پاکستان اور عالمی منظر نامہ


کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں ہوں کہ ہم پاکستان جیسے دنیا پر لگایا گیا ایک لگژری ٹیکس ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے جغرافیائی اور سیاسی حالات کے تناظر میں ایک ایسی پوزیشن میں رہا ہے کہ عالمی برادری کو ہم سے رابطہ کرنا پڑا اور ہمیں پیسے بھی دینے پڑے۔ گویا ہماری اکثر کامیابیاں دوسروں کی مرہون منت ہیں۔

آج پھر کچھ ایسا ہی منظر نامہ ترتیب پا رہا ہے چین اپنی کرنسی میں عالمی تجارت شروع کرنے جا رہا ہے۔ یہ چین کا بہت پہلے سے پروگرام تھا چین پچھلی ایک دہائی سے اپنی مقامی کرنسی کو عالمی تجارت کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے جیسا کہ ایران کے ساتھ اپنی مقامی کرنسی میں تجارت کرتا ہے اور 2018ء میں پاکستان کے ساتھ بھی لوکل کرنسی میں تجارت کا کا معاہدہ ہوا۔ کرونا کی وجہ سے اس میں ایک لحاظ سے آسانی بھی ہو گئی۔ کیونکہ ٹرمپ صاحب کی جہاندیدہ اور مدبر قیادت میں امریکا دن بدن ترقی کے زینے طے کرتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تیل کی قیمتوں کا کا بحران اور امریکی ڈالر کی قدر میں انتہائی کمی کا فائدہ چین اچھی طرح لے سکتا ہے۔

ڈالر کے مقابلے میں تیل کا بہت بڑا امپورٹر ہونے کے ناتے سے چین اپنی کرنسی میں تیل کی قیمت ادا کرنے کا خواہاں ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ چین اپنی مقامی کرنسی میں معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

چین کے اس اقدام سے امریکہ کی چودھراہٹ پر کاری وار پڑے گا۔ امریکہ کی سب سے بڑی طاقت اس کا ڈالر ہے جس کو امریکہ نے عالمی کرنسی بنایا اور اس کی قیمت کو تیل سے نتھی کر دیا۔ اور آج وہی ڈالر امریکہ کی معیشت کا بیڑا غرق کرے گا۔

روس کا صدر پیوٹن وہی ہے جو جو رشین انٹیلی جنس کا سربراہ رہ چکا ہے جو امریکہ کے خلاف افغانستان میں لڑتی رہی۔

سوشلسٹ انقلاب کے خلاف امریکہ کی نفرت اور جدوجہد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کے خلاف چین کے ساتھ مضبوط سفارتی سیاسی تعلقات قائم کر کے روس طاقت کا توازن تبدیل کر سکتا ہے۔ اور ویسے بھی روس اور چین نظریاتی اشتراک بھی رکھتے ہیں۔

چین بھوٹان سے بھی مسلسل رابطے میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روس ترکی کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھتا ہے اور ترکی چائنا اور ایران کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے، جبکہ ایران کے امریکہ کے ساتھ نہ خوشگوار تعلقات ہم سب کے سامنے ہیں ہیں لہذا یہ ممالک مل کر بڑی آسانی سے ایک بلاک بنا سکتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈیا اس وقت سیاسی طور پر تنہا ہو رہا ہے۔ انڈیا افغانستان میں ہونے والے امن مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، جس پر امریکی وزیر خارجہ نے انڈیا کو واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ وہ اپنی ان کوششوں سے سے باز آ جائے۔

امریکہ کی ہمیشہ سے خارجہ پالیسی اور نظریہ یہ رہا ہے کہ جس سے جس وقت تک مفاد حاصل ہو سکتا ہے اس کو ساتھ رکھو جب مفاد نکل جائے یا مزید کوئی مفاد وابستہ نہ رہے تو اس کو چھوڑ دو۔ یہی کچھ انڈیا کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔ انڈیا امریکہ کا نائب بن کر خطے میں چودھراہٹ قائم کرنے کا خواہاں تھا مگر اب ایسا نہیں ہونے لگا۔

پاکستان میں سی پیک کا منصوبہ جو کہ چین کی بلین ڈالر بلکہ ٹریلین ڈالر تجارت کا اہم جزو ہے۔ یہ چین کو ہماری سلامتی اور سکیورٹی کا ذمہ دار بنا دیتا ہے۔

گویا عالمی سیاسی مدوجزر میں چین ہمیشہ ہماری طرف داری کرے گا اور اس کا مظاہرہ چین بارہا کر چکا ہے حال ہی میں گرے لسٹ کے حوالے سے چین نے پاکستان کی حمایت کی۔ اس کے علاوہ وہ دیامیر ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے انڈیا کے اعتراض کے جواب میں چین نے یہ کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ معاشی تعاون جاری رکھیں گے۔

لہذا اس وقت ہم بڑی اچھی اور مضبوط پوزیشن میں ہیں ہیں چین ایک عالمی طاقت بننے جا رہا ہے اور چین ہمارا پڑوسی ہے۔ اور اس کی طاقت کا ماخذ مخرج اس کی تجارت ہے اور وہ اپنی تجارت کے لیے پاکستان پر انحصار کر رہا ہے گویا ایک عالمی طاقت کا سب سے بڑا منصوبہ اس وقت پاکستان کے پاس ہے جو کہ پاکستان کو بہت مضبوط اور مرکزی عالمی حیثیت دیتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ان سارے معاملات میں ہمارا کوئی خاص عمل دخل نہیں، نا ہی ہماری کوئی انقلابی قسم کی سفارتکاری اور ڈپلومیسی تھی اور نا ہی ہم نے کوئی بہت بڑا راکٹ چلایا قدرت نے خود پکی پکائی دیگ لا کر ہمارے سامنے رکھ دی ہے۔

مختصر بات یہ ہے کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کی نہایت مضبوط اور شاندار پوزیشن میں کھڑا ہے الحمدللہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments