اقبال اور ہم نوجوان


کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا
اقبال کا پیغام اور ہم نوجوان!
ملت واحدہ کا قیام، ملت اسلامیہ کا دوام، مرد مومن کے لیے علم لولاک کا مقام ہے۔

پاکستان کی آبادی میں نوجوان 70 فیصد ہیں جو پاکستان کا مستقبل ہیں۔ پاکستان کے نوجوان مایوسی کا شکار ہیں کیونکہ پاکستان میں ایسی مشکل صورتحال ہے جس سے آج کا نوجوان کنفیوز ہے۔ نوجوان اگر علامہ اقبال کی فکر اور فلسفے سے راہنمائی حاصل کریں تو وہ یقیناً مثالی اور معیاری انسان بن کر پاکستان کی بہتر خدمت کر کے پاکستان کے تمام مسائل حل کر سکتے ہیں۔ اقبال نے اپنے نوجوانوں سے امید لگائے ہوئے ہیں لیکن علامہ اقبال اپنی نسل کے بزرگوں سے بہت مایوس تھے کیونکہ وہ جمود اور تقلید کا شکار تھے اور تبدیلی پر مائل نہیں ہوتے تھے علامہ اقبال نے بزرگ نسل کے بارے میں یہ کہا تھا

آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

علامہ اقبال کی آرزو تھی کہ مسلمان نوجوان شاہین بنیں کیونکہ شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جو خود دار اور غیرت مند ہے دوسروں کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا، اپنا آشیانہ نہیں بناتا خلوت پسند ہے اور تیز نگاہ ہے۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ یہی خصوصیات نوجوانوں میں پیدا ہو جائیں تو وہ ایک مثالی قوم کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے فرمایا میں بزرگوں سے نا امید ہو ں آنے والے دور کی بات کہنا چاہتا ہوں، جوانوں کے لئے میرا کلام سمجھنا اللہ تعالیٰ آسان کر دے تاکہ میرے شعروں کی حکمت اور دانائی ان کے دلوں کے اندر اتر جائے اور وہ انسان کامل بن جائیں۔ علامہ اقبال نے فرمایا

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

علامہ اقبال نے اپنے فارسی کلام جاوید نامہ میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، تیری ماں نے تجھے لا الہ کا پہلا سبق دیا تھا، تیری کلی اس کی باد نسیم سے کھلی لا الہ کہتا ہے تو دل کی گہرائیوں سے کہہ تاکہ تیرے بدن سے بھی روح کی خوشبو آئے۔ مومن اور دوسروں کی غلامی کریں مومن ہو اور غداری نفاق اور فاقہ مستی اختیار کرے۔ افسوس اس دور کے مسلمان نے معمولی قیمت پر دین و ملت کو بیچ دیا۔ اس نے اپنا گھر بھی جلا دیا اور گھر کا سامان بھی، کبھی اس کی نماز میں لا الہ کا رنگ تھا مگر اب نہیں کبھی اس کی نیازمندی میں ناز تھا مگر اب نہیں وہ جو اللہ تعالیٰ کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتا تھا۔

آج کل مال کی محبت میں مبتلا ہے، نماز اور روزے کی روح جاتی رہی ہے تو فرد بے لگام ہو گیا ہے اور سینے حرارت قرآن پاک سے خالی ہو گئے، ایسے لوگوں سے بھلائی کی کیا امید ہے۔ ہمارے نوجوان پیاسے ہیں مگر ان کے جام خالی ہیں، چہرے چمکدار دماغ روشن مگر اندرون تاریک کم نگاہ، بے یقین اور مایوس ان کو دنیا میں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ غصے میں ہو یا خوشنودی میں عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دے اور افلاس ہو یا امارت میانہ روی کو نہ چھوڑ اور اعتدال پر قائم رہے

اسی طرح اقبال کا طرز کلام نوجوانوں کے ساتھ بڑا ہی گہرا اور مقام اعلی کی جانب ہے

علامہ اقبال نے اپنی مثنوی اسرار و رموز میں ایک حکایت بیان کی جس میں ایک نوجوان نے سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ سے دشمنوں کا خوف دور کرنے کے لیے راہنمائی طلب کی تو انہوں نے فرمایا اے راز حیات سے ناواقف نوجوان تو زندگی کے آغاز اور انجام سے غافل ہے تو دشمنوں کا خوف دل سے نکال دے تیرے اندر ایک قوت خوابیدہ موجود ہے اس کو بیدار کر۔

علامہ اقبال اپنے رب سے دعا کرتے ہیں
جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے

علامہ اقبال نے نوجوانوں کو خودی کا پیغام دیا اور فرمایا کہ نوجوان خود شناسی سے خدا شناسی کا سفر طے کریں، اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں اور بڑے قومی مقاصد کے لیے اپنے آپ کو دوسروں پر غالب کرنے کی کوشش کریں اور اپنے سماج سے ہر قسم کی برائی کو ختم کر کے ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں جس میں امن سلامتی برداشت رواداری اور اخوت ’سخاوت اور محبت جیسی خوبیاں موجود ہوں۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ نوجوانوں کے خیالات بلند ہوں، انسان کامل اور مرد مومن بننے کی خواہش ان کے دل کے اندر موجود ہو، علامہ اقبال نے فرمایا

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

قیام پاکستان کے بعد حکمران اشرافیہ نے ایک منصوبے کے تحت یہ کوشش کی کہ پاکستان کے نوجوان بانی پاکستان قائد اعظم اور مفکر پاکستان علامہ اقبال کے تصورات اور نظریات سے دور رہیں تاکہ حکمران اشرافیہ ان پر اپنی بالادستی قائم رکھ کر اپنے ذاتی اور گروہی مفادات حاصل کرتے رہیں اور شاہین جیسی صفات رکھنے والے نوجوان ان کے مفادات میں حائل نہ ہو سکیں۔ اگر پاکستان کے نوجوانوں کو قائد اعظم اور علامہ اقبال کی تعلیمات سے پوری طرح آگاہ کیا جاتا آج کا نوجوان کبھی مایوس اور نا امید نہ ہوتا اور نہ ہی وہ چند جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی اجارہ داری کو اور بالادستی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتا۔ پاکستان کے نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے علامہ اقبال کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ ان میں وہ خوبیاں اور اوصاف پیدا ہو سکیں جو حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے لازم ہوتی ہیں اور ریاست کو بحرانوں سے باہر نکالنے کے لیے معاون ثابت ہوتی ہیں۔ علامہ اقبال نے فرمایا

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

ادھر اقبال کی فکر کا خورشید روشن، ادھر تاریک راتوں میں کھڑے ہم، ادھر کلمہ توحید کا اقبالی مفہوم، ادھر شرک و بدعت کی دلدل میں پھنسے ہم، ادھر اقبال کا پیغام اتحاد، ادھر فرقہ بندی اور ذاتیں، ادھر پیام مشرق، ادھر تہذیب مغرب، ادھر بانگ درا، ادھر مرض لادوا، ادھر بال جبریل، ادھر تماشا عزرائیل۔ آج ابوالکلام آزاد کی بات مرے جگر پر چرکے لگا رہی ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ:۔

”ہمیں وہ اسلام نہیں چاہیے جو بوقت نکاح خطبہ اور بوقت نزع یٰسین پڑھنے کے کام آئے اور باقی تمام معاملات زندگی میں یورپ کے دسترخوان کی چچوڑتی ہوئی ہڈیوں پر گزارہ کریں“ ۔

ہائے افسوس صد افسوس! ۔

بھول گئے ہم اقبالؒ کو اور چل پڑے مغرب کی روش پر، بھول گئے ہم پیغام اقبالؒ کو غلام ہو گئے اغیار کے۔ بھول گئے ہم پیغام اقبال کو اور جھک گئے طاغوت کے سامنے، بھول گئے ہم پیغام اقبالؒ کو اور بک گئے بڑے ہی سستے داموں، بھول گئے ہم پیغام اقبالؒ کو اور ہو گئے ناکارہ، لاچار، بے کار اور ابدی بیمار اور ذلیل و خوار۔ ۔ ۔

؎جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زیب
دل نزع کی حالت میں خرد پختہ و چالاک

علامہ اقبال کی فکر و دانش اور ان کا پیغام آج بھی کارگر ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے پیغام میں آفاقیت پائی جاتی ہے اور یہ پیغام رہتی دنیا تک ہے۔ موجودہ اور آنے والی نسلیں علامہ اقبال کے پیغام سے استفادہ کر کے اپنے ذاتی مسائل اور ملکی مسائل حل کر سکتے ہیں۔

آج پاکستان کو انتہا پسندی فرقہ واریت اور دہشت گردی نے سنگین خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ پاکستان کے نوجوان علامہ اقبال کے پیغام کو سمجھ کر ان چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور پاکستان کو امن اور سلامتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کے نوجوان موجودہ دور کے موقع پرست مفاد پرست لیڈروں کے فریب میں آنے کی بجائے علامہ اقبال کے پیغام کی جانب رجوع کریں اور علامہ اقبال کی فکر و دانش سے مسلح ہو کر موجودہ حالات کا مقابلہ کریں اور پاکستان کو لاحق سنگین بحرانوں سے باہر نکالیں علامہ اقبال نے اپنے کلام میں فرمایا تھا۔

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

اللہ کرے کہ پاکستان کے نوجوان علامہ اقبال کے پیغام اور فکر کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ان کے پیغام کی روشنی میں پاکستان کے مثالی شہری بن کر عوام کی رہنمائی کریں اور پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر ڈال سکیں۔ پاکستان کے مستقبل کا انحصار نوجوان نسل پر ہے نوجوان خواب غفلت سے باہر نکلیں اور حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو شعوری طور پر تیار کریں اور قوم کی راہنمائی کریں۔ جس سے آنے والوں نسلوں کی فکری، معاشی، معاشرتی، مذہبی، انقلابی، نصابی، غیر نصابی، سوچ پروان چڑھ سکے اور اور ہمارے نوجوانوں کو اقبال کی فکر سے اپنے اندر ایسا انقلاب لانے کی ضرورت ہے جس سے بیداری شعور پیدا ہو اور ہم دنیا میں کسی بھی فورم پر پیچھے نہ ہوں اور جدید تقاضوں کے عین مطابق اپنے آپ کو ڈھال کر اقبال کی فکر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ہم نوجوانوں سے موجودہ وقت یہ تقاضا کر رہا ہے کہ ہم اس پر فتن دور میں اقبال کی فکر کو اپنانا ہے اور ہمیں حقیقی معنوں میں اس سے فائدہ اٹھانا ہے جس سے ہم مستفید ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments