خدا کے کاموں میں دخل اندازی


خالق کائنات نے اس پوری کائنات کو چھ دن میں بنایا اور اور پھر خود عرش پہ مستوی ہو گیا۔ فرشتے پیدا کیے جن و انس کو پیدا کیا، اور پھر فرشتے تو رب کائنات کے مامور ٹھہر ے لیکن جن و انس کو خیر و شر کے ساتھ اپنی مرضی کا مالک بنا دیا اور ان کی رہنمائی کے لئے وقتاً فوقتاً اپنے پیامبر بھی مبعوث کیے جو لوگوں کو اچھائی اور برائی دونوں واضح کر دیتے لیکن کسی کو جبراً اچھائی پر لانے کا حکم انبیا کو بھی نہیں دیا گیا بلکہ انسان کو اس کے انتخاب پہ چھوڑ ا اس کی مرضی و منشا پہ چھوڑ ا تا کہ جزا و سزا انسان اپنے کرموں سے پائے، آدم علیہ السلام سے موسیٰ و عیسیٰ و جناب محمد رسول اللہ تک سب انبیا اسی دین کی تبلیغ کرتے رہے اور یہی دین اللہ نے تمام انسانوں کے لئے روز اول سے لے کر قیامت تک جاری کیا۔

جو کام فرشتوں کے کرنے والے تھے وہاں رب العزت نے انسانوں کو ملوث نہیں کیا اور جو کام اللہ نے خود کرنے تھے وہاں نہ کسی نور و بشر، کو شامل کیا نہ جنات کو۔

تو اللہ کے کاموں میں دخل اندازی کرنا کسی ذی روح کے لئے محال ہے۔ کون جنتی ہے کون آگ میں جلے گا کون کتنا نیک، متقی و پرہیز گار ہے اس کا اختیار و علم اس مالک نے روز ازل سے صرف اپنے پا س رکھا، تقوی و پرہیز گار ی کا تعلق کسی خاص لباس یا ہیٹ یا عمامہ اور ٹوپی پہن لینا، یا کسی جبہ پہن لینے میں نہیں بلکہ اللہ کے حبیب ﷺ نے تین مرتبہ اپنے سینہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا کہ تقوی یہاں ہے تمہارے سینے میں۔

آج ہمارا اسلام کچھ مذہبی پیشواؤں کے نزدیک ٹو پی کے بغیر نا مکمل ہوتا ہے، اور تقویٰ کے لئے تو جب تک آپ خاص قسم کے پہناوے کے ساتھ پورے ذوالجناح نہ بنے متقی کا سوچیں بھی مت، ساری ساری بحث لباس کے اسلامی اور غیر اسلامی ہونے میں گزر جاتی ہے پہلے تو کافی علما پینٹ شرٹ پہنے والے کو ہی اسلام سے خارج تصور کرتے تھے وہ تو بھلا ہو ڈاکٹر ذاکر نائیک کا جنہوں نے خود اس لباس کو پہن کر بہت سے نام نہاد مذہبی علامہ کے منہ بند کیے ورنہ آج ہمیں یورپی مسلمانوں کو بھی شلوار قمیض زیب تن کرانی پڑتی۔

پہلے پہل تو ہمارے برصغیر کے دو نامور فرقے اک دوسرے کو کافر اور دین اسلام سے خارج اور واجب القتل قرار دیتے تھے اور باقاعدہ اس کے فتوے ان کی کتابوں میں ہیں پھر جیسے جیسے شعور کی منزلیں طے ہوئی لوگوں نے مذہبی پیشواؤں کو ہی عقل کل ماننے کی بجائے خود کتابیں پڑھنا شروع کی تو کافر کافر کی گردانیں کم ہوئیں۔

لیکن چونکہ مذہبی بابوں کو پتہ ہے کہ برصغیر میں پر جوش اور کم فہم طبقے کو مذہب کے نام پر جوش دلا کر اپنی اجارہ دری قائم کر سکتے ہیں تو ان نام نہاد مذہبی پیشواؤں نے تقوی کی تعریف ہی بدل دی، تقویٰ سینے اور آپ کی اندرونی کیفیت سے نکل کر پگڑ ی و ٹوپی اور لمبی داڑھی میں آ گیا، جن کاموں کا فیصلہ خالق حقیقی نے کرنا ہے وہ آپ خود کر سکتے ہیں، اب آپ کسی کو ظاہراً دیکھ کر معلوم کر سکتے ہیں کون کتنا متقی و پرہیز گار ہے، کون اللہ کے زیادہ نزدیک ہے اور کون جہنم میں جائے گا یہاں تک کہ ہم نے دیکھا کئی ایک علما نے تو حاکم وقت کی خوشنودی کے لیے ان کو پاکبازی صادق امین اور پرہیز گاری کے فتوے بھی دے دیے اور پھر میڈیا پر باقاعدہ اس کی وضاحتیں بھی دی۔ اور جس کسی کو ان علما نے کافر قرار دیا آپ بھی اس کو کافر کہیں گے تو آپ کا اسلام سالم ہے ورنہ آپ بھی کافر ہو جائیں گے۔

ان علما کے مطابق آپ اگر شادی شدہ ہیں اور فیملی پلاننگ کا سوچ رہے ہیں تو آپ اللہ کے کام میں دخل اندازی کے مرتکب ہوں گے، اگر آپ نے اپنی شکل و صورت کو چھیڑ ا یا داڑھی کو کاٹا تو آپ اللہ کے کاموں میں دخل اندازی کریں گے۔

لوگوں کے ایمان و اللہ سے معاملات کے آپ جو مرضی فیصلے لیں لیکن اللہ کے کاموں دخل انداز ی نہیں ہو گی۔

آج ان علما نے لوگوں کو پگڑیاں تو بندھوا دیں ان کی شلوار یں ٹخنوں سے اوپر کروا دی، لیکن لوگوں کو ایمان کی حرارت سے روشناس نہ کروا سکے، سب کو داڑھیاں تو رکھوا دی لیکن ان کی معاملات اور معاشرے میں اخلاقیات درست نہ کروا سکے، جس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہر علامہ و مبلغ نے داڑھی اور ٹوپی کو ہی اسلام اور تقویٰ قرار دیا۔ کسی واعظ نے کبھی اللہ کے حبیب کی اس بات پہ زور نہیں دیا کے جس ملک میں رہتے ہو اس کے قانون پہ عمل کرنا اطاعت کے تین بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، جس نبی نے پوری عمر لوگوں کی راستے سے مشکلات ختم کیں اس نبی کا نام لے کر توڑ پھوڑ اور لوگوں راستے بند کرنا کیسے اسلام کا طریقہ ہو سکتا ہے۔

اک اور موقع پہ اک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت حاضر ہوئی اور عر ض کی کہ آ قا مجھ سے گنا سرزد ہوا (جس کی سزا موت ہے ) مجھ پر حد لگا کر مجھے پاک کیجیے، آپ نے در گزر کیا اور منہ دوسری طرف پھیر لیا، اس عورت نے تین بار اسی بات کو دہرایا تب آپ نے صحابہ کی اک جماعت کو حکم دیا کہ اسے رجم کر دو، جب اس کو رجم کیا گیا تو اس کے خون کے چھینٹے اک صحابی کے کپڑوں پر گرے اور وہ اس عورت کے بارے کہنے لگے تم خود تو ناپاک (جہنمی) تھی مجھے بھی ناپاک کر دیا، تو آ قا دو جہاں ﷺ نے صحابی کو سخت ڈانٹ پلائی اور فرمایا اس عورت نے جو توبہ کی وہ پورے مکے شہر میں تقسیم کی جائے تو اللہ پورے شہر کو بخش دے۔

تو حضور والا شاید آپ فیملی پلاننگ یا داڑھی رکھنے اور کاٹنے سے جس میں پورا آپ کا اختیار ہے اللہ کے کاموں میں دخل اندازی نہ کریں، لیکن اک دوسرے پہ کفر اور قتل کے فتوے لگا کر آپ ضرور اللہ کے کاموں میں دخل اندازی کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ دخل اندازی روز قیامت نہ تو اللہ آپ کو معاف کرے گا اور نہ وہ بندہ جس کو آپ نے کافر کہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments