کورونا اور ہمارا رویہ


یہ کورونا مورونا کچھ نہیں ہے، یہ سب یہودیوں کی سازش ہے، مسلمانوں کو تو یہ چھو بھی نہیں سکتا، یہ سارا گیم ڈالرز کا ہے، قرضے معاف کروانے کا پلان ہے، پاکستانی کورونا دو نمبر ہے اس کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے، یہ ایک سادہ زکام ہے بس، دیکھنا رمضان میں کورونا فنا ہو جائے گا، یہ ہمیں مساجد میں عبادتوں سے روکنے کی ایک سازش ہے، ماسک کیوں پہنا ہے اتنا ایمان کمزور ہے آپ کا؟ یہ ہیں وہ سارے نظریات جو کورونا کے وارد ہونے کے بعد سے ہم لوگ سنتے آئے ہیں۔

اس وقت پاکستان میں کورونا وائرس کی وجہ سے بیماری کے شکار افراد کی تعداد ساٹھ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، کووڈ۔ 19 کی وجہ سے پوری دنیا میں لاکھوں لوگ زندگی کی بازی ہار گئے ہیں جبکہ آئے روز ہزاروں کی تعداد میں نئے کیسز بھی سامنے آرہے ہیں مگر عوام ہے کہ بالکل احتیاط نہیں برت رہے۔ عید سے پہلے اور عید کے بعد بازاروں میں اتنا رش کہ شاید عام عیدوں پر بھی نہیں دیکھا گیا ہو، گاڑیاں تو اتنی زیادہ کہ رش ہونے کی وجہ سے چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھیں انسانوں کا ایک دوسرے سے گزر کر جانا محال تھا، ہر جگہ، ہر دکان، ہر بازار میں یہی عالم رہا، نہ کوئی ماسک اور نہ حکومتی ایس او پیز پر کوئی عمل درآمد دکھائی دیا۔

ان سب مشاہدات کے بعد میں نے تین بنیادی نتائج اخذ کیے ، اول یہ کہ عوام انتہائی کم علمی اور لاپرواہی کا شکار ہے، کم علمی کو شدید الفاظ میں ”جہالت“ بھی کہتے ہیں مگر لاپرواہی اتنی کہ نہ اپنی صحت کا خیال نہ اپنی فیملی کی حالت کی کوئی فکر۔ حالانکہ اب تو ہرجگہ کورونا وائرس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر نظر آ رہی ہیں چاہے وہ موبائل فون پر کال کرتے وقت ہو، الیکٹرونک میڈیا ہو، سوشل میڈیا ہو، اخبارات ہوں آگاہی مل رہی ہوتی ہے۔ باوجود اس کے ہر کوئی جانتے ہوئے بھی انجان بنا ہوا ہے۔

دوسری بات یہ کہ اس ملک میں ہمیشہ ایسے حالات اور واقعات رہے ہیں کہ جن کو پہلے ایک طرح سے پیش کیا جاتا رہا مگر بعد میں واپس ماضی کو غلط کہہ کر کچھ اور کہا جاتا رہا جس کی وجہ سے عوام کا حکمرانوں، میڈیا اور اس سسٹم پر اعتبار نہیں رہا۔ جیسے کہ وہ ایک واقعہ بھی مشہور ہے جس میں گاؤں کا چرواہا لوگوں کو ڈرانے کی خاطر شیر کے آنے کا ڈرامہ کرتا رہا مگر ایک دن جب حقیقت میں شیر آیا تو وہ اپنا اعتبار کھو بیٹھا تھا اور شیر ساری مویشی کھا گیا۔

تیسری بات سوشل میڈیا پر جھوٹی اور غیرمصدقہ خبروں کی بھرمار ہے۔ دیہاتوں میں چونکہ لوگوں کی ٹی وی اور اخبارات تک رسائی نہیں ہے تو لوگوں کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا ہی رہ گیا ہے جس کی وجہ سے غلط، بغیر تصدیق اور سنسنی سے بھرپور خبروں نے عوام کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوتا ہے اور لوگوں کی اکثریت اس پر بھروسا بھی کرتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او اور پاکستانی ڈاکٹرز بار بار تنبیہ کرچکے ہیں کہ لاک ڈاؤن کو ختم کرنا انتہائی نقصان دہ ہے اور تیزی سے کرونا کیسز بڑھنے کا شدید اندیشہ ہے مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر اور مسائل کے شکار ملک میں زیادہ آبادی غربت کا شکار ہے اور ان کا واحد ذریعہ معاش محنت مزدوری ہے، لاک ڈاؤن کی صورت میں ایسے خاندانوں کی حالت فاقوں تک آپہنچی۔ ایسے صورت حال میں حکومت کے لئے بھی فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ پبلک کو کورونا سے بچانا ہے کہ غربت سے۔

میرے یہ آرٹیکل لکھنے تک حکومت پاکستان کے قائم کردہ کورونا ڈیش بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں تقریباً 59 لاکھ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ 3 لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت 64028 کورونا مثبت کیسز رپورٹ ہوئیں ہیں جبکہ کورونا سے اموات کی تعداد 1317 ہے۔ بلوچستان جیسی کم آبادی والے صوبہ میں بھی کورونا مثبت کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، اس وقت کل 3928 کیسز رپورٹ ہوئیں ہیں مگر بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ٹیسٹنگ سہولت نہ ہونے کی وجہ سے یہ کیسز اس سے بھی زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ کوئٹہ کے بعد ضلع پشین میں اس حوالے سے کئی قیاس آرائیاں کی جارہی ہے کہ کورونا کیسز بڑھ رہی ہیں اور آئے روز بزرگوں کی اموات اس شک کو یقین میں بدل رہی ہے۔

یہ ایک الگ بحث ہے کہ کورونا قدرتی آفت ہے یا پھر انسان کی پیدا کردہ ایک سازش ہے مگر اس بات سے ہرگز انکار ممکن نہیں کہ کورونا ہماری لاپرواہی کی وجہ سے خطرناک رفتار سے پھیل رہا ہے اور انسانی زندگیوں کو بے دردی سے نگل رہا ہے۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام ذمے داری کا مظاہرہ کریں اور ڈاکٹرز کی طرف سے دی گئی ہدایات پر سختی سے عمل کریں، حکومت کو بھی لاک ڈاؤن والے آپشن پر آخرکار مجبوری سے واپس سوچنا ہوگا نہیں تو خدانخواستہ ایک ایسے ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے کہ جس کا انجام قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر منتج ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ نہ تو ہماری صحت کے شعبہ میں اتنی سکت ہے کہ وہ زیادہ مریضوں کو سنبھال سکے اور نہ ہمارے پاس اتنے وسائل ہیں کی اس صورتحال کو قابو کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments