وبا کے دنوں میں انصاف


”دیکھا جو میں نے کہا تھا وہی ہوا۔ ۔ ۔“
کیا ہوا؟
”پشاور ہائیکورٹ بند ہو گیا۔ ۔ ۔“
ناٹ پاسیبل!
”کیوں؟“
بھئی نہیں ہو سکتا۔ کامن سینس کی بات ہے۔
”مگر ہو گیا۔ ۔ ۔“

تھوڑی اور نوک جھونک کے بعد فون بند ہو گیا۔ اتفاقا اخبار کھولتے ہی جس خبر پر نظر پڑی وہ بھی یہی تھی۔ اگرچہ یہ ایک کونے میں چھوٹی سی خبر تھی۔ میری یہ دوست پشاور میں رہتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے بار روم میں ہونے والی سرسری ملاقات دیرپا دوستی میں بدل گئی۔ انصاف، عدالت اور وکالت کے بارے میں ہمارے نظریات بہت مختلف ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ میرے خیالات نان پریکٹیکل ہیں۔ میرا بھی یہی خیال ہے۔ مارچ میں جب لاک ڈاؤن شروع ہوا تھا تب ہماری اس بات پر کافی بحث ہوئی۔

اس کا کہنا یہ تھا کہ کچہریوں میں لوگوں کی بہت بھیڑ ہوتی ہے۔ کرونا آسانی سے ایک بڑی تعداد میں منتقل ہو سکتا ہے۔ اس لیے عدالتیں بند ہو جانی چاہئیں۔ جب کہ میرا موقف یہ تھا کہ عدالتیں بالکل بند نہیں ہونی چاہئیں صرف ورچوئل یا آن لائن ہونی چاہئیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو انصاف نسبتاً سستا اور زیادہ آسانی سے مل جائے گا۔

عدالتیں بند کر دینے سے انصاف میں تاخیر ہو گی اور انصاف میں تاخیر عموماً انصاف کی موت کا سبب بنتی ہے۔ اس سے نا صرف عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو گا بلکہ کیسز کے بیک لاگ میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ ہو گا۔ جس طرح موجودہ حکومت ای۔ گورننس کی اہمیت جانتی ہی ٹھیک اسی طرح ای جوڈیشری بھی انصاف کی فراہمی میں اہم اور موثر سنگ میل ثابت ہو گی۔ ای جوڈیشری میں کیسز آن لائن دائر کیے جا سکتے ہیں اور اہم دستاویزات آن لائن یا ڈاک کے ذریعے جمع کروائے جا سکتے ہیں۔ تمام پیشیاں اور زبانی شہادتیں ویڈیو کالز یا کانفرنسنگ کو ذریعے ہو سکتی ہیں۔ تمام عدالتی اطلاعات اور مراسلات وٹس ایپ یا دیگر آن لائن مواصلاتی نظام کے ذریعے بھیجے جا سکتے ہیں۔ ای مینیجمنٹ اس سب میں بہت سودمند ثابت ہو گی۔

اس لاک ڈاؤن سے پہلے بھی عدلیہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو احسن انداز میں استعمال کیا جا رہا تھا۔ 1995 میں سپریم کورٹ میں پہلا کمپیوٹر استعمال کے لیے لایا گیا۔ اور اب پورے پاکستان میں تمام عدالتی نظام کمپیوٹرائزڈ ہے۔ ہائی کورٹس میں ڈیجیٹل کیس مینجمنٹ بھی جاری ہے۔ ہر ضلع کچہری میں تقریباً ایک ای کورٹ روم پہلے سے موجود ہے جس میں حساس نوعیت کے کیسز کی آن لائن کارروائی ہوتی ہے اور ججز کی آن لائن میٹنگز بھی۔

سپریم کورٹ بینچز میں بھی یہ طریقہ فروغ پا رہا تھا۔ سپریم کورٹ ہی سے کیسز کے فیصلہ جات کے لیے ایک اور مفید اقدام اٹھایا گیا۔ جس کے مطابق موجودہ کیسز کے فیصلوں کے لیے مصنوعی ذہانت کے ذریعے سے گزشتہ اہم کیس لاز سے آسانی سے مدد لی جا سکتی ہے۔ آج کل ہر انسان کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔ ہر ایک کے پاس ویڈیو کال والے موبائل فون ہیں۔ کورٹ روم میں ایل ای ڈیز آرام سے نصب کی جا سکتی ہیں اور جج، وکلا اور تمام فریقین مقدمہ آسانی سے روزمرہ کی عدالتی کارروائی کو بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔

یہ طریقہ کار نیا نہیں ہے۔ دیگر ممالک بھی اس سے ایک عرصے سے مستفید ہو رہے ہیں زیادہ تر ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں شہادت ریکارڈ کرنے کی لیے ویڈیو کانفرنسنگ کی اجازت ہے، مکمل ٹرائل کووڈ 19 سے پہلے کبھی بھی آن لائن نہیں ہوا۔ ۔ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ بھی ویڈیو کانفرنسنگ ک ذریعے شہادتیں سننے اور کیس چلانے کو مانتی ہے۔ سب سے پہلے 1972 میں امریکہ میں ویڈیو کے ذریعے ایک ضمانت کا کیس سنا گیا۔ جس کے بعد آج تک بڑے پیمانے پر امریکی عدالتیں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہیں۔

2016 میں امریکی سول جسٹس سسٹم کی بہتری کے لیے جن 13 تجاویز کو قبول کیا گیا ان میں سے ایک ٹرائل بذریعہ ویڈیو کانفرنسنگ اینڈ ورچوئل ٹولز بھی تھی۔ 2008 میں یورپی یونین نے بھی یورپین ای جسٹس پلان کا آغاز کیا۔ اس سے پہلے یورپی یونین کے شہادت سے متعلقہ ضوابط میں ویڈیو کال کی اجازت تھی۔ یوکرائن کے قوانین اپنے شہریوں کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ٹرائل کی درخواست دے سکتے ہیں۔ انڈیا نے 2003 میں پہلی بار بیرون ملک مقیم گواہ کی آن لائن شہادت ریکارڈ کروانے کی اجازت دی۔ اس کے بعد پاکستان میں بھی متعدد بار یہ اجازت دی گئی۔

پاکستان کے بہت سے قوانین ویڈیو ٹرائل کی اجازت دیتے ہیں مثال کے طور پر گواہان کی حفاظت کا قانون 2010 اور 2016۔ اس پیٹرن کو تمام عدالتوں میں نافذ کرنا آسان ہے۔ قانون شہادت آرڈر کا آرٹیکل 164 کسی بھی سائنٹفک طریقے سے حاصل کی گئی شہادت کو قابل قبول قرار دیتی ہے۔ اسی اصول پر مکمل ای جوڈیشری کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ ماضی کی ایک فلم کا ایک ڈائیلاگ بہت مشہور ہوا کہ چھٹی والے دن مجرم تو جرم کرنا بند نہیں کرتے تو عدالتیں کیوں چھٹی کرتی ہیں۔

کیا اس لاک ڈاؤن میں تمام غیر قانونی کام رک گئے ہیں کہ عدالتیں بند بھی رہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا؟ جنگ عظیم کے دنوں کا چرچل کا کہا بھی یاد آتا ہے کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں تو ہمیں شکست نہیں دی جا سکتی۔ وبا کے دن بھی تقریباً جنگ کے دنوں جیسے ہی ہوتے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق 31 مئی تک صرف ضمانت کے متعلقہ سماعت ہو گی۔ فلم کا جج بھی چھٹی والے دن کم از کم ارجنٹ میٹرز تو سنتا ہی ہو گا۔ کیا کورٹ بند کر دینے سے بہتر نہیں کہ کم از کم 3 ماہ تک تمام عدالتی کارروائیاں آن لائن یا ورچوئل کر دی جائیں۔

ای کورٹ پاکستان میں موبائل کورٹ کی متبادل ہو سکتی ہے۔ اسے ہم لاک ڈاؤن کے بعد بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس کے بہت سے معاشی اور معاشرتی ثمرات ہیں۔ امریکہ، یورپ اور روس میں اس نظام کی ذریعے کروڑوں ڈالر بچائے جاتے ہیں۔ تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک کی اعلٰی عدلیہ نے کووڈ 19 کے متعلقہ عدالتی کارروائی کے پروٹوکول جاری کیے ہیں جن کے مطابق وبا ختم ہونے تک تمام عدالتی کارروائی آن لائن ہو گی۔ عدالتیں بند کر دیں تو انصاف کا قتل ہوتا ہے، نہ بند کریں تو کرونا پھیلتا ہے۔ ۔ ۔ اس سب کا مناسب حل وہی ہے جو لاہور ہائیکورٹ نے کیا ہے۔ گزشتہ ماہ لاہور ہائیکورٹ نے آن لائن مقدمات کے دائر کرنے اور پیروی کا آغاز کیا۔ ملک کی دیگر اعلٰی اور ماتحت عدلیہ میں یہی نظام لاگو کر کے عدالتی چھٹیاں منسوخ کر دینی چاہئیں۔

مصنفہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور قانونی معاملات اور حالات حاضرہ پر لکھتی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments