فیس بک کے چوراہے پہ قائم شاپنگ مال


فیس بک ایک چوراہا ہے۔ جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں اور ہر سوچ کی دکانیں بلکہ بڑے بڑے شاپنگ مالز بڑے دھڑلے سے اپنا کاروبار چمکاتے ہیں۔ ان شاپنگ مالز میں آپ کو مذہب، سیاست، تفریح، جنس غرض انسانی فطرت کے تمام روپ بدرجہ اتم ملیں گے۔ اب آپ کی صوابدید پہ ہے کہ آپ اپنا پڑاؤ کس دکان یا فرنچائز پہ ڈالتے ہیں اور کتنی دیر تک ڈالے رکھتے ہیں۔

لیکن جب سے رمضان شروع ہوا ہے فیس بک کے وہ محترم لکھاری جن کی قلم کی جولانیاں عموماً مذہب کے خلاف ہی صرف ہوتی تھیں۔ ان کا قلم کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی مانند یک دم دن دگنی رات چوگنی ترقی کر گیا ہے۔ لگ بھگ وہی پرانے اعتراضات نئے انداز سے رمضان کے مہینے میں اس تواتر سے مارکیٹ میں لائے جا رہے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی دکان بلکہ شاپنگ مالز پہ کچھ دیر پڑاؤ ڈالنے کو دل کر ہی دیتا ہے اور اس پڑاؤ کا اختتام جذباتیت سے کیا گیا تحریری اور غیر تحریری کمنٹ ہوتا ہے۔

کہیں جنت اور دوزخ زیر بحث ہوتے ہیں۔ کہیں علما کی ”ٹکا“ کے کلاس لگی ہوتی ہے۔ کہیں دینی کتابوں کے وہ پرانے حوالے (جو خود بہت سے علما نے نہیں پڑھے ہوں گے ) نکال کر مذہب اور مذہب سے محبت کرنے والوں کی طبیعت صاف کی گئی ہوتی ہے۔ اور ان تمام پہ مستزاد کمنٹس کی وہ لمبی قطار جن میں مدعی سست اور گواہ چست والی صورتحال بزبان حال کہہ رہی ہوتی ہے کہ

اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں میری رسوا
اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں

بندہ لمحہ بھر سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں جب ملک کے بیشتر لوگ شعوری اور لاشعوری طور پر ایک دینی رکن کی بجا آوری پہ دامے درمے سخنے مصروف عمل ہیں صرف مذہب کو مشق ستم بنانے سے کیا حاصل؟ آخر ان محترمین کو پریشانی کیا ہے؟

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس جناب کو کیا پریشانی ہے؟
جی ہاں پریشانی ہے۔

پہلی پریشانی یہ کہ انھیں ملتا کیا ہے؟ رمضان کے مہینے اس طرح کے موضوعات چھیڑ کر۔ کیا ان نابغہ روزگار ہستیوں کے پاس موضوعات کی کمی ہے۔ کیا انسانیت انسانیت کے راگ میں کسی دوسرے کی دل آزاری نہ کرنے والا کوئی سر نہیں۔ چلیں آپ کے پاس تو الفاظ کے چناؤ کا ہنر ہے۔ کمنٹس والے حضرات تو ایک ہی کمنٹ میں اپنا تعارف کروا دیتے ہیں۔ اور مزے کی بات! آپ مذہب کو رگیدیں، آپ ملک کو گالی دیں پھر دیکھیں ہم خیال اور اختلاف رائے رکھنے والوں کے لشکر کے لشکر حملہ آور ہوتے ہیں۔ کیسی کیسی تاویلیں اور کیسے کیسے انکشافات کا کمنٹس میں دیدار ہوتا ہے۔

دوسری پریشانی یہ کہ وہ طبقہ جن پہ ان اعتراضات کے علمی جواب کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے انھیں تو اک دوجے سے ہی فرصت نہیں۔ یہاں ایک پہلو بڑی شدت سے واضح ہوتا ہے کہ شاید ان کے نصاب میں یہ چیز ڈالی ہی نہیں جارہی کہ اب اس میدان میں بھی گھوڑے دوڑانے ہیں۔ اب ایک دوسرے کو کافر کافر یا کمزور مسلمان کہنے پہ ہی سارا زور لگانے کی بجائے دلیل کی قوت سے آراستہ ہوکر ٹھنڈے پیٹوں اگلے کو سننے کی صلاحیت بھی بڑھانی ہے نہ صرف بڑھانی ہے بلکہ اس ہنر میں اتنا یکتا ہونا ہے کہ فریق مخالف کسی درجہ مطمئن بھی ہو۔

حسرت ہی رہی کسی سلگتے یا متنازعہ موضوع پہ دونوں اطراف سے ایسی گفتگو سننے کو ملے جس میں فریق مخالف ایک دوسرے کی دلیل گو مانے نہ کم سے کم رد کرنے سے پہلے سوچ میں ہی پڑ جائے۔ نہ ماننے کی بات اس لئے کی کہ میں کم از کم نہیں مانتا کہ عمر کے اس درجے میں فیس بک کی کمنٹس بار میں مخالفت میں دی گئی دلیل مان کر اپنے موقف سے کوئی رجوع کر سکتا ہے۔

تیسری پریشانی یہ ہے کہ جب اعتدال کا پیمانہ ڈھلک جاتا ہے تو پھر معاملات ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں اور کوئی نہ کوئی سانحہ وقوع پذیر ہوجاتا ہے۔ پھر بہت سی وہ باتیں سننا پڑتی ہیں جن کا فسانے میں ذکر ہی نہیں ہوتا۔ نتیجتاً دونوں اطراف شدت پسندی کی اک نئی پود کاشت ہوجاتی ہے۔ جس سے مکالمے کی تشکیل پاتی فضا شدید مکدر ہوکر کافی حد تک ناقابل اثر ہوجاتی ہے۔

چوتھی اور آخری پریشانی یہ کہ ہم علما کو تو کوستے ہیں کہ جی کہ دنیا چاند پہ پہنچ گئی اور انھیں وضو کے مسائل سے فرصت نہیں یا انھیں اپنے جھگڑوں سے فراغت نہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ بھی تو اٹھتا ہے کہ یہ تمام اعلی ہستیاں جن کی والز میں سوائے نکتہ چینیوں کے کچھ بھی نہیں انھوں نے ملک و قوم کو کیا دیا؟

واللہ میں جب قابلیت کے پیمانے کی بنیاد پہ فیس بک پہ کچھ بڑے نام (جن کی توپوں کا نشانہ عموماً مذہب ہی ہوتا ہے ) کی والز میں جھانکتا ہوں تو دل بجھ سا جاتا ہے کہ کاش یہی صلاحیتیں جو خامیوں کی نشاندہی پہ لگ رہی ہیں، تربیت پہ ہی لگ جاتیں۔ وہ غم جو محبت کے سوا ہیں ان غموں کے مٹانے پہ ہی لگ جاتیں۔ وصل کی راحت سے سوا راحتوں کی تقسیم پہ ہی لگ جاتیں۔

فیس بک کے چوراہے پہ قائم شاپنگ مالز میں صرف ایک مخصوص شاپنگ مال سے کیا گلہ یہاں تو اکثر شاپنگ مالز بس اپنا اپنا مال بیچنے میں شب و روز مصروف ہیں لیکن کاش یہ اس ملک کی معاشرتی ضروریات کو ہی سمجھ سکتے۔ کاش اس ملک کو سماجی لحاظ سے کیا درکار ہے ان کی دکانیں اس سامان سے بھی لبریز ہوتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments