مسالک، ریاستی ڈنڈا اور کرونا اعظم


ہمارے ملک میں تقریباً 19 کروڑ مسلمان بستے ہیں اور شاید 19 لاکھ فرقے بھی موجود ہیں۔

میں اکثر مختلف احباب سے بات چیت میں یہ تذکرہ کرتا تھا کہ بھائی یہ مسلکی لڑائی مختلف مساجد و مدارس میں نظام برداشت صرف اس لئے کر رہا ہے کہ بٹی ہوئی جنتا پر حکومت آسان ہوتی ہے۔ یہ جو ایک دوسرے کو بدعتی، مشرک، مرتد یا گستاخ وغیرہ کے فتوی لگاتے ہیں۔ ان کو قابو کرنا ریاست کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ یہ بات اکثر لوگوں کے ذہن میں جگہ بنا نہیں پاتی تھی اور وہ مختلف کتابیں لا کر میرے سامنے رکھ دیتے تھے۔ گویا بحث پھر اس طرف لے جانا چاہتے کہ نماز کیسے صحیح ہے یا غلط، محفلیں کیسی ہونی چاہیے، کیا عمل سنت ہے یا رسم وغیرہ وغیرہ۔

لیکن آفرین ہے نئے عالم کرونا بھائی پر جس نے آکر یہ ثابت کر دیا کہ نظام کا ڈنڈا ہو تو سب ایک لائن حاضر ہو جاتے ہیں۔ آپ سب نے ضرور صدر مملکت اور علماء کے درمیان رمضان سے پہلے کا مشترکہ اعلامیہ پڑھا ہوگا۔ کیسے یہی تمام مسالک کے علماء، جو ویسے تو عوام کو ایک دوسرے کی مساجد میں نماز تک پڑھنے سے روکتے ہیں، ایک طرح سے مساجد چلانے پر نہ صرف راضی ہو گئے بلکہ خود عمل درآمد کرانے کی یقین دہانی بھی کرا دی گئی۔ ماشاءاللہ!

اس کے بعد کہیں بھی آپ کو کسی بھی مسلک کا عالم نمازیوں کے درمیان فاصلے کو بدعت کہتا نہیں ملا۔ اور نہ ہی کسی مسجد میں بڑی بڑی محفلیں بند ہونے پر رسول ص کا کوئی گستاخ قرار دیا گیا۔ نہ ہی کسی نے عرب میں یا یہاں پر سرکاری چینل کے ذریعہ عید کی نماز گھر پڑھنے پر کہا کہ بھائی عید کا ’اجتماع‘ گھر میں کیسے ہو سکتا ہے؟ ایسا آپ نے اپنی زندگی میں اتحاد بین المسالک المسلمین فی الباکستان کبھی دیکھا؟ گویا ریاست نے تمام مسالک سے کرونا کو عالم اعظم کا سرٹیفیکیٹ دلوا دیا۔ اب عالم اعظم وقتاً فوقتاً بذریعہ ریاست نئی ہدایات سے تمام مسالک کو راہ راست پر رکھیں گے۔

عوام کی پوری زندگی ایک دوسرے کو اپنے اپنے عقائد کے لحاظ سے غلط ثابت کرنے میں گزر جاتی ہے اور ان کا دھیان آج کے جدید دور میں ان کی بنیادی ضروریات کی طرف جاتا ہی نہیں۔ کبھی سوچا ہی نہیں کہ بھائی خدا سب کا ایک ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ معاشی حوالہ سے اتنی ظالمانہ تقسیم موجود ہے؟ معلوم تو یہ ہوتاہے کہ یہ دن بدن بڑھتی ہوئی تقسیم اشرافیہ و امراء کے حق میں ہے۔ عوام آپس میں چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھا دیے گئے اور ان کے اکابرین جن کو ’اللہ نے بہت نوازا ہوا ہے‘ وہ کبھی اس معاشی عدم توازن کی طرف عوام کا دھیان آنے ہی نہیں دیتے۔ ہاں اگر کبھی کوئی سوال آ جائے تو اسے تقدیر کی کڑوی گولی صبح شام کا نسخہ تھما دیتے ہیں۔

امید ہے کہ کرونا اعظم ہماری جنتا کی آنکھیں کھولنے میں مددگار ثابت ہو گا اور وہ لاحاصل بحث و مباحثہ سے نکل کر انفرادی اور اجتماعی ترقی کی جانب قدم بڑھائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments