شیر جہان ساحل دہشت گرد نہیں ہے


شیر جہان ساحل کا گاؤں میرے گاؤں سے صرف تین کلومیٹر دور ہے۔ میرے اور ان کے گاؤں کا راستہ مشترک ہے، بازار مشترک ہے، عیدگاہ مشترک ہے، تعلیمی ادارے، ہسپتال، اور ٹرانسپورٹ کا اکلوتا اڈہ بھی مشترک ہے۔ اس کے باوجود میری کبھی شیر جہان ساحل سے ملاقات نہیں ہوئی۔

پہلی بار ان کا نام تب سنا جب ”ہم سب“ پر ان کا ایک مضمون نظر سے گزرا، مضمون سے متفق نہ ہونے کے باوجود انداز بیان پسند آیا تو کھوج لگائی کہ یہ کون ہے جو ایسا بے باک لکھتا ہے۔ تھوڑی سی مغز ماری کی تو پتہ چلا کہ لکھاری میرے ہی علاقے کا بندہ ہے اور یوں میں نے فیس بک پر شیر جہان ساحل کو ڈھونڈا اور دوستی کی عرضی بھیج دی۔ یہاں سے ہماری فیس بک دوستی شروع ہوئی۔ اس دوران بہت کم ہی ایسے مواقع آئے جب میں شیر جہان ساحل کے موقف سے متفق ہو پایا، کئی بار انہوں نے حدود و قیود کو پار کیا۔

بعض اوقات انہوں نے ایسے مسائل پر کھل کر لکھنا اور بولنا شروع کیا جو ہم جیسے ازل سے ڈرے سہمے ہوئے لوگ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتے۔ شیر جہان ساحل کے گاؤں کے ایک سیاستدان اور سابق صوبائی وزیر ان سے اتنے تنگ تھے کہ ان کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوئے، لیکن شیر جہان ساحل کی رفتار میں کمی نہیں آئی۔

شیر جہان ساحل سیاسی کارکن ہیں یا صحافی یہ تمیز کرنا مشکل ہے لیکن ہر اس مسئلے پر جو براہ راست عوام سے متعلق ہو، شیر جہان ساحل کا دو ٹوک موقف ضرور سامنے آتا۔ وہ مذہب کے بجائے انسانیت پر یقین رکھتا ہے اس لیے چترال میں دونوں مسالک (سنی، اسماعیلی) کے مذہبی رہنما اکثر ان کے نشانے پر ہوتے۔ سوشل میڈیا پر ان کی باتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ سیاست میں پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹر ہیں اور عمران خان کے پیروکار ہیں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں موجود بد عنوانیوں کو لے کر شیر جہاں ساحل نے انتہائی موثر مہم چلائی اور مبینہ طور پر بد عنوانیوں میں ملوث سیاسی رہنماؤں پر ایک عرصے تک گرجتے برستے رہے۔ چترال میں جمعیت علمائے اسلام کی سیاست کے شدید ترین حریفوں میں سے ایک ہیں اور اکثر جے یو آئی کے رہنماؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں شاہد آفریدی کی چترال آمد پر سماجی فاصلے کی دھجیاں بکھیری گئی تو انہوں نے ضلعی انتظامیہ کا بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

اسی معاملے پر جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے اور ڈی سی چترال کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تو شیر جہاں ساحل نے کھل کر جے یو آئی کے ایم پی اے کا ساتھ دیا اور ضلعی انتظامیہ کو ہی اس نا اہلی کا ذمہ دار ٹھہرایا جنہوں نے انتہائی سخت لاک ڈاؤن کے دوران چترال پریڈ گراؤنڈ پر شاہد آفریدی کے لیے امداد وصول کرنے والوں کا جلسہ لگا کر وبا کے خلاف اٹھائے گئے تمام اقدامات پر پانی پھیر دیا۔

چند دن پہلے چترالی صحافیوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں یہ خبر آئی کہ شیر جہان ساحل کا نام اینٹی ٹیررازم ایکٹ کے تحت شیڈول فور میں شامل کیا گیا ہے جس کے بعد ان پر سوشل میڈیا کے استعمال، اور نقل و حرکت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ شیر جہان ساحل پر الزام یہ لگایا گیا ہے کہ وہ مذہبی اختلاف کی باتوں کو ہوا دے رہا ہے جس سے چترال کے امن کو خطرہ ہے۔ شیر جہان ساحل پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ سول انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ شیر جہان ساحل چترال کے دو بڑے مسالک ( سنی اور اسماعیلی ) رہنماؤں پر تنقید کر کے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کر نے کے بھی ملزم قرار دیے گئے۔

ان الزامات کے تحت شیر جہان ساحل کا نام ان لوگوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جو دہشت گردی میں ملوث ہوتے ہیں یا دہشت پھیلاتے ہیں اور یوں شیر جہان ساحل کو بیک جنبش قلم ایک سیاسی کارکن اور صحافی سے دہشت گردی کا ملزم بنا دیا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اب سوشل میڈیا کا سہار بھی نہیں لے سکتے جو ان کا بڑا ہتھیار تھا۔ شیر جہان ساحل کے لیے آواز بلند کرنے والے بھی کم ہی ہوں گے کیونکہ انہوں نے اکثر لوگوں کو خود سے ناراض کر لیا تھا۔ شیر جہان ساحل سے اختلافات اپنی جگہ لیکن چترال میں شاید ہی کوئی ہوگا جو اس بات پر یقین کرے گا کہ شیر جہان ساحل دہشت گردی پھیلانے میں ملوث تھے۔

شیر جہان ساحل کے مخالفین کی کمی نہیں اس لیے یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اس اقدام کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے تاہم اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو کل کو ہر اس بندے کا نام شیڈول فور میں شامل کیا جائے گا جو تھوڑا بہت بولنے اور لکھنے کی سکت رکھتا ہے۔ آج ہمیں شیر جہان ساحل کے لیے آواز اٹھانا ہوگی، ہم چپ رہے تو اللہ نہ کرے کسی دن ہم میں سے کسی کی آواز دبانے کی کوشش ہوگی اور ہمارے لیے بولنے والا کوئی نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments