وجاہت مسعود صاحب کے جواب میں


جناب وجاہت مسعود صاحب نے اپنے حالیہ کالم میں کسی راؤ غلام مصطفیٰ صاحب کے کالم کا جواب لکھا ہے، اور راقم السطور اس کالم کے ذریعے اسی بحث کا احاطہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جہاں تک فاضل کالم نگار جناب وجاہت صاحب کے اس بیان کی بات کی جائے، جہاں وہ پاکستان کی نام نہاد اشرافیہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کو ملک عزیز کی اس حالت کا ذمہ دار گردانتے ہیں، تو میں اس بات کے اندر وجاہت صاحب کے خیال کے ساتھ 100 فیصد اتفاق کرتا ہوں۔

تاہم موصوف نے اپنے تبصرے میں کسی قدر جانبداری سے کام لیتے ہوئے، سیاستدان طبقے کو بالکل ذمہ داری سے سبکدوش کر دیا ہے، جبکہ میرے خیال میں پاکستان کی اس موجودہ تباہی اور بربادی میں ان دونوں طبقات کا پورا پورا یا یوں کہہ لیجیے حصہ بقدر جثہ کردار رہا ہے۔ موصوف نے اس کی ابتداء ایوب دور کے اندر لیے گئے قرضوں سے کی ہے، مگر عالی قدر یہ بھی تو دیکھیے کہ ایک نا اہل، نکمے اور سیاست کے رسیاء اس انسان کو مشرقی پاکستان سے کون لایا تھا، اور کس نے مسٹر جناح کے حکم سے روگردانی کرتے ہوئے اسے کلیدی منصب عطا کیا تھا؟

آپ اس ہستی کا نام یقیناً مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ اس کے بعد قرار داد مقاصد کو اسمبلی سے منظور کروا کر پاکستان کے اندر مذہبی تفرقہ بازی کی بنیاد کیا کسی فوجی آمر نے ڈالی تھی؟ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ حسین شہید سہروردی اور راجہ جوگندر ناتھ منڈول جیسے اشخاص کو غداری کا سرٹیفکیٹ کس نے عطا کیا تھا۔ آپ محترمہ فاطمہ جناح کے اوپر لگائے گئے غداری کے الزام کو دہراتے ہیں، مگر ان دو اشخاص کے ساتھ کیے گئے ظلم کو نہ جانے آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

پاکستان میں ہمیں آج تک یہی گلہ رہا ہے کہ یہاں، جمہوریت کسی بھی دور میں پنپ نہ سکی اور اس پہ جس فوجی آمر نے جب چاہا شب خون مارا، مگر آپ اسے کیا کہیں گے کہ پاکستان کی بانی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے اندر خود کس قدر جمہوریت تھی؟ کیا وہاں بھی فرد واحد یعنی مسٹر محمد علی جناح (میرے قائد اعظم صرف اور صرف نبی کریم ﷺ ہیں) کی ذات ہی کیا تمام اختیارات کا محور نہ تھی؟ کیا ہمیں آل انڈیا مسلم لیگ کی معلوم تاریخ کے اندر، کسی بھی جماعتی انتخابات کی کوئی بات ملتی ہے۔

کیا کبھی مسلم لیگ کے اندر جمہوری رویوں کو پنپنے کا موقع دیا گیا، کہ کوئی شخص صدر محترم یا سیکرٹری جنرل صاحب سے اختلاف رائے کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ اس قسم کے آمرانہ رویے اور تشخص کے ساتھ جب آپ ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں، تو ایسے عالم میں بھلا ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ، وہ جماعت ٹھیک انہی جمہوری اقدار کو فروغ دے گی، جو واقعی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔

آپ نے معاہدوں کو توڑنے کے متعلق بھی جو بات کی ہے، اس پہ یہی عرض کرونگا کہ آپ بھلے اس کی مذہبی توجیہہ کی طرف نہ جائیں، مگر کیا کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسے یک طرفہ طور پہ معاہدہ توڑنا کیا اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہے؟ یہ معاہدہ ہی ہوتا ہے جو ایک مرد اور عورت کے تعلقات کو، نکاح کی صورت میں اخلاقی جواز فراہم کرتا ہے، اگر آپ کی اسی بات کو بطور استدلال لیا جائے، تو معاشرے میں اس نکاح کا کیا معنی رہ جائے گا، کہ جب کسی کا دل چاہے بیٹھے بیٹھے توڑ دے اور دوسرے فریق کو ٖصفائی پیش کرنے کا موقع تک نہ دے۔

سیدنا امیر معاویہ رض نے قیصر روم کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کیا، جو ایک خاص عرصے تک تھا۔ جونہی اس معاہدہ کے میعاد ختم ہونے کو آئی، حضرت معاویہ رض نے رومی سرحد کے اوپر فوج کو جمع کرنا شروع کر دیا، کہ جیسے ہی معاہدہ کی میعاد ختم ہو، جنگ شروع کی جائے اور روم کے علاقے فتح کیے جائیں اور روم کے بادشاہ کو مطلق خبر بھی نہ ہو۔ عین ایسے عالم میں ایک شخص بھرے دربار میں سیدنا معاویہ رض کو معاہدہ کو برقرار رکھنے کے متعلق تنبیہ کرتا ہے اور آپ اپنے ارادے سے باز آ جاتے ہیں۔ تاہم معاہدہ اسی حالت میں آپ توڑ سکتے ہیں، کہ جب وہ مجموعی قومی مفادات کے خلاف ہو، اور ہمارے سیاستدان اور اشرافیہ اپنی عوام کے مفادات کا کتنا خیال رکھتے ہیں وہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔

آپ یہ بھی تو فرمائیے کہ اشرافیہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کو ایوان کا راستہ اور اقتدار کا رسیا بنانے میں کیا ہمارے سیاستدانوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ایوب کے ہاتھ مضبوط کرنے والے ملک امیر محمد خان اور ذوالفقار علی بھٹو کیا بیورو کریسی کے افراد تھے یا سیاستدان تھے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ 1971 میں ہمارا وطن عزیز اپنوں اور محض اپنوں کی سازش اور ”کرم فرمائی“ کے نتیجے میں دو لخت ہوا، اس کے بعد ایک جمہوری حکومت بھی بنی، جس کے دور میں حمود الرحمن کمیشن بھی بنا، کیا کبھی ذووالفقار علی بھٹو نے اس کی رپورٹ شائع کرنے کی کوئی کوشش کی۔

وہ اسے شائع کیا کرتے، الٹا اس ساری سازش کے ذمہ دار افراد کو مختلف ممالک کا سفیر بنا کر عزت افزائی بخشی۔ اس کے بعد دوسری مرتبہ 1977 میں الیکشن ہوئے، جس میں حزب اختلاف نے دھاندلی کا الزام لگا کر، پورے ملک کی سیاسی اور معاشی سرگرمیوں کو معطل کر دیا۔ چنانچہ اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو نے گفت و شنید سے حل نکالا اور عین اس روز جب معاہدے پہ دستخط ہونے تھے، جناب بھٹو صاحب غیر ملکی دورے پہ روانہ ہوگئے اور یوں اپنے ہاتھوں ملک کے تیسرے مارشل لاء کی بنیاد رکھ دی۔

ایسے میں بھلا ہم ضیاء الحق کو کیسے دوش دے سکتے ہیں کہ، جب مارشل لاء کے نفاذ کی بنیاد خود بھٹو صاحب خود رکھ رہے تھے۔ کیا یہ بات روز روشن کی طرح واضح نہیں کہ کون کون جنرل ہیڈ کوارٹر رات کی تاریکیوں میں چھپ چھپ کر، آرمی چیف کو اپنے عہد و پیمان دے رہا ہوتا تھا، اور وفاداری بشرط استواری کا حلف اٹھا رہا ہوتا تھا۔ ابھی حال ہی میں میاں شہباز شریف کے انٹرویو نے کیا یہ ابہام بھی ختم نہیں کر دیا، کہ

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

پھر آپ اس کے ساتھ تیسرے ستون یعنی عدلیہ کا بھی کردار نظر انداز نہیں کرسکتے، جس نے نظریہ ضرورت سے لے کر پی سی او کے تحت حلف اٹھانے اور پانامہ کی بجائے اقامہ کی بنیاد پہ منتخب وزیر اعظم کو نا اہل کرنے میں کوئی سبکی محسوس نہیں کی۔ یہ پاکستان کی عدلیہ ہی ہے، جس کے ہاں قانون کی تشریح آئین کے تحت نہیں، بلکہ بالادست طبقے کے رجحانات کے مطابق کی جاتی ہے۔ اور جہاں جہاں اشرافیہ کا مفاد ہوتا ہے، یہ ان کے ہر ہر حکم پہ صاد کہتی ہے اور اسے آئینی اور قانونی جواز بھی بخشتی ہے۔

لہذا میں پورے وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں، کہ اگر عدلیہ اپنا حقیقی معنوں میں وہ کردار جو اس کے شایان شان تھا ادا کرتی، تو شاید ان دونوں طبقات کو اس طرح سر عام لوٹ مار کرنے کی جرات نہ ہوتی۔ مگر جہاں عدلیہ کا معیار یہ ہو کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی جس کے حلقے میں دھاندلی ثابت ہوجاتی ہے، اسے یہ کہہ کر کام کرنے کا جواز بخشتی ہے کہ حلقہ کو بغیر نمائندگی کے نہیں چھوڑا جا سکتا، مگر وہ عدالت ”فرزند چکری“ سے یہ بات پوچھنے کو تیار نہیں کہ جناب موصوف 2 سال سے بغیر حلف اٹھائے بیٹھے ہیں، تو وہاں کے عوام کی نمائندگی کس کے ہاتھ میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments