ یہ تو صرف کافروں کو مارنے کے لئے ہے۔

پانچ سالہ شیرو نہ تو شیر ہے اور نہ ہی بٹیر۔ وہ تو سیکھنے والا چھوٹا طوطا ہے جسے جو پڑھایا جائے گا وہی سیکھے گا۔ میں نے بچوں کو بتایا کہ سارے انسان ایک جیسے ہیں اور ہمارا خدا ایک ہے۔ بچے تھوڑے پریشان اور حیرت زدہ ہو گئے۔ مجھ محسوس ہوا کہ میری منطق ان کے لئے قابل قبول نہیں تھی۔ میں نے شیرو کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا اور محسوس کیا کہ وہ کہنا چاہتا ہے کہ ”اللہ ان سے زمین بھر دے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments