ٹرانسپورٹ بحالی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں


وزیر اعظم پاکستان نے وزرائے اعلیٰ سے درخواست کی ہے کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ کھول دیں اور جواز کے طور پر حوالہ دیا ہے کہ جب امریکا اور یورپ میں پبلک ٹرانسپورٹ بند نہیں ہے تو ہم نے کیوں بند کی ہوئی ہے۔

مسئلہ سارا کا سارا یہی ہے کہ ہم ہر معاملے میں یورپ اور امریکا کی طرف دیکھنے کے عادی ہیں یہاں تک کہ ہمارے یہاں تیار کی جانے والی بہت ساری مصنوعات کے اشتہارات میں بھی یہی حوالہ ہوا کرتا ہے کہ یہ پراڈکٹ فلاں ملک کی تصدیق شدہ یا ایوارڈ یافتہ ہے۔ جو اشیا بھی مختلف ترقی یافتہ ممالک سے تصدیق شدہ یا ایوارڈ یافتہ ہوتی ہیں، خریدار بھی ان کے دیے گئے سرٹیفکیٹ یا انعامات کو، نعوذ باللہ، حدیث قدسی اور اللہ کی عطا سمجھ کر اس طرح قبول کر لیتے ہیں جیسے ان اشیا کو خرید کر وہ دونوں جہانوں کا اجر و ثواب حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں۔

پاکستان میں کورونا دیگر ممالک کی نسبت زیادہ تاخیر سے تشریف لایا۔ نہ صرف کورونا نے ملک میں داخل ہونے میں تاخیر دکھائی بلکہ دوڑتے بھاگتے آنے کی بجائے بہت ٹہلتے اور چہل قدمی کے سے انداز میں داخل ہونا پسند کیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کے پاس کورونا سے اپنے آپ کو محفوظ کر لینے کے لئے کافی وقت تھا لیکن ہمیشہ کی طرح ہم نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ لاڈلا خیال کرتے ہوئے یہی قیاس کر لیا کہ اول تو دلی ابھی بہت دور ہے اور اگر کھینچ کھانچ کر دلی کو قریب بھی کر لیا گیا تو ہماری ٹوٹی پھوٹی نمازیں، بے دلی والی عبادتیں، حج، عمرے، خیراتیں اور زکاتیں ہمیں ان آفات سے محفوظ ہی رکھیں گی اور کورونا ہمارے ملک سے سر پٹختا ہوا بھاگ کھڑا ہوگا مگر شتر مرغ اگر ریت میں سر دے کر کھڑا ہو جائے یا کبوتر خطرے کے وقت آنکھیں موند لے تو خطرات اور آفات ٹلا نہیں کرتیں بلکہ آفات سے پیش بندیاں ہی انسانوں اور انسانوں کی بستیوں کو محفوظ بنایا کرتی ہیں۔

پیش بندیوں کی بجائے ہماری لاپرواہیاں ہمارے گلے پڑیں اور ہماری غفلتیں کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بنیں جس کی سزا پورے پاکستان کو بھگتنا پڑ رہی ہے اور اب یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اس آفت ناگہانی سے کب نجات حاصل ہو گی۔

کورونا آسمان سے نازل ہونے والا وائرس یا بموں میں بھر بھر کر برسائے جانے والے میزائلوں سے تو کسی بھی ملک میں نہیں پھیلا ہوگا، ایک دوسرے ملک کی زمینی، سمندری یا فضائی حدود کی آزادانہ آمدو رفت کی وجہ سے ہی دنیا کے سارے ممالک میں پھیلا ہوگا۔ دنیا کے بیشمار ممالک تو لاعلمی میں کورونا کی لپیٹ میں آ گئے تھے لیکن پاکستان کے کان تو بہت پہلے کھڑے ہوجانے چاہئیں تھے مگر دنیا بھر میں ہر قسم کی آمد و رفت کا بند ہوجانا دیکھنے، شہروں کے شہر لاک ڈاؤن ہونے کی خبروں کے باوجود ہم بیل سے یہی کہتے نظر آئے کہ آؤ اور ہمیں مارو۔ جب دنیا کا دباؤ ہم پر آیا اور ملک کے اندر کورونا کا رونا مچا تو ہم نے وہی سب کچھ اختیار کیا جو دنیا کر رہی تھی۔ کورونا سے بچاؤ کے لئے بھی ہم نے دیکھا تو دنیا کی جانب ہی دیکھا اور اب ساری احتیاطوں کو بالائے طاق رکھنے کی جانب بڑھ رہے ہیں تو بھی سارے اشارے وہیں سے آ رہے ہیں۔

کاروبار کے کھول لینے کی آزادی کے ساتھ ہی پبلک ٹرانسپورٹ لازم و ملزوم ہے اس لئے اب اسے بحال کرنے کی جانب بھی غور کیا جا رہا ہے لیکن کورونا کے پیش نظر جن احتیاطی تدابیر کو اختیار کیا جانا ضروری ہے کیا پبلک ٹرانسپورٹ کی بحالی میں ان پر عمل در آمد یقینی بنایا جا سکے گا؟ ، یہ ہے وہ سوال جو بہت ہی غور طلب ہے۔ سماجی فاصلے برقرار رکھنے کا مطلب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ جن بسوں، ہوائی جہازوں یا بین الصوبائی چلنے والی ٹرینوں اور بسوں میں سیٹوں کی جو بھی گنجائش ہوتی ہے اس سے 75 فیصد کم سواریاں سفر کریں تو کہیں جاکر سماجی فاصلوں کو بر قرار رکھا جا سکتا ہے۔

ایسی صورت میں فی سواری کرایہ 4 گنا بڑھایا جانا ضروری ہو جاتا ہے ورنہ ٹرانسپورٹرز اپنے ایندھن کے اخراجات بھی پورے نہ کر سکیں گے۔ پھر یہ کہ گاڑیوں کے تمام شیشے بہر صورت کھلے رکھنے ضروری ہوں گے ورنہ پوری بس میں ایک کورونا زدہ بھی تمام تندرست انسانوں کی بیماری کا سبب بن سکتا ہے۔ پاکستان کے شدید موسم، بے تحاشا بڑھے ہوئے کرائے اور لوگوں علمی کم مائیگی شاید ہی اس قسم کی آزادی اور مہنگائی کو برداشت کر سکے۔

ہم دنیا کا حوالہ تو ضرور دیتے ہیں لیکن جس دنیا کا حوالہ دے رہے ہوتے ہیں وہاں کے وسائل اور عام عقل و سمجھ کا موازنہ نہیں کر رہے ہوتے۔ اگر کئی ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ چلنے لگی ہے تو کیا وہاں چھتوں تک لوگ سوار ہوکر سفر کرتے ہیں یا جہاں اسکول کھول دیے گئے ہیں وہاں جیسا انتظام ہم کسی ایک اسکول کے لئے بھی کر سکتے ہیں؟

بے شک ہمیں کورونا کے ساتھ ہی زندہ رہنا ہوگا لیکن جو اقدامات اٹھائے جانے کا اعلان کیا جا رہا ہے، وہ زندہ رہنے دیں گے؟ یہ ہے وہ سوال جس پر غور کیے بغیر مثبت نتائج کا سامنے آنا کسی طور ممکن نہیں لہٰذا جو فیصلہ بھی ہو وہ جلد بازی میں نہ کیا جائے بصورت دیگر مستقبل کوئی اچھی خبر دیتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments