متوسط یا لوئر مڈل کلاس طبقہ کہاں جائے؟


کووڈ 19 کے پیش نظر پورے ملک میں مارچ سے لاک ڈاؤن چل رہا ہے۔ جو شاید اب عید کے قریب کافی حد تک کھل جائے۔ ان دنوں میں ملک کی تقریباً تیس سے پینتیس فیصد آبادی ایسی تھی جو ڈیلی ویجز تھی بالکل فارغ ہو کر گھروں میں بیٹھ گئی۔ جن کے لیے دو وقت کی روٹی بہت بڑا چیلنج تھا، حکومت نے بھی اپنی طرف سے پروگرام چلایا اور کافی حد تک مستحق عوام کو بارہ ہزار پہنچانے کی کوشش کی، جو کہ اچھا اقدام تھا۔

ملک کے چھوٹے بڑے سبھی شہروں میں ملک کے مخیر حضرات کی جانب سے بھی ایسے لوگوں کے لیے پیسوں اور راشن وغیرہ کا بندوبست کیا گیا۔ مگر اس کے لیے آپ کو اپنی عزت نفس مارنی پڑتی ہے۔ جب راشن کے ساتھ سیلفیاں بنائی جاتی ہیں۔ ملک کے پیشہ ور بھکاری اور کمزور لوگ جن کو یہ شعور ہی نہیں ہوتا کہ یہ عزت کیا ہوتی ہے ان کے لیے روٹی ہی دین ہے۔ اور یہی عزت ہے وہ تو پہنچ جاتے ہیں۔ وہ ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں سے کچھ ملنے کی امید ہوتی ہے۔

مگر متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد جو باشعور ہیں۔ مانگنا ان کے لیے موت کے متبادل ہوتا ہے۔ اور ان کو عزت نفس پر بڑا مان ہوتا ہے۔ وہ کبھی بھی لائنوں میں لگ کر راشن نہیں لے سکتے۔ اور نا ہی سب علاقے والوں کے سامنے بارہ ہزار کے لیے ذلیل ہو سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ جو ان حالات میں سینڈوچ کی طرح درمیان میں پستے رہے ہیں۔ اس طبقے کے لیے حکومت نے بھی کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیے۔

ایسے لوگوں کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس سے زیادہ دردناک کیا ہو سکتا ہے۔ دو دن پہلے کی بات ہے میں اپنے کمرے میں لیٹا بڑے آرام سے چائے کے کپ کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنے سیل فون پر سوشل میڈیا میں کہیں گم تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی حسب معمول میں لیٹا رہا میری کوشش ہوتی ہے کہ میں باہر نا جاؤں کوئی اور دیکھ لے۔

غالباً ایک منٹ بعد پھر دستک ہوئی مجھے لگا کہ کسی نے نہیں دیکھا تو مجھے جانا پڑے گا۔ میں اٹھ کر جا ہی رہا تھا تو پھر دستک ہوئی اور اس بار کافی زور سے اور تین چار سیکنڈز تک ہوتی رہی۔ میں نے دروازہ کھولا اور غصے سے بولا دو منٹ صبر نہیں سکتا تھا؟ ہاں جی کیا مسئلہ ہے؟ ایک ادھیڑ عمر آدمی، منہ پر بڑی ہوئی شیو اور داڑھی کے سفید بال جو شاید عمر سے پہلے آئے حالات کا پتا دے رہے تھے۔

بولا! بیٹا دس دن سے کوئی دیہاڑی نہیں لگی مزدور ہوں بیٹا صبح سے بھوکا ہے۔ اللہ کی قسم میں مانگنے والا نہیں ہوں کچھ مدد کر دو۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور میری آنکھوں میں شرمندگی۔ میں نے ان سے معذرت کی اور حسب توفیق دیا۔ آج تیسرا دن ہے وہ آدمی میرے دماغ سے نہیں جا رہا۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ایسے لوگوں کو تلاش کر کے ان کی خدمت کریں۔ میں سو فیصد گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں وہ پیشہ ور بھکاری نہیں تھا۔

ان حالات میں ایسا ہو رہا ہے کہ اپر کلاس یا اپر مڈل کلاس تو گھروں میں بیٹھی بغیر کام کے گزارا کر ہی رہی ہے۔ جبکہ لوئر کلاس یعنی ایسے لوگ جن کا گزر بسر روز کی مزدوری پر چلتا تھا ان کو بھی حکومت کی طرف سے یا ہمارے مخیر حضرات کی طرف سے کچھ نا کچھ مل ہی رہا ہے۔ جبکہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سفید پوش یا متوسط طبقہ پس رہا ہے۔ جو نا مانگ سکتے اور نا ہی کوئی ان کو حکومتی امداد کا حقدار سمجھتا۔

ایسے لوگوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کریں۔ بہت سکون ملے گا اللہ بھی خوش ہوں گے۔ اللہ سب کو خوش رکھے اور کرونا جیسی وبا سے ہمیں چھٹکارا دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments