کرنل کی بیوی کے نام خط


السلام علیکم بہن !

امید ہے آپ سب وبا کے ان دنوں میں خیرو عافیت سے ہوں گے۔ یقیناً رمضان کے روزے خیریت سے گزرے ہوں گے اور اب عید کی تیاریاں جاری ہوں گی۔ لیکن اس دوران بھی آپ نے کرونا سے متعلق حفاظتی اقدام کو ملحوظ خاطر ر کھنا ہے کیوں کہ یہ خطرہ ابھی مکمل طور پر ٹلا نہیں ہے۔ خط لکھنے میں تاخیر پر معذرت۔ کام کی مصروفیت کافی ہے۔ وبا کے دنوں میں ذہنی امراض میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اس لیے وقت ہی نہیں ملتا۔ امریکہ یورپ میں تو یہ امراض عام تھے اب یہاں بھی تعداد بڑھ رہی ہے۔

آپ کا بھائی آج کل سوشل میڈیا کے متاثرین پر ریسرچ کر رہا ہے اور نتائج کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ خیر خط تحریر کرنے کی وجہ کا اندازہ آپ کو ہو ہی گیا ہوگا۔ چلیں میں خود بھی بتائے دیتا ہوں۔ دراصل کچھ دنوں سے یہ جو ایک آندھی اور طوفان سا چلا ہوا تھا تو سوچا جب تھوڑا غبار تھمے گا تو احوال آپ کو لکھ بھیجوں گا۔ یا ایسا سمجھیے کہ اس فرصت اور تسلی کا انتظار تھا جو کسی بھائی کو بہن سے بات کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے۔ سچ پوچھے تو اگر آپ کسی کرنل کی والدہ، بیٹی، بہن یا خود بھی کرنل ہیں تو بھی ہمیں آج صرف اور صرف کرنل صاحب کی بیوی سے ہی با ت کرنی ہے۔ اور ہاں بہن بھائی کی گفتگو کے دوران کرنل صاحب سے کہیں

تھو ڑی دیر ذرا بچوں کو باہر لے جا کر بہلایئں۔

یہ تو آپ کے بھائی کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ آپ اس اچانک پیش آنے والی صورت حال سے دل گرفتہ بھی ہوں گی اور اور تھوڑی آزردہ بھی۔ لیکن تسلی رکھیے، آپ تو خوب عز م اور حوصلےوالی خاتون ہیں۔ اس ملک کے لاکھوں لوگوں کی طرح آپ کےذہن میں بھی یہ سوال آ رہا ہو گا کہ فرد واحد کی غلطی پر سب کو برا بھلا کہنا کہاں کا انصاف ہے۔

سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ جب کچھ وکیل حضرات طیش میں آ کر توڑ پھوڑ کرتے ہیں تو کیا ہماری دیہات کی ماؤں، بہنوں کی طرح لوگ ان عدالتوں کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں جہاں وہ دن رات کام کرتے ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اگلی بارجب پرجوش ینگ ڈاکٹر صاحبان مریضوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہوئے ہڑتالیں کریں گے تو کیا لوگ ان میڈیکل کالجوں اور ہسپتالو ں کو کوسیں گے جہاں انہوں نے ٹیکس دینے والوں کی رقم سے تعلیم اور تربیت حاصل کی۔ یا پھر جب اگلی بار کرکٹ کے کسی میچ میں اگر کوئی صفر پر آوٹ ہو گا تو باقی کھلا ڑیوں اورپوری ٹیم کو با جماعت طعنے پڑیں گے۔ اگر بادل نخواستہ کوئی ایک صحافی، شادی پر سلامی والی لفافے کے علاوہ کہیں اور کوئی لفافہ لے گا تو کیا پورا میڈیا بد دیانت کہلا ئےگا۔ کیا ایک مولوی صاحب کے معصوم بچھے پر زیادتی کے جرم کی سب پر فرد جرم عاید ہو گی۔ یا یہ کہ اگر کل کوئی پاکستانی کسی جرم میں بیرون ملک میں پکڑا جاتا ہے تو کیا اس کے خاندان، دوست، ہمسائے ملزم کہلائے جائیں گے یا پھر سب پاکستانی مجرم ڈکلیر ہو جائیں گے۔ انفرادی غلطیوں کے دائرے کو پھیلا کراس کا اطلاق سب پر کرنا تعصب، بغض اور نفر ت کی علامت ہے۔ یہ نفرت کے زہر کی وہ بیل ہے جو سب سے پہلے اپنے محسن شجر کو کھاتی ہے اور پھر خود بھی نہیں بچتی۔

تو بہن دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں، اس ملک کا بچہ بچہ آپ جیسی حوصلہ مند عورتوں کا احسان مند ہے۔ یہ احسان مند ہے وہاڑی کے کرنل سہیل عباس کی بیوی اور ان کے والد کا۔ یہ قوم ا حسان مند ہے کرنل ساجد مشتاق، کرنل شاہد، کرنل راشد کریم، کرنل راشد حسن اور کرنل مجیب الرحمان اور نجانے ان جیسے کتنے ہی شہیدوں کی جن کے کبھی بوڑھے والد، کبھی کمسن بیٹے اور کبھی بیوی اپنے گھر پرچم وصول کرتی ہے اور سوال نہیں کرتی۔ اس بات کا یقین رکھیں کہ ملک کے طول و ارض میں کروڑوں لوگ ہیں جوآپ جیسی خواتین کی قربانیوں کا ادراک رکھتے ہیں، جو فرد کی غلطی کو ا جتماع پر لاگو نہیں کرتے۔ جو نفرت کی بیل سے پورے شجر کو نقصان نہیں پہنچاتے۔

 سو بہن! یاد رکھیں

 اگر آپ کے کرنل صاحب کشمیر سے لے کر بلوچستان تک، دشمن کے سامنے کوئی سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں تو ان کی طاقت کوئی سیسہ یا دھات نہیں بلکہ آپ ہیں، اگر وہ دشمن کے مقابل چٹان بن کر لڑتے ہیں تو وہ چٹان آپ کی قربانیوں اور ایثار کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ اس وطن کی مٹی کا ذرہ ذرہ آپ کے ایثار اور قربانی کا مقروض ہے اور کوئی وقتی سانحہ آپ جیسی خواتین کے وقار پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔

خوش رہیے

 بصد احترام،

پاکستان میں آپ کے کروڑوں بھائیوں میں سے ایک

پس نوشت:ارے یہ کیا، میرے اسسٹنٹ نے ابھی آ کر بتایا ہے کہ سر جی! پاکستان میں سارے پاگل ہسپتالوں میں نہیں ہوتے۔ اس لیے بہن آپ بھی سوشل میڈیا پر واویلے کا برا مت مانیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments