دہشت گردی اور اب کرونا, بلوچستان کی صحافت نرغے میں


مارچ دو ہزار بیس کا پہلا ہفتہ ہے۔ میں اپنی فیملی کے ہمراہ کراچی سے کوئٹہ کی طرف بذریعہ سڑک رواں دواں ہوں۔ دوران سفر اہلیہ مسلسل سفر بخیر پورا ہونے کے لئے اللہ سے رابطہ قائم کرکے ورد میں مصروف ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ اس وقت دو پریشانیاں ان کے سامنے ہیں۔ ایک کراچی سے کوئٹہ کا پر خطر سفر اور دوسرا دنیا میں پھیلنے والی وبا کرونا کے نظر آنے والے کیسز اور ان کے اثرات۔ بلوچستان کے صحت کے نظام پر تنقیدی تجزیہ کرتے ہمارا سفر جاری ہے۔

جہاں ہم کراچی سے کوئٹہ محو سفر تھے۔ وہیں کرونا بھی تفتان سے کوئٹہ کی طرف محو سفر تھا۔ ہماری کوئٹہ آمد کے چند روز بعد ہی زائرین کی کوئٹہ منتقلی شروع ہوچکی تھی۔ اس وقت تک ہماری حکومت اور عوام کی حساسیت کی حالت یہ تھی کہ کوئی اقدام نہیں کوئی احتیاط نہیں۔ ہمارے میڈیا کے دوست تفتان سے لے کر کوئٹہ تک ایسے ہی کوریج میں مصروف تھے جیسے ماضی میں یا عام طور پر بریکنگ نیوز کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔

تادم تحریر اس وبا جسے ڈبلیو ایچ او نے کرونا یا کووڈ 19 کا نام دیا ہے، سے متاثر ہونے والے افراد کی پاکستان بھر میں تعداد 38799 سے بڑھ چکی ہے۔ ہے جب کہ 834 کے قریب اموات ہوچکی ہیں۔ اس وبا نے نہ صرف انسانوں کو ایک بیماری کی صورت میں خوف زدہ کیا بلکہ اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر دیکھے جا رہے ہیں اور نہ جانے یہ اثرات کب تک رہیں گے کیونکہ تاحال اس وبا کے علاج کے لئے کوئی مستند دوا موجود نہیں ہے۔ فی الحال چند دواؤں کے ساتھ احتیاط ہی کو علاج قرار دیا جا رہا ہے۔

اس وبا نے جہاں امریکا اور چین جیسی سپر طاقتوں کو بے بس کر دیا وہیں ترقی پذیر ممالک کا تو کوئی حال نہیں لیکن جب کرونا نے پاکستان کا رخ کیا تو پتہ نہیں کیوں ہماری حکومت نے چند ماہ قبل چین کے حوالے سے جو پالیسی اختیار کی تھی، ایران میں کرونا کے پھیلاؤ کے بعد اسے نہیں دہرایا گیا اور نہ ہی رائیونڈ تبلیغی اجتماع پر کوئی روک ٹوک لگائی نہ ایران کا بارڈر سیل کرنے کا فیصلہ کیا۔

ساڑھے چار ہزار مسافر جنہیں ایران سے پاکستان آنا تھا، ایران کی بے دخلی کے بعد پاکستان کی سرحد پر کھڑے تھے جب کہ تبلیغی اجتماع کے اختتام پر تبلیغی جماعتیں ملک بھر میں روانہ ہوچکی تھیں ہم اہل بلوچستان ہمیشہ چیختے اور چلاتے رہتے ہیں کہ ہمارا صحت کا نظام تہس نہس ہوچکا ہے۔ یہاں کوئی سہولیات نہیں وہیں کرونا کی یہ افتاد بلوچستان کے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔

کرونا کی وبا کے بلوچستان تفتان کے راستے پاکستان میں داخلے اور اس کی ممکنہ تباہ کاریوں کو ہم بلوچستان کے صحافی رپورٹ کر رہے تھے۔ ساتھ ساتھ بلوچستان کی صحت کے محکمہ اور اس کی استعداد پر سوال بھی اٹھا رہے تھے لیکن خوف نہ ہونے کے برابر تھا اور خوف ہوتا بھی کیوں کیونکہ دہشت گردی کے خلاف اس طویل جنگ میں پاکستان کے عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ پاکستانی میڈیا کی بھی کچھ قربانیاں اور خون شامل ہے۔ کچھ افسوس اور کچھ فخر کے ساتھ یہ بھی کہ ان قربانیوں میں بلوچستان کے صحافیوں کی تعداد زیادہ ہے۔

ہم نے اگر کسی دوست کو ٹارگٹ کلنگ میں کھویا تو کسی کو سیریز آف انسیڈنس کے یکے بعد دیگرے دوسرے دھماکے میں۔ ان شہدا صحافت کے نام اور ان پر بات پھر کبھی اتنے دوست کھونے کا غم رکھنے والی بلوچستان کے اہل صحافت کو کرونا نے کیا جھنجھوڑنا تھا۔ ہم ایک بار پھر ایک خاموش اور نامعلوم دشمن کے مقابلے کے لئے تیار تھے لیکن تلخ سچائی یہ ہے کہ پندرہ روز قبل ایک میسیج ملا کہ سلمان اشرف جو کہ بھائیوں جیسا دوست ہے، اس کی کرونا کی رپورٹ پازیٹو آ چکی ہے۔

میں نے سلمان کے ساتھ کئی واقعات اور سانحات کی ساتھ کوریج کی ہے۔ آٹھ اگست کو سلمان سول ہسپتال دھماکے میں زخمی ہوا میں نے اسے زخمی حالت میں دیکھا لیکن کبھی مجھے کوئی فکر لاحق نہ ہوئی آج ایک کرونا ٹیسٹ کی رپورٹ پازیٹو آنے کے ساتھ ہی ضبط ٹوٹنے لگا۔ میری بہن سعدیہ جو کہ سلمان کی اہلیہ ہیں، وہ بھی ہماری ہم پیشہ صحافی ہیں۔ ان سے فوری رابطہ کیا کیونکہ سلمان سے رابطے کی ہمت نہ تھی۔ پھر میری بہن کا جواب کچھ ہمت بندھا گیا۔

اب معاملہ یہاں نہیں رکتا۔ ”اب نہیں تو کب“ کے مصداق بلوچستان کے اہل صحافت کے نمائندے اور کارکنوں نے معاملے کی گمبھیر صورتحال کو بھانپ لیا۔ کوئٹہ پریس کلب اور بلوچستان یونین آف جرنلسٹ جس نے ہمیشہ صحافیوں کی بہتری کے لئے اپنے تئیں کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی کوشش کی ہے، فوری طور پر تمام میڈیا ملازمین کے ٹیسٹ کروانے کی ٹھان لی۔ چند میڈیا کے دوستوں نے انفرادی کوششوں سے ٹیسٹ کروائے وہیں کوئٹہ پریس کلب نے محکمہ صحت بلوچستان کے توسط سے صحافیوں کے ٹیسٹ کروانے کا آغاز کیا۔

ٹیسٹ کٹس کی کمی کی وجہ سے تمام میڈیا نمائندوں کے ٹیسٹ ایک ساتھ ممکن نہیں تھے۔ مرحلہ وار اس اقدام کے لئے تادم تحریر 100 میڈیا ورکرز کے ٹیسٹ ہوچکے ہیں جن میں اب تک 35 کے ٹیسٹ پازیٹو آچکے ہیں تو یہ تناسب پینتیس فیصد بنتا ہے جو کہ بہت ہی خطرناک صورتحال ہے۔

جیو ٹیلی ویژن کے ایک سیٹلائٹ انجینئر کی حالت تشویشناک ہے۔ اس ساری صورتحال میں صحافیوں کو اس وقت اگر کوئی مدد مل رہی ہے۔ وہ صرف صوبائی حکومت فراہم کررہی ہے۔ میڈیا مالکان چاہے وہ پرنٹ میڈیا سے ہویا الیکٹرانک میڈیا وہ صرف دستِ دعا ہی بلند کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ اچھا علاج تو دور کی بات ہے، ہیلتھ کارڈ دینے والے اداروں کے ملازمین بھی اس وقت ماسک سینی ٹائزر سے لے کر دستانوں تک کے لئے صوبائی حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

اچھے میڈیا اداروں نے جو ہیلتھ کارڈ دے رکھے ہیں وہ کتنے اہم اور کارآمد ہیں، اس کا خوب اندازہ ہمیں پہلے بھی تھا۔ اب کچھ یقین ہی ہوگیا کہ اس ہیلتھ کارڈ کے جو فوائد کمپنی کا ایجنٹ بتاتا ہے، ان سے متاثر تو ہوا جاسکتا ہے پر اس سے مستفید ہونا ممکن نہیں۔

ہمارے ہیلتھ کارڈ کی طرح حکومت بلوچستان کا المیہ ہے کہ صوبے میں دس سال سے ہیلتھ ایمرجنسی نافذ ہے لیکن ان دس سالوں میں ایمرجنسی میں کبھی ایک درد کشا گولی یا انجیکشن بھی نہیں ملا اگر کسی مریض کو مل گیا تو وہ خوش نصیب ہی ہوگا لیکن پھر بھی جیسے ہم میڈیا کے لوگ تہی دست دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے تھے، ویسے ہی کرونا کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔

کچھ اچھے حالات ان ڈاکٹرز کے بھی نہیں ہیں جنہوں نے کرونا کی وبا سے فرنٹ لائن پر لڑنا ہے۔ وہ بھی ایک کے بعد ایک کرکے صحافیوں کی طرح رپورٹ پازیٹو آنے کے بعد گھروں میں آئسولیشن اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ باقی پھر ہماری حالت پر فیصلہ سازوں کو رحم آئے یا نہ آئے اللہ ہی رحم فرمائے۔

کوئٹہ کے سینئر صحافی دوست نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ کرونا کا علاج احتیاط ہے۔ اگر احتیاط برتنے کی کوشش کرتے ہیں تو گھر بیٹھنا پڑے گا اور اگر گھر بیٹھتے ہیں تو میڈیا میں حالیہ بحران کے باعث پہلے ہی ڈاؤن سائزنگ رائٹ سائزنگ کے نام پر مہم چل رہی ہے۔ جو تنخواہ تین ماہ بعد ایک ماہ ملتی ہے وہ بھی ہاتھ سے جانے کا خوف آنے لگتا ہے۔ آگے کنواں پیچھے کھائی کی سی صورتحال ہے۔

بلوچستان مرکز کے لئے قیام پاکستان کے بعد سے اب تک جتنا اہم رہا ہے، اتنے ہی اہم قومی میڈیا کے لئے کوئٹہ میں قائم بیورو دفاتر ہیں تو ایسی صورتحال میں کیا کر سکتے ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی صدارت اس وقت بلوچستان کے پاس ہے۔ بلوچستان کے سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار اس وقت پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر ہیں اور بارہا میڈیا ہاؤسز اور حکومت سے صحافیوں کو فرنٹ لائن سولجر کے طور پر منوانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ بھی فیلڈ میں کام کرنے والوں کے لئے ایسی ہی سہولیات مانگتے ہیں جیسی کے ڈاکٹرز طلب کر رہے ہیں۔

آنے والے دنوں میں ہمارے ان کرونا کے مریضوں کو اللہ صحت عطا کرے کیونکہ بلوچستان میں کرونا کے انتہائی تشویشناک مریضوں کو بچانے کے لئے آخری لائن آف ڈیفنس وینٹی لیٹرز کی تعداد چالیس کے لگ بھگ ہے اور بلوچستان میں اس وقت کرونا کے اعداد و شمار کچھ یوں ہیں۔ دن میں پانچ سو کے قریب ٹیسٹ ہونے کے بعد اب تک 2457 کرونا کے مریض سامنے آئے ہیں جب کہ 31 اموات ہوچکی ہیں۔

گزشتہ دو ماہ سے لاک ڈاؤن کا جو مذاق ہم نے اڑایا اس کے اثرات تو سامنے آنے ہیں۔ اس کی روک تھام ہمارے اختیار سے باہر اور ہمارے صوبے کے صحت کے نظام کی استطاعت سے باہر ہے۔ اب بھی کچھ احتیاط سے اس خاموش دشمن کو شکست دی جاسکتی ہے۔ بصورت دیگر تباہی ہمارے کردار اور اعمال کا نتیجہ ہوگی۔ قومی و صوبائی سیاسی جماعتوں نے عوام میں شعور و آگہی کا جو کردار ادا کرنا تھا، وہ اس کے بجائے راشن کی تقسیم اور اس میں ملنے والے حصے کی سیاست سے فارغ نہیں اس لیے جیسے کوئٹہ میں کہا جاتا ہے کہ ”رمضان جانے خان جانے“ ایسے ہی قومی سیاسی قیادت کا خاموش نعرہ ہے ”کرونا جانے عوام جانے“۔ کچھ ایسا ہی حال چھ ٹکڑوں میں بٹی پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کا بھی ہے۔

شاہد رند بلوچستان کے صحافی ہیں جو کہ ٹویٹر پر @shahidrind کے نام سے موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments