قرنطینہ، عید، ہلاکت اور مسلمان


روسی تھیٹر ڈائریکٹر کیریل سیربرینکوف کو ماسکو میں ڈیڑھ سال تک نظربند رکھا گیا۔ اس درمیاں انھوں نے ایک ویڈیو تیار کی کہ ’جب آپ گھر کے اندر پھنس جائیں تو پاگل ہونے سے کیسے بچیں۔‘ جب شاہین باغ نفرت کے خلاف حقوق کی جنگ لڑ رہا تھا، ہم نے ان فسادی چہروں کو دیکھا جو ہندوستان کو پاگل خانہ میں تبدیل کرنے آئے تھے۔ ہندوستان اب ایسا ملک تھا، جہاں کھلے عام مسلم دشمنی کو فروغ دیا جا رہا تھا۔ مسلمانوں کو ہلاک کیا جا رہا تھا، اور انصاف پسند جن عمارتوں اور لوگوں پر ہمارا یقین تھا، ان لوگوں کو خریدا جا رہا تھا۔ آزادی کے غیر متوقع لمحات کا جائزہ لیتے ہوئے یولیا تسویتکوفا نے ایک سروے میں بتایا ’جب انھوں نے مجھے 500 میٹر کی چہل قدمی کے لیے جانے دیا تو وہ بہت ہی جذباتی لمحہ تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی آزادی کی طرح لگا لیکن اس نے اس بات کا اور بھی احساس دلایا کہ میں باقی اوقات کتنی غیر آزاد ہوں۔‘

غیر آزاد۔ کیا مسلمان حقیقت میں آزاد ہیں؟ یہ نہ بھولیں کہ رمضان کے مقدس مہینے جس صبر و تحمل کا ثبوت مسلمانوں نے پیش کیا اس کی نذیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ جب مزدور، مردہ اور ذلیل سیاست کا شکار ہو کر ہجرت کر رہے تھے، مسلمان تراویح سے نکل کر، یا روزہ رکھ کر ان کی مدد کر رہے تھے۔ اور یہ ان مزدوروں کا بیان ہے کہ جو مدد مسلمانوں نے پہنچائی، ایسی خدمت کوئی دوسرا نہیں کر سکتا تھا۔ ایک سروے میں یہ بات بھی آئی کہ مہاجر مزدوروں کے لئے 80 فیصد مسلمان سامنے آئے اور بیس فیصد غیر مسلم۔

عید کیا ہے؟ کیس اس سے بڑھ کر کوئی خوشی ہو سکتی ہے کہ آج ایک دنیا قرنطینہ کے دنوں میں مسلمانوں کے جذبے کا خیر مقدم کر رہی ہے۔ ان بیانات کی کوئی ضرورت نہیں کہ مسلمان عید کیسے گزاریں؟ مسلمان جانتے ہیں انھیں کیا کرنا ہے۔ اس لئے احمقانہ مشورے دے کر مسلمانوں سے عید کی خوشیاں نہ چھینیں۔ ہندوستان کا کوئی بھی مسلمان نہ نئے کپڑے خرید رہا ہے نہ اس کی دلچسپی عید گاہ میں نماز پڑھنے کی ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا جب مقدس رمضان کے مہینے اور عید کے دن بھی مسلمانان ہند خدمت خلق کے جذبے سے شرابور نظر آئیں گے۔ اسلامی تاریخ کی روشن کہانیوں کو یاد کیجئے۔ اس بار مسلمان ان روشن کہانیوں کا حصہ ہیں اور شر پسند میڈیا بھی دبی زبان میں مسلمانوں کی ستائش کرنے پر مجبور ہے۔

قرنطینہ کی مدت میں اضافہ ہوگا۔ ہم آزاد ہو کر بھی غیر آزاد ہوں گے۔ اور اس مصیبت کے سب سے زیادہ شکار مسلمان ہوں گے۔ ایک چھوٹی سی آزادی کا تحفہ بھی ہمارے پاس نہیں۔ ابھی ایک تیسرے درجے کے ادیب چیتن بھگت کا ایک بیان پڑھا۔ ہندو مسلم کھیل نے ہندوستان کو برباد کر دیا۔ چیتن جیسے موقع پرستوں کو یہ بربادی اب سمجھ میں آ رہی ہے۔ ہم سڑکوں مارے جا رہے ہیں۔ ٹرین میں مارے جا رہے ہیں۔ سڑک، چوراہے کہیں ہم محفوظ نہیں۔ اس ماحول میں، اس گھٹن آلود فضا میں عید کی خوشی کہیں دور چلی گی ہے۔ لیکن عید کی خوشی اب اس جذبے میں سمٹ آئی ہے جس کا ایک روشن باب فتح مکہ میں دکھائی دیتا ہے۔ نفرت اور انتقام کے جذبے سے اسلام نہیں پھیلا، اسلام کی بنیاد حق اور محبت ہے۔ عید کے روز بھی ہم خدمت خلق کے جشن کا حصہ ہوں گے۔

لیکن کچھ سوالات ضروری ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ حکومت کی شہ پا کر وہ ہمیں ہلاک کر رہے ہیں۔ سوالیہ نشان کی زد میں آر ایس ایس اور حکومت بھی ہے۔ کیا یہ رام راجیہ ہے؟ یا ہندو راشٹر کا راون راجیہ؟ کیا مودی کے ہندوستان میں رام کی جگہ راون کو اہمیت حاصل ہو گئی ہے؟ مسلمانوں کی ہلاکت کی بنیاد پر ہندوستان میں نئے ہندو راشٹر کی تعمیر و تشکیل کی جائے گی؟ کیا اکثریت کے راون مسلمانوں کو اکسا کر اب گلی محلوں، سڑکوں چوراہوں پر خون کی ہولی کھیلیں گے۔

اور تیس کروڑ عوام سر جھکا کر مرنے کو تیار ہو جائیں گے؟ مسلمان اگر اس مجموعی فضا کے خلاف آواز بلند کرے، تو بکاؤ میڈیا مسلمانوں کو غدار کہنے لگتا ہے۔ جو مودی یا آر ایس ایس کا نہیں وہ ملک کا غدار ہے؟ ہر دن ملک کے کسی نہ کسی گوشے میں مسلمانوں کو لے کر انتہا پسندی کے خونی مظاہرے جاری ہیں۔ اس ماحول میں کوئی بھی آواز بلند کرنا نہیں چاہتا۔ کیا اس گھٹن بھرے ماحول میں عید کی خوشیوں کا لطف حاصل کیا جا سکتا ہے؟

لطف حاصل کیجئے۔ اس بار پرانے لباسوں سے محبت کی اس خوشبو کو آزاد کیجئے جو ساری دنیا میں ہندوستان کے مسلمانوں کی آواز پہچا دے۔ ہم اپنے نبی کی امت ہیں۔ ہم خوف زدہ نہیں۔ ہم قانون پر اعتماد کرتے ہیں۔ ہم صبر و تحمل کو ساتھ رکھتے ہیں۔ قرنطینہ کی مدت میں بھی ہم خدمت کے جذبے سے غافل نہیں۔ شر پسند عناصر مسلمانوں کو حاشیہ پر رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ سے ہر خوشی چھیننا چاہتے ہیں۔ آپ غیروں پر اتنی محبت لٹائیں کہ نفرت کے سوداگر بھی ذلیل اور شرمندہ ہو جائیں۔ اور بھکتوں کی آنکھیں کھلیں کہ تیس کروڑ مسلمانوں سے نفرت نہیں کی جاسکتی، مسلمان تو امن کے فرشتے ہیں۔

سردار جعفری کا ایک شعر ہے
خزاں رسیدہ نگار بہار رقص میں ہے
عجیب عالم بے اعتبار رقص میں ہے۔

اب بلند آواز میں کہنا ہو گا کہ یہ ہندو راشٹر ہمیں قبول نہیں۔ ملک تقسیم ہوا۔ جو مسلمان یہاں سے پاکستان نہیں گئے، ان کا موقف صاف تھا۔ ان کو مسلم ملک منظور نہیں تھا۔ سیکولر اور جمہوری کردار پسند تھا۔ اگر اس وقت ہمارے نیتاؤں نے ہندو ملک کی بات کی ہوتی تو جو مسلمان یہاں رہ گئے، شاید وہ بھی پاکستان کے حق میں منظوری دیتے اور ہندوستان کی جگہ پاکستان کو ترجیح دیتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ملک پر جان نثار کرنے والے لاکھوں مسلمانوں نے جمہوریت اور سیکولر ازم کے تحفظ کے لئے ہندوستان میں رہنا پسند کیا۔ اب آر ایس ایس اگر اس ملک کو ہندو راشٹر بنانا چاہتی ہے تو یہ عمل قبول نہیں۔

اخلاق اور پہلو خان کے بعد بھی ہر روز ملک کے کسی نہ کسی حصے میں بے قصور مسلمانوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔ ان خبروں کے لئے میڈیا نہیں ہے۔ ہندی اور انگریزی اخبار نہیں ہیں۔ یہ خبریں صرف اردو اخباروں میں شایع ہوتی ہیں اور ہمیں اندر تک سنگسار کر جاتی ہیں۔ کسی عورت کو ترشول دھاروں نے مار دیا۔ داڑھی رکھنے کے جرم میں سڑک چوراہوں پر اب ایسے قتل عام ہو چکے ہیں۔ ۔ ۔ مسلا ہے سالہ۔ مارو۔ ۔ ۔ جا ن سے مارو۔ ۔ ۔ پولیس کہاں ہے؟

قانون کہاں ہے؟ ہر روز ہلاکت کی بڑھتی خبروں کے درمیان آپ کو کیسے دی جائے عید کی مبارکباد؟ میڈیا سر عام اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑا رہا ہے۔ سیاست نے مسلمانوں کو بے دردی سے حاشیے پر پھینک دیا ہے۔ اب ملک میں جو تانڈو یا رقص ہو رہا ہے وہ گجرات سے بھی بد ترین رقص ہے۔ آنے والے کل میں ہمارے پاس زبان نہیں ہوگی۔ ہم کوئی بیان دینے کے قابل نہیں ہوں گے۔ ہمارے بچوں کا مذاق اڑانے والے آر ایس ایس کے چہیتے ہوں گے۔ اور ہمارے بچے کسی بات کا جواب دیتے ہیں تو وہ مارے جائیں گے۔ یہ خوفناک ذہنیت گھات لگائے ہمارا شکار کرنا چاہتی ہے۔ اور افسوس۔ ہم مسلسل شکار ہو رہے ہیں۔ ۔ ۔

رمضان کا مقدس مہینہ ہندوستانی سیاست میں ہمیشہ خبروں کے درمیان رہا۔ لیکن اس بار قرنطینہ نے سیاست کو دور کر دیا۔ مگر سیاست سے دور رہ کر بھی حکومت اور چینلوں نے آگ لگانے کا کام جاری رکھا۔ زی نیوز کو مرکز میں کورونا کے چوبیس بھوت نظر آئے تھے سدھیر چودھری ساری دنیا میں کورونا پھیلنے کی ذمہ داری مولانا سعد اور تبلیغی جماعت پر ڈال رہا تھا۔ خدا کی لاٹھی گھوم گئی۔ زی نیوز میں کورونا کے 90 بھوت ملے۔ زی نیوز کو سیل کر دیا گیا۔

آر ایس ایس اس حقیقت کو جانتی ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ جو تعلیم یافتہ ہوں گے، وہ باغی ہوں گے۔ حکومت سب سے کم بجٹ کا استعمال تعلیم کے شعبے پر کر رہی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ آپ پڑھ لکھ کر آر ایس ایس کو گالیاں دیں گے۔ مذہبی تنگ نظری کی مخالفت کریں گے۔ حکومت جاہلوں کی مدد سے وجود میں آئی۔ اور اب مہاجر مزدوروں سے لے کر عام آدمی بھی حکومت کے موقف کو سمجھنے لگا ہے۔ کورونا کے موسم میں بھی حکومت کے پاس مسلم دشمنی اور خیالی پلاؤ کے سوا کچھ نہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے مستقبل کو تہہ تیغ کرنے کی کوششیں عام ہوں گی ں۔ ہم فرضی قصوں کے دائرے میں ہوں گے۔ کھل کر پہلو خان یا اخلاق کی طرح سلوک عام ہو جائے گا۔ ۔ ۔ اور ہم کچھ نہیں کر پائیں گے۔ لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔

خزاں رسیدہ نگار بہار رقص میں ہے
عجیب عالم بے اعتبار رقص میں ہے۔

عجیب عالم بے اعتبار میں عید کی مبارکباد دی جائے تو کیسے۔ ۔ ۔ یہاں خزاں کا رقص۔ وہاں بہار کا۔ ہم جھلستے اور قتل ہوتے ہوئے۔ وہاں آئین کا مذاق اڑانا بھی رقص کا حصہ۔ یہاں عید بھی خاموش اور خوفزدہ۔ وہاں عید ملن کی مبارکباد دینے کا تصور بھی ہولناک۔ ۔ ۔ عید کا حسین تحفہ ملا بھی تو خزاں رسیدہ نگار بہار کی صورت۔ درختوں کا پیراہن اتر گیا۔ شاخیں عریاں۔ آسمان پر خدا دشمنوں کی کمینگی سے زیادہ ہماری جاہلیت کو دیکھتا ہوا۔ ۔ ۔

خزاں رسیدہ نگار بہار رقص میں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر۔ ۔ ۔ بہار کا قافلہ بھی چپکے سے بڑھ رہا ہے۔ حمایت کرنے والے قافلے میں اضافہ ہوگا۔ شر ہے تو حق ہے۔ حق کی فتح ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments