کچھ ادارے کام کر رہے ہیں، کچھ لوچ تل رہے ہیں


ایک گاؤں سے دیہاتی کندھے پر گٹھری اٹھا کر شہر آیا، یہاں اس نے بڑے سڑکوں پر گاڑیاں فراٹے بھرتی، ادھر سے ادھر آتے جاتی دیکھیں، بڑی دکانیں اور ان کے اندر شاندار اور پرکشش اشیاء پر نگاہیں ڈالیں، سب مناظر اس کے لیے نہایت دلکش تھے، ایک بازار میں پکوان تیار ہو رہے تھے، ایک جانب بڑی کڑاہی میں ایک شخص مہارت سے روٹی پکانے کے انداز میں کچھ فرائی کر رہا تھا، اس نے پوچھا کیہہ تل رہے او (کیا تل رہے ہو؟)، جواب ملا، لوچ تل رہیا آں (لوچی تل رہا ہوں)۔

دیہاتی کو بڑی بھوک لگی تھی، کچھ سوچنے کے بعد اسے یاد آیا، اپنے سامان میں بھی گھر سے پراٹھے بناکر لایا ہے، کیوں نہ اسے بھی اس عمل سے گزارا جائے، وہ دکاندار سے بولا، بھائی جی، ساڈا وی لوچ تل دیو (ہمارا بھی لوچ تل دو)۔ لوچ شاید اس نے پراٹھے کے بڑے سائز کی وجہ سے کہہ دیا۔

یہ لوچ تلنے یا لوچ فرائی کرنے کا پس منظر کچھ ایسا ہی ہے۔

اگرچہ لوچ یا لچ کے لغوی معنی بد چلن، بد معاش، بد وضع، بد کار، آوارہ، اوباش، بد اطوار کے ہیں، اکثر مونث کے طور پر استعمال ہو جاتے ہیں۔

خیر ہمارا موضوع لوچ فرائی ہے، یہ اس وقت پیش آتا ہے، یا دیکھنے میں ملتا ہے، جب کوئی کام معمول کے مطابق ہورہا ہو، اچانک کہیں سے کوئی نمودار ہوتا ہے، وہ نہ صرف میدان میں کود پڑتا ہے بلکہ اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیتا ہے۔

بس یہی موقع ہوتا ہے جب لوچ فرائی کرنے کی بات ذہن میں آتی ہے۔

ہمارے ملک کی تاریخ اور سیاست پر نگاہ دوڑائیں، بے شمار واقعات نہ صرف یاد آ جائیں گے بلکہ وہ ہماری زندگیوں پر انمٹ نقوش چھوڑ چکے ہوتے ہیں، جن میں کبھی کوئی ریاستی ادارہ یا پھر اس سے وابستہ کوئی اہم شخصیت ہمیں باقاعدہ لوچ فرائی کرتی ملے گی۔

یہ بات غیرسنجیدگی سے نہیں، ایک سچی حقیقت کے طور پر موضوع بحث لائی ہے، عوام یہ تماشے دیکھتے رہے ہیں، انہیں معلوم بھی نہیں ہوتا، کس کا اصل کام تھا کون بیچ میں کود پڑا، حقیقی کردار کہیں گم ہوجاتا ہے۔

پارلیمنٹ کسی دور میں قانون پاس کرتی، صدر سب کچھ ختم کردیتا، حتیٰ کہ اس ادارے کو سرے سے تحلیل کردیتا۔ اسی طرح ریاست کے اہم ادارے جب محسوس کرتے ہیں کہ حکومت کچھ درست یا ان کے مزاج سے ہٹ کر عمل کررہی ہے وہ فوراً انٹری ڈالتے ہیں اور غیر محسوس انداز سے کچھ فرائی کردیتے ہیں۔

ہاں ایسا ضرور ہے کہ لوچ فرائی کے اس عمل کو میڈیا پر بھرپور پذیرائی بھی مل جاتی ہے۔ اس حرکت کو بہت کم کسی نے چیلنج کیا، نتیجے میں گنڈاسے کے ساتھ کودنے والا ہیرو بن جاتا ہے۔

کورونا وائرس یا وبا سے زیادہ ہمارے ملک میں ایک بحران کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں عوام بالکل غیر واضح اور سب جاننے کے باوجود کسی انجان کی طرح ہیں۔ حالات کی سنگینی کا سب سے زیادہ اثر لوگوں پر ہے۔ ایک طرف گھروں محصور رہنا، دوسرے محاذ پر روزگار، اس سب کے ساتھ ساتھ حکومتوں اور اداروں کی اپنی اپنی بولیاں۔ کیا درست ہے، کیا ضروری ہے، کیا کرنا ہے، کوئی ڈرا رہا ہے، کوئی حوصلہ دے رہا۔

حکومت، ادارے، اپوزیشن، سیاست ایک طرف، پریشانی، خوف، عدم تحفظ، غیریقینی، دوسری جانب۔ لوگ کس کی سنیں، کسے اپنا ہمدرد، خیرخواہ جانیں، کسے ان کی جان عزیز ہے، کون لوگوں کے روزگار کا خیال کر رہا ہے۔ اب تک جو کچھ ہورہا ہے، اس میں ایک ہی چیز سمجھ آ رہی ہے، کچھ لوگ ادارے کام کر رہے ہیں، کچھ محض لوچ فرائی کر رہے ہیں۔
ہائے عوام کی کس قسمت۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments