ابن آدم پہ ہاتھ ذرا ہلکا رکھے


رب تعالیٰ نے تخلیق کائنات کے بعد دو جنسوں کو بھی تخلیق کر دیا۔ ان کی تخلیق کا مقصد ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کا سلوک روا رکھنا، دکھ درد بانٹنا اور ایک اچھا رفیق بننا تھا۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ مرد اور عورت انسانی زندگی کی گاڑی کے دوپہیے ہیں، کوئی بھی گاڑی ایک پہیہ سے مسافت طے نہیں کرسکتی۔ چنانچہ زندگی کے بناؤاوربگاڑمیں دونوں جنسوں کا برابر کاہاتھ ہوتاہے۔ مگر بد قسمتی سے صدیوں پہلے مردوں کو طاقت کا سرچشمہ مانا گیا لہذا عورت کو عرصہ دراز تک مظلومیت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے فروغ اور شعور کی بیداری نے دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا اور اب یہ نوبت آ گئی ہے کہ کوئی بھی فریق اپنی مفتوحہ جگہ چھوڑنے کو تیار نہیں بلکہ صنف نازک کا طبقہ نہایت چالاکی سے صدیوں پرانے مظلومیت کے کارڈ کے ساتھ نیا کارڈ ”میرا جسم، میری مرضی“ بہت عمدگی سے استعمال کر رہا ہے۔ یوں تو ہمارے معاشرے میں مظلومیت کا تاج صرف عورت کے سر پر ہی سجایا جاتا ہے، کیونکہ وہ ماں بھی ہے، بیٹی بھی اور بہن بھی مگر مرد جو باپ بھی ہے، بھائی بھی ہے اور بیٹا بھی، وہ کسی رعایت کا مستحق قرار نہیں پایا جاتا۔

بے چارہ مرد! جائے تو کہاں جائے۔ اگر عورت پر ہاتھ اٹھائے تو ظالم، پٹ جائے تو بزدل، گھر سے باہر رہے تو آوارہ، گھر میں رہے تو ناکارہ، بچوں کو ڈانٹے تو جابر، نہ ڈانٹے تو لاپرواہ، عورت کو نوکری سے روکے تو شکی مزاج، نہ روکے تو بیوی کی کمائی کھانے والا، ماں کی مانے تو ماں کا چہیتا، بیوی کی مانے تو جورو کاغلام، بیوی کے آگے چلے توفرعون، پیچھے چلے تو رن مرید۔

ابن آدم ہے۔ ۔ ۔ کسی اور کی اولاد نہیں
یہ بھی اس گھر کا مکیں ہے کوئی مہمان نہیں

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دونوں جنسوں کو اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حالات و واقعات میں فرق ہو سکتا ہے، عمل اور رد عمل میں فرق ہو سکتا ہے مگر بد قسمتی سے عورت کے آنسوؤں کوبے شمار ہمدرد مل جاتے ہیں مگر مرد کے رونے کو طعنہ بنا دیا گیا۔ عورت کھلے گلے کی قمیض پہنے تو ”فیشن“ مگر مرد پہنے تو ”لو فریا آوارہ“ ، عورت سگریٹ پیئے تو ”ماڈرن“ مگر مرد پیئے تو ”چرسی یا نشئی“ ۔

عورت مردوں کے لباس زیب تن کرے تو ”جدید دور کے تقاضے“ سمجھ کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے جبکہ اگر کوئی مرد ہمت کر کے زنانہ لباس پہنے تو اسے فوراً ”زنانہ یا کھسرے“ کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ مرد سارا دن دفتر میں باس کی جھڑکیاں سن کر جب شام کوگھر آتا ہے تو گھر کے سامان کی پہلے سے تیار لسٹ تھما دی جاتی ہے کہ بازار سے چیزیں لے کر آؤ۔ جبکہ عورت اپنے گھر کے کام کاج کے اوقات کار بھی خود ہی بناتی ہے اور فرصت کے اوقات کو کیسے بسر کرنا ہے یہ بھی اس کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے۔

آزادی اور خود مختاری کے احساس سے لبریز یہ صنف نازک مردوں کی ناک میں ہمیشہ دم کیے رکھتی ہے۔ عورتوں کو عموماً صرف اپنی عمر چھپانی پڑتی ہے جبکہ مرد کو اپنی ٹنڈ، تنخواہ، توند اور اپنے موجودہ اور پرانے معاشقے تک چھپانے ہوتے ہیں۔ نئی نویلی دلہن شادی کے بعد پہلی بار کچن میں کھانا بنانے گئی۔ کچن میں موجود روٹی بیلنے والے چکلے کی تینوں ٹانگیں ماربل والے شیلف پر ٹکتی نہیں تھیں لہذاروٹی بیلتے وقت کھٹ پٹ اور شور ہوتا رہتا تھا۔

شوہر کو تھوڑی دیر بعد احساس ہو اکہ آج روٹی بیلنے والا چکلہ بالکل آواز نہیں کر رہا۔ وہ حیران ہو کر کچن میں آیا تو دیکھا کہ اس کی بیوی بڑے آرام سے روٹی بیل رہی ہے اور چکلے کی تینوں ٹانگیں الگ پڑی ہوئی تھیں۔ شوہر نے پوچھا ”یہ تم نے کیا کر دیا“ ۔ اس پر بیوی بولی ”کچھ نہیں۔ یہ کچھ زیادہ ہی کھٹ پٹ کر رہا تھا اس لیے میں نے اس کی ساری ٹانگیں توڑ دی، بس میرا تو یہی سٹائل ہے“ ۔ شادی کوپورے چالیس سال ہو گئے ہیں، بیوی کے اس جارحانہ سٹائل کے سبب خاوند کو کبھی بھی کھٹ پٹ کی ہمت نہیں ہوئی کیونکہ اس کو یقین ہے جو عورت تین ٹانگیں توڑ سکتی ہے اس کے لیے دو ٹانگیں توڑنا کوئی مشکل کام نہیں۔

بقول ابن انشاء ”وہ پالتو جانور جو سب سے زیادہ اپنی مادہ کی خدمت اور دیکھ بھال کرتا ہے، اس کو خاوند کہتے ہیں“ ۔ کسی بھی مرد کے لیے اگر زندگی گزارنے کے معیار متعین کر دیے جاتے تو پھر بھی اس کی زندگی آسان ہو جاتی، مگر یہاں تو بدلتے ہیں مزاج، موسموں کی طرح۔ شوہر اپنی بیوی سے پوچھتا ہے ”کیا بات ہے تم اتنی اداس کیوں بیٹھی ہو“ ۔ بیوی (ایک ٹھنڈی آہ بھر کر) ”کوئی خاص بات نہیں! مگر کچھ عرصے سے اس بات پر پریشان ہوں کہ مجھ سے کہاں کمی رہ گئی ہے کہ تم شادی کے اتنے سال بعد بھی مسکرا لیتے ہو“ ۔

ایک خاوند اپنی بیوی کی بد مزاجی سے تنگ تھا اور چاہتا تھا کہ گھر میں امن ہو اور پیار محبت کی فضاء پیدا ہو جائے۔ چنانچہ وہ ایک بابا جی کے پاس گیا تو بابا جی نے اس کو مشورہ دیا کہ وہ کبھی بھی اپنی بیوی سے بحث کر کے جیتنے کی کوشش نہ کرے بلکہ اپنی مسکراہٹ سے اس کا دل جیتے۔ چنانچہ خاوند نے بابا جی کی بات پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ بیوی نے اس مثبت تبدیلی کو چند دن تو بڑی مشکل سے برداشت کیا۔ مگر ایک دن کہہ ہی دیا ”آج کل بہت مسکرا رہے ہو، لگتا ہے تمہارا بھوت اتارنا ہی پڑے گا“ ۔

ایک کمرے میں کافی دیر سے میاں بیوی خاموش بیٹھے تھے۔ بیوی سوچ رہی تھی ”شایدمیں موٹی ہو گئی ہوں اس لیے کسی اور کو چاہنے لگے ہیں اور اب دوسری شادی کا ارادہ ہے“ ۔ جبکہ دوسری طرف خاوند سوچ رہا ہے ”اگر اس سے بات کی تو کہیں پیسے ہی نہ مانگ لے“ ۔ ہائے بچارہ مرد، مظلوم مرد۔ ہے کوئی اس کی فریاد سننے والا، اس کے زخموں پر مرہم رکھنے والا؟ سمجھ داروں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے، کیا بنت حوا کے لیے یہ اہمیت کم ہے کہ ابن آدم اس کے بغیر نامکمل ہے؟

عشق سے خلوت میں کہنا۔ ۔ ۔
ابن آدم پہ ہاتھ ذرا ہلکا رکھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments