ابو کی یاد میں


21 مئی، 2012 کی شام کا ایک منظر مجھے کبھی نہیں بھول سکتا جب میں اپنے گاؤں سے ہری پور نوکری شروع کرنے کے لیے روانہ ہورہا تھا۔ ابو مجھے الوداع کہنے گھر کے باہر سڑک تک آئے۔ انھوں نے مجھے اپنے مخصوص انداز میں گرم جوشی سے گلے لگایا اور میں رکشہ میں بیٹھ گیا۔ مگر رکشہ کے چلنے سے تھوڑی دیر پہلے ہی وہ میرے پاس آئے اور ایک دفعہ پھر مجھے گلے سے لگالیا۔ اس دوران ان کی آنکھوں کی نمی اور اداسی کو محسوس کرتے ہوئے میں نے ان کو دلاسا دیا کہ میں کون سا پہلی دفعہ یا ہمیشہ کے لیے گھر سے باہر جا رہا ہوں۔

جلدی واپس آجاؤں گا۔ آپ پریشان بالکل نہ ہوں۔ یہ کہہ کر رکشہ میں بیٹھ کر سفر کے لیے روانہ ہوگیا۔ مگر راستے کے دوران ابو کی ان اداس آنکھوں کی وجہ سے تھوڑی پریشانی محسوس ہوئی۔ بس اس کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی، کیونکہ ابو کی طبیعت حساس ضرور تھی مگر ان کی آنکھوں میں ایسی اداسی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

اگلے دن ہری پور اپنے متعلقہ ادارے میں ضروری دفتری کارروائی پوری کرنے کے بعد جو کمرہ مجھے ملا تھا اس میں اپنا سامان رکھ کر میں نے ابو کو کال کر کے ساری تفصیلات سے آگاہ کیا اور انہیں کہا کہ میں اب تھوڑی دیر آرام کر لوں کیونکہ پوری رات کے سفر کی وجہ سے مجھے تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن سونے کے دو گھنٹہ بعد ہی فون کی گھنٹی بجنے سے آنکھ کھلی تو میرے چچا جو کہ اس وقت سعودیہ میں تھے ان کی اداسی بھری آواز سنائی دی کہ ابو کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے اس لیے میں وہاں سے فوراً گھر کے لیے نکل پڑوں۔ مجھے کچھ لمحوں کے لیے تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ تھوڑی دیر پہلے تو میری ابو سے فون پر بات ہوئی تھی اور وہ بالکل ٹھیک تھے تو ایسے اچانک ان کی طبیعت کو کیا ہو سکتا تھا۔

خیر اسی پریشانی میں وہاں سے نکل کر ڈائیوو بس کی ٹکٹ لے کر لاہور کے لیے روانہ ہوگیا۔ اس دوران گھر پر موجود سب افراد کے فون نمبرز ملا چکا تھا، مگر کسی سے بھی رابطہ نہیں ہو پارہا تھا۔ جس سے پریشانی میں اور اضافہ ہورہا تھا۔ اسی دوران ایک کزن کی کال آئی۔ اس نے بس روتے ہوئے یہ بتایا کہ اچانک دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ابو اب نہیں رہے۔ یہ الفاظ سنتے ہی میرے ہاتھ سے فون نیچے گرا اور پھر وہیں پڑا رہ گیا۔ کیونکہ میں ایک عجیب سکتے کی حالت میں جا چکا تھا۔ اور مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے سب کچھ رک گیا تھا تب بس مجھے ایک دن پہلے والا وہ سارا منظر یاد آیا اور ابو کی آنکھوں کی اس اداسی کی وجہ بھی سمجھ میں آ گئی تھی۔

ان کا دو بار مجھے گلے لگا کر ملنا شاید اس بات کی نشانی تھی کہ میں تو اب اس وقت گھر واپس جا رہا تھا مگر ابو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکے تھے۔ وہ چند گھنٹے جو مجھے ہری پور سے لاہور آنے تک لگے میری زندگی کے شاید مشکل ترین گھنٹے تھے۔ مگر ایک عجیب بات یہ تھی کہ مجھے رونا بالکل نہیں آ رہا تھا۔ اسی حالت میں بس فون اٹھا کر اپنے دوست عدنان کو اس بارے میں بتایا جو لاہور ڈائیوو ٹرمینل پر میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ گاڑی میں اپنے گاؤں کے لیے روانہ ہوا۔ پورے راستے اس کے ساتھ میں نے ایسے باتیں کیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔

گاؤں پہنچا تو جو بھی مل رہا تھا وہ گلے سے لگ کر رو رہا تھا۔ مگر میں بس ویسے ہی ساکت تھا۔ یہاں تک کہ امی اور بہن بھائیوں سے ملنے کے بعد بھی آنکھوں سے آنسو کوسوں دور تھے۔ ہاں جب ابو کو تدفین کے لیے لے جانے لگے تھے تب ضرور رویا۔ لیکن دل کھول کر تب بھی رو نہیں سکا تھا۔ اس پر کئی باتیں بھی سننے کو ملیں کہ میرا دل بہت سخت ہے۔ ہاں مگر جب میں نوکری کے لیے واپس ہری پور گیا تو وہاں میں رویا اور اتنا رویا کہ جس کا کوئی حساب نہیں۔ کیونکہ گھر سے آتے ہوئے مجھے اس گرم جوشی سے کسی نے گلے نہیں لگایا تھا جیسے ہمیشہ ابو گلے لگاتے تھے۔ اور نہ روز ویسے کسی نے کال پر بات کی تھی جیسے ابو روز کال پر بات کرتے تھے۔

تب وہاں رہ کر ابو کے ساتھ گزرا ہوا سارا وقت یاد آیا۔ چاہے وہ بچپن کی یادیں ہوں جب میری ہر خواہش کو ابو پورا کرتے تھے۔ اور میرے بے تکے سوالوں کے جواب دینے سے وہ تھکتے تک نہیں تھے۔ جب بھی گاؤں سے پاک پتن بس پر آنا ہوتا تھا تو میں ان سے راستے میں آنے والی سب جگہوں کے نام پوچھتا رہتا تھا۔ اور وہ مجھے کچھ کہے بغیر ہر بار سب نام بتاتے رہتے تھے۔ یا پھر جب میں بعد میں گھر سے باہر رہنا شروع ہو گیا تھا تب گھر واپس آنے پر ان کے چہرے کی خوشی اور میرے لیے کیے گئے خاص اہتمام کو میں کیسے بھول سکتا ہوں؟

ہری پور جا کر مجھے اس بات کا احساس بھی بہت شدت سے ہوا تھا کہ میرے جس باپ نے اپنے آپ کو اتنی مشکلات میں ڈال کر مجھے پڑھایا تھا۔ اور جب میری نوکری لگ گئی اور ان کو کچھ سکھ دینے کی میری باری آئی تھی تو انھوں نے اس کا موقع بھی مجھے نہ دیا۔ مطلب اتنا اچھا کوئی کیسے ہو سکتا ہے؟ اس لیے تب سے بس پیسے سے مجھے کوئی خاص محبت نہ رہی۔ ابو کی اس طرح کی اچانک موت نے میرے اندر موت کے خوف کو بھی ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا تھا۔ اور مجھے ان کے اس طرح سے چلے جانے پر مولا سے شکوہ بھی تھا کیونکہ ابھی بہت سارے ایسے ضروری کام تھے جو انھوں نے کرنے تھے مگر وہ ادھورے رہ گئے تھے۔ ان کے بہت سارے ایسے خواب تھے جن کی تکمیل نہ ہوپائی تھی۔

ابو کو بچھڑے ہوئے آج آٹھ سال ہو گئے ہیں۔ مگر ان کے چلے جانے کا خلا آج تک پورا نہیں ہوسکا اور نہ ہی شاید کبھی پورا ہو پائے گا۔ کہتے ہیں کہ وقت انسان کے دکھوں کے لیے مرہم کا کام کرتا ہے۔ مگر شاید کچھ دکھ اور غم ایسے ہوتے ہیں جن کی شدت میں وقت گزرنے کے ساتھ بجائے کمی ہونے کے اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ ابو کے چلے جانے کا دکھ اور غم بھی ایسا ہی ہے جس کی شدت میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ کیونکہ ان جیسا خالص، سادہ، مخلص، سچا اور پیار کرنے والا انسان میں نے اپنی زندگی میں کوئی نہیں دیکھا۔ کہ جن کا پیار اور خلوص اپنوں یا غیروں اور امیروں یا غریبوں کے لیے یکساں تھا۔

میں ابو کے چلے جانے کی کمی اس لیے بھی بہت شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ زندگی کے کئی اہم مواقع پر جب مجھے ان کے ساتھ کی بہت زیادہ ضرورت تھی تو وہ میرا ساتھ دینے کے لیے موجود نہیں تھے۔ اور میں نے پھر ہمیشہ سوچا کہ کاش اگر ابو ہوتے تو چیزیں بہت مختلف ہو سکتی تھیں۔ کیونکہ ابو نے اپنی زندگی میں ہمیشہ ہر کام میں ناصرف میرا ساتھ دیا تھا بلکہ اپنی مرضی تھوپنے کی بجائے انھوں نے مجھے اپنے فیصلے خود لینے کا اختیار بھی دیا تھا۔ آج میری شخصیت میں نظر آنے والا اعتماد ابو کی تربیت کا ہی نتیجہ ہے۔

ان کی مجھ سے محبت کا یہ عالم ہے کہ پچھلے دنوں جب میں کسی وجہ سے کافی پریشان تھا تو وہ میرے خواب میں آئے۔ ان کو دیکھ کر مجھے اتنی خوشی محسوس ہوئی کہ اب ابو آگئے ہیں تو بس میرا سارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ انھوں نے مجھے اپنے روایتی انداز میں گلے لگایا۔ میں کافی دیر تک ان کے گلے سے لگ کر ان کو اپنا حال سناتا رہا اور روتا رہا۔ اور وہ مجھے دلاسا دیتے رہے۔ پھر جب میری آنکھ کھلی تو میری آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور تب بس خیال آیا کہ کاش یہ خواب نہ ہوتا بلکہ حقیقت ہوتی اور سچ میں ایسے ابو آجاتے۔

لیکن اس کے ساتھ تھوڑی تسلی بھی ہوئی کوئی بہت اچھا انسان نہ بننے کے باوجود بھی ابو شاید اپنے اس نالائق بیٹے سے تھوڑا خوش ہیں کہ اس طرح خواب میں آکر دلاسا دے گئے ہیں۔ ہاں فرق بس یہ تھا کہ جب ان کی زندگی میں، آخری بار انھوں نے مجھے گلے سے لگایا تھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو اور اداسی تھی اور اب خواب میں ان کے گلے لگتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو اور اداسی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments