غیر قانونی مگر جائز؟


گلگت بلتستان کا نام سنتے ہی ذہن میں قدرت کے شاہکاروں کا ایک نقشہ سا کھنچ جاتا ہے جس کا تصور کرنا، تصور بہشت سے کہیں کم نہیں! جہاں لوگ اس کے قدرتی حسن اور مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہیں اس کے باسیوں میں ایک طرح کا خلاء پایا جاتا ہے جسے تشخص کا خلاء کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ جہاں اس خطے کو اپنی قدرتی حسن کی بدولت دنیا میں ایک مقام حاصل ہے وہی پہ اس خطے کی اہمیت جاننے والوں کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آیا کیا انہیں (باسیوں ) بھی ان کا حقیقی مقام حاصل ہوگا؟

برصغیر کی تقسیم سے قبل پورے ہندوستان میں لگ بھگ 562 ریاستوں کا وجود تھا جو اپنی ایک شناخت اور وحدانیت کی بدولت جانے جاتے تھے مگر تقسیم سے قبل 3 جون 1947 کے پلان کے تحت ان ریاستوں کو اس بات کا اختیار دیا گیا کہ آیا وہ پاکستان یا بھارت میں شمولیت اختیارکر لیں یا پھر ایک آزاد ریاست کے طور پہ اپنا وجود قائم رکھ لیں۔ دوسری ریاستوں کے علاوہ ابھی اس بات کا فیصلہ ہونا باقی تھا کہ ریاست کشمیر کس مملکت میں شامل ہوتی مگر دونوں ملکوں کی مداخلت کی وجہ سے اس بات کا فیصلہ نہیں ہو پایا کہ آخر اس ریاست کا تعلق کس خطے سے ہے اور ایک لاوارث اولاد کی طرح اپنی شناخت کھو بھیٹی۔ بقول شاعر

پتا سسرال کا دو تو خبر لیں
میری ماں تو بتا کس کی بہو ہے؟ (جمشید خان دکھیؔ)

1840 ء سے قبل گلگت بلتستان اپنی جغرافیائی حدود، واحدانیت، تہذیب و تمدن کی بدولت ایک آزاد ریاست تھی جسے تاریخ میں بروشال، بلورستان اور دردستان کے نام سے جانا جاتا ہے جسے 1840 میں سکھ مہراجہ رنجیت سنگھ نے فتح کر کے ریاست کشمیر میں شامل کر لی۔ برطانیہ جب برصغیر میں تقسیم ہند کے فارمولے پر کام کر رہا تھا رہا تھا اس وقت کے حالات میں افراتفری اور ایک جنگ کا عالم تھا اس وقت گلگت بلتستان کے مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اور گلگت سکاوٹس کی مدد سے یکم نومبر 1947 کو ڈوگرہ راج کی جڑوں کو نیست و نابود کر کے اپنی علیحدہ حیثیت کر بحال کرا دیا مگر تاریخ کے فیصلوں نے یک دم ایسے کروٹ بدلی کہ ایک آزاد ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ایک ایسی ریاست کے ساتھ نتھی کر دیا گیا جو ابھی تک غلامی میں جکڑی ہوئی تھی؟

بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق گلگت بلتستان کے مستقبل کا فیصلہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک مسئلہ کشمیر کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ اسی تناظر میں خطہ گلگت بلتستان میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں جن میں سے قوم پرست تنظیموں کا دامن تھامے لفٹ ونگ والے بھی تاریخ اعتبار سے اس بات کے حامی ہیں کہ ”گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے کشمیر کا نہیں“ اور دوسری طرف وفاق پرست تنظیمیں اس بات پہ زور دیتی ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور گلگت بلتستان پاکستان کے سر کا تاج ہے؟

2009 سے قبل گلگت بلتستان کے پاس کوئی دستاویزی مسودہ نہیں تھا جس کے تحت انتظامیہ کو چلایا جاتا اسی تناظرمیں 2009 میں گلگت۔ بلتستان ایمپوویرمنٹ اینڈ سلف۔ گورننس آرڈر متعارف کرایا گیا جس کے تحت انتظامیہ کو مقامی کٹھ پتلی لوگوں کے ذریعے چلایا جا سکے اور اسی مقصد کو پروان چڑھانے کے لیے یکے بعد دیگر آڈرز 2018 اور 2019 کی شکل میں آتے رہیں ہیں اور آتے رہیں گے جب تک لوگ اپنے تشخص کے لیے سوال کرنا نہیں سیکھتے!

گلگت بلتستان چونکہ ہر اعتبار سے ایک گرم موضوع کی طرح رہا ہے جس پہ ہر وقت سیاسی داؤ جاتے رہے ہیں کھلیے۔ اسی سیاسی داؤ کو مزید تیز کرنے کے جون 2020 میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کی بابت سے گلگت ٹی وی نے وزیر قانون ایڈوکیٹ اورنگزیب (مسلم لیگ نواز) اور پی پی پی کے صدر ایڈوکیٹ امجد کے ایک نشست منتخب کی جس میں ان سے گلگت بلتستان کی سیاست کے بارے میں پوچھا گیا۔ چونکہ یہ اپنی نوعیت کی ایک سیاسی نشست تھی اسی لیے دونوں رہنماوؤں نے اپنے اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے اپنے داؤ پیج کھلیے اور اجتماعی مفاد پہ انفرادی مفاد کر ترجیح دیتے ہوئے گفتگو جاری رکھی اور میزبان کی جانب سے پوچھے جانے والے اہم سوال جو کہ لینڈ ریفارمز کے حوالے سے تھا اس سے آگاہ کرتے امجد ایڈوکیٹ نے اپنی بندوق قوم پرستوں پہ تانی اور انہیں نشانہ بنانے کی بجائے خود پہ ہی گولی اس وقت چلا دی جب انہوں نے کہہ دیا کہ قوم پرست مس گائیڈیڈ گنز ہیں جو کہ لینن کا مشہور مقولہ ہے کہ ”میدان جنگ میں اندھا دھند بندوقیں ہی فتح حاصل کرتی ہیں“

گلگت بلتستان کی سیاست کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اس کی سیاست کو جانتے ہوئے بھی وہاں کے لوگ بیوقف بننا پسند کرتے ہیں وہ ایسے کہ کل کو یہی امجد ایڈوکیٹ اور دوسری وفاقی پارٹیوں کے رہنما اپنے مفاد کو پس پردہ رکھ کر گلگت بلتستان کی حساسیت کے بارے میں نعرے میں قوم پرستوں سے بھی آگے ہوتے ہیں اور خطے کے حقوق حاصل کرنے کے لیے فوراً ارطغرل غازی کا روپ دھار لیتے ہیں مگر یہی عوام یہ پہچاننے سے قاصر رہتی ہے کہ ارطغرل کے لباس میں وہ کردوگلو کو رہنما بنا بھیٹے ہیں اور وہاں کی عوام من و عن ان پہ ایمان لے آتے ہیں۔

اسی تناظر میں یہی عوام قبل از وقت انتخابات کے غیر نتائج حاصل کرنے کے سوشل میڈیا پہ جنگ لڑتی رہتی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ گلگت بلتستان کے حقوق کی جنگ جو کہ صرف سوشل میڈیا پہ لڑی جاتی ہے اس کے سوشل جنگجو اس بات کے منتظر ہوتے ہیں کہ جیت کس کی ہوگی اور سہراہ کس کے سر پہ سجھے گا۔ جب کہ اہل علم دوسری طرف خطہ کے سیاسی اکھاڑے کو پرکھتے ہیں کہ اس بار اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کس سیاسی و مذہبی پارٹی نے کون سا کارڈ استعمال کیا اور عوام نے کس کا ساتھ دیا؟ تب تک خطے کے سیاسی دھنگل میں میں چلنے والے سیاسی ڈراموں کا جائزہ لیتے ہیں جو کہ حقیقی معنوں میں تو ٖغیر قانونی مگر جائز ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments