رانا شفیق الرحمن ایک حقیقی سماجی و سیاسی کردار


پاکستان کے مقامی ہیروز پر نظر ڈالیں تو ایسے بے شمار سیاسی، سماجی ساتھیوں کی ایک طویل فہرست ہے، جنہوں نے دائیں اور بائیں بازو کی بنیاد پر علمی و فکری اور انقلابی بنیادوں پر بہت اعلی کام کیا ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں ہیروز کی پذیرائی میں کھیل، فن، اداکاری سمیت کچھ شعبوں کو زیادہ پذیرائی ملی ہے، جب کہ سیاسی، سماجی اور علمی و فکری میدان میں کام کرنے والے حقیقی ساتھیوں کو زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی اور بہت سے لوگ ان کے کاموں سمیت ان کی جدوجہد سے بھی آگاہ نہیں۔

سماج میں وہ لوگ جو کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں اور وہ اپنی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ سماج میں رہنے والے کمزور طبقوں کی جدوجہد میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ ان کے بقول اپنی ذاتی زندگی کی جنگ کے ساتھ ساتھ دوسروں کے حق میں عملی طور پر کھڑا ہونا بھی بڑی جنگ کا حصہ ہے، یہ ہی لوگ دراصل کسی بھی سماج کا حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں اور ہمیں ان پر ہر سطح پر ناز کرنا چاہیے۔

انہی کرداروں میں ایک معاشرے کا چلتا پھرتا کردار میرا جگری دوست سماجی و سیاسی تبدیلیوں کا حقیقی سپاہی رانا شفیق الرحمن بھی عید کی چھٹیوں میں مجھ سمیت اپنے دوستوں کو تنہا چھوڑ گیا۔ اس کا اچانک موت نے واقعی دال اداس کر دیا۔ کئی ماہ سے اس سے ملنے کی خواہش مگر کرونا بحران نے سب کچھ ہی بدل ڈالا اور اس سے وعدے کے باوجود نہ مل سکا۔ خیال تھا عید کے فوری بعد ملوں گا، مگر وہ واقعی جلدی میں تھا اور چلا گیا۔ پنجاب میں سماجی تبدیلی کے حوالے سے اسے کنگ آف پنجاب کہا جاتا تھا۔

پنجاب کے تمام اضلاع، تحصیلوں کی سطح پر اس نے کمیونٹی موبلائزشن پر خوب کام کیا اور چھوٹی چھوٹی سماجی تنظیموں کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں اس کو کمال کا درجہ حاصل تھا۔ باہر سے اعلی تعلیم یافتہ لیکن کام کا انداز بہت زیادہ دیسی اور مقامی ہوتا۔ لب و لہجہ، اطوار، طرز عمل، چال چلن، گفتگو بس ایسے لگتا کہ ہم ہی بول رہے ہیں۔ ایک مکمل مجلسی آدمی جو حقیقی معنوں میں سماج کی تبدیلی پر مکمل یقین رکھتا تھا۔ خیالات میں بغیر کسی تضاد کے بات کرتا اور دوٹوک کرتا، گفتگو میں الجھاؤ اس کا شیوہ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ڈر اور خوف کہ کوئی ناراض نہ ہو جائے۔

کئی برسوں تک میں نے اس کے ساتھ سفر کیا اور سفر کرنے والے کو ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے۔ بغیر کسی لالچ کے ہر ایک کی مدد میں پیش پیش رانا شفیق الرحمن کا کوئی متبادل نہ تھا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر وہ اور میں نے لاہور سے یکجہتی کے لیے دوستی بس کے نام سے تیس کے قریب سول سوسائٹی کے دوستوں کے ساتھ بے نظیر بھٹو کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گئے اور یہ پیغام دیا کہ اہل پنجاب میں سندھ کے اس قومی دکھ میں ان کے ساتھ ہے۔

پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں چھوٹے کسانوں کو خوب موبلائز کیا، تربیت اور شعور و آگاہی کے پروگرام کیے، زراعت پر وہ نہ صرف کتابی بھی بلکہ عملی پی ایچ ڈی تھے اور اس شعبہ میں ان کی مہارت کا سکہ پاکستان سمیت بھارت میں بھی مانا جاتا تھا۔ کسان میلوں کا انعقاد اسی کے ذہن کی اختراع تھی اور کئی صوبوں اور اضلاع میں کسان میلوں کا انعقاد کر کے ان کے حقیقی مسائل میں وہ خود بھی اور اس کی تنظیم ”گرین سرکل آرگنائزیشن“ (جی سی او میدان میں موجود ہوتی) ۔

سیاست پر بھی اس کی گہری نظر تھی اور ہر سیاست کے پہلو پر کمال کی گفتگو کرتا۔ راؤ طارق لطیف، حارث خلیق، بلال نقیب، شہباز ملک، مصطفی بلوچ، ذیشان نوئیل، امتیاز الحق، عطا شیخ اور راقم کے ساتھ اس کے مکالمے خوب تھے۔ بڑی سے بڑی مشکل اور بہت آسان سا جواب اس کے پاس ہمیشہ ہوتا۔ پاکستان این جی کوآرڈنیشن پنجاب کے صدر کی حیثیت سے اس کا کام ہمیشہ یاد رکھا جانے والا ہے۔

کمزور اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا اور جس حد تک اس کی مدد کرنا وہ اس کا خاص شوق تھا۔ ہمیشہ نئے سے نئے خیالات لے کر مجلس میں آتا اور پھر اپنے مقدمے کی بنیاد پر چھا جاتا۔ زرعی شعبوں میں عالمی ٹرینڈز کے مقابلے میں مقامی روایات کو مضبوط بنا کر پیش کرنا اور اسی طرح مورینگا کے پودوں کے ادویاتی استعمال میں تحقیق کے لیے نہایت محنت سے کام کیا۔ پنجاب میں جو مختلف اضلاع میں آپ کو سماجی تنظیموں کا ایک بڑا جال نظر آتا ہے اس میں ایک بڑا کردار خود رانا شفیق الرحمن بھی ہے۔

گاؤں اور چھوٹے شہروں میں بیٹھک لگانا اور مقامی لوگوں پر کوئی ڈکٹیشن دینے کی بجائے ان کے مسائل کو سننا اور انہی کی گفتگو میں سے حل نکال کر دینا اس کی بڑی خوبی تھی۔ کبھی کسی میں یہ احساس پیدا نہیں ہونے دیا کہ ہم شہر سے آئے لوگ ہیں اور ہمیں سب کچھ پتا ہے۔ بس یہ ہی کہتا تھا کہ ہم آپ سے سیکھنے آئے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ سب میں مقبول تھا۔ بھارت کے پنجاب میں اس کی خوب دوستیاں تھیں جب وہ کوئی مہمان وہاں سے آتا تو سب کو اکٹھا کرتا اور خوب مجلس سجتی اور خوب مزاح ہوتا۔

کاش ہم سب ریاست اور حکومتوں کو یہ باور کروا سکیں کہ رانا شفیق جیسے دوست بھی ہمارے قومی ہیروز ہیں اور ان کی بھی ہر سطح پر بڑی پذیرائی ہونی چاہیے کیونکہ یہ اس سماج کا جیتا جاگتا کردار تھا جس کی محنت، لگن، شوق، جدوجہد، دیانت اور عملی کاموں کی وجہ سے آج اس معاشرے میں کچھ خیر کے پہلو بھی موجود ہیں۔ جو سماج سماجی ورکروں سے محروم ہو جائے وہ سماجی حقیقی معنوں میں سماجی بانجھ پن کا شکار ہوتا ہے اور ہمیں ابھی اپنے آپ کو اور سماج کو زندہ رکھنے کے لیے ابھی کئی رانا شفیقوں کی ضرورت ہے، وگرنہ سماج کی تبدیلی کا ایجنڈا بہت پیچھے چلا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments